طارق حمید شاہ ندوی
اردو زبان برصغیر کی ایک دلکش، ادبی اور تہذیبی زبان ہے، جس نے صدیوں تک مختلف قوموں، مذاہب، اور ثقافتوں کے درمیان پل کا کام دیا ہے۔ یہ زبان صرف ادبی اظہار یا شاعری کی زبان نہیں بلکہ ایک مکمل فکری نظام، تہذیبی ورثہ اور فہم و شعور کا آئینہ بھی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کے تعلیمی ماحول میں اردو کو وہ حیثیت حاصل نہیں جو اسے تاریخ، تہذیب اور علم کے اعتبار سے حاصل ہونی چاہیے۔ خاص طور پر اسکولوں میں طلباء کی اردو زبان سے سرد مہری ایک سنجیدہ تعلیمی و تہذیبی مسئلہ بن چکی ہے، جس پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ زبان آنے والی نسلوں سے کٹ کر محض ’’یادوں کی زبان‘‘ بن کر رہ جائے گی۔
اردو سے بے رغبتی کے بنیادی اسباب : اردو سے طلباء کی بے رغبتی کے کئی اسباب ہیں جنہیں مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے:
۱۔ زبان کی افادیت سے لاعلمی۔اکثر طلباء اور ان کے سرپرست اردو زبان کو ’’روزگار سے غیر متعلق‘‘ اور ’’صرف ایک لازمی مضمون‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انگریزی، سائنس، ریاضی اور کمپیوٹر جیسے مضامین ہی ترقی کی ضمانت ہیں۔ نتیجتاً اردو کو ایک غیر سنجیدہ مضمون کے طور پر لیا جاتا ہے، اور اس کی گہرائی، ادبی قدر اور علمی افادیت نظر انداز ہو جاتی ہے۔
۲۔ نااہل اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ۔ ابتدائی جماعتوں میں اردو کی تدریس اکثر ایسے اساتذہ کے سپرد کی جاتی ہے جو یا تو اردو کے بنیادی قواعد سے نابلد ہوتے ہیں یا خود اس زبان سے دلچسپی نہیں رکھتے۔ صرف خانہ پری کے لیے اردو پڑھانے کا عمل بچوں کے ذہنوں میں زبان کی وقعت کو مزید گرا دیتا ہے۔
۳۔ اساتذہ کی معاشی و سماجی پوزیشن۔ اردو اساتذہ کی تنخواہیں عموماً دوسرے مضامین کے اساتذہ کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔ ادارہ جاتی پالیسی میں اردو کو ثانوی حیثیت دینا اس تاثر کو مزید مستحکم کرتا ہے کہ اردو غیر اہم مضمون ہے۔ نتیجتاً اردو پڑھانے والے اساتذہ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں اور ان کے اندر پیشہ وارانہ وقار مجروح ہو جاتا ہے۔
۴۔ جدید تقاضوں سے ناآشنائی۔اردو زبان کی تدریس کا موجودہ انداز عموماً پرانا، غیر جاذب اور یکسانیت کا شکار ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل ذرائع، بصری مواد، اور تخلیقی سرگرمیوں کا فقدان اردو کو بچوں کے لیے بورنگ مضمون بنا دیتا ہے۔
اس صورتِ حال کے اثرات :
� ادبی پسماندگی: اردو ادب کا نیا قاری اور تخلیق کار پیدا نہیں ہو رہا، جس سے زبان کی تخلیقی قوت کمزور ہو رہی ہے۔
� تہذیبی کٹاؤ:اردو چونکہ ہماری تہذیب کی زبان ہے، اس کی دوری تہذیبی شناخت کے بحران کو جنم دے رہی ہے۔
� تعلیمی ناہمواری:زبان میں کمزور بچے دیگر مضامین کو بھی ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے، کیونکہ زبان ہی تمام علم کا وسیلہ ہے۔
� معیاری اساتذہ کی قلت: قابل اور اردو سے محبت رکھنے والے اساتذہ اس شعبے میں آنے سے ہچکچاتے ہیں، جس سے تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
ممکنہ حل اور تجاویز :
۱) اردو کی عملی افادیت اجاگر کی جائے:میڈیا، ادب، صحافت، فلم، ترجمہ، بین الاقوامی اردو کانفرنسوں اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے اردو کی عملی قدر کو اجاگر کیا جائے۔
۲) اساتذہ کی تربیت اور وقار:تربیت یافتہ، باصلاحیت اور ادب شناس اساتذہ کی بھرتی کی جائے، اور انہیں مناسب مالی و سماجی مقام دیا جائے۔
۳) نصاب میں تخلیقی سرگرمیاں شامل ہوں:اردو کے نصاب میں کہانی نویسی، ڈرامہ، مباحثہ، تقریر، مشاعرہ اور زبان کی جدید تدریسی تکنیکوں کو شامل کیا جائے۔
۴) والدین اور معاشرے میں بیداری:والدین اور عوام کو اردو کی اہمیت کا شعور دیا جائے تاکہ وہ بچوں میں اس زبان سے محبت پیدا کر سکیں۔
۵) اردو کے لیے ایک قومی پالیسی:حکومت کو اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیے واضح پالیسی وضع کرنی چاہیے جس میں اسکول سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک زبان کی ترقی کو یقینی بنایا جائے۔
خلاصہ :اردو زبان کو نظرانداز کرنا محض ایک لسانی غفلت نہیں بلکہ اپنی تہذیب، تاریخ اور فکری ورثے سے روگردانی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک مہذب، شعور یافتہ اور تہذیبی ورثہ رکھنے والی قوم کے طور پر پہچانی جائیں تو ہمیں اردو زبان کے فروغ کے لیے فوری، عملی اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر، یہ زبان کتابوں، دیواروں یا ماضی کی یادوں میں سمٹ کر رہ جائے گی — اور ہم صرف افسوس کرتے رہ جائیں گے۔