اُردو میں افسانہ نگاری کی نیو مُنشی پریم چند نے ڈالی۔ان سے پہلے اُردو میں مختصرکہانیاں لکھنے کا باقاعدہ رواج نہیں تھا بلکہ بے ضابط طور پر اور کبھی کبھارادیب کہانیاں لکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ باضابط طور پر افسانہ نگاری کی ابتدا کا سہرامُنشی پریم چند کے سر جاتاہے۔انہوں نے اُردو میں ۲۰۴؍ اور ہندی میں ۲۶۶؍افسانے لکھے ہیں۔پریم چند نے اُردو افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۰۴ میں کیا۔۱۹۰۸ء میں اُن کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سوزوطن‘‘کے نام سے شائع ہوا۔اس مجموعے کی اشاعت نے انگریزی حکومت پر کاری ضرب لگائی۔اس بنا پر اس مجموعے کو ضبط کیا گیا اور اس کی دوبارہ اشاعت پر پابندی لگائی گئی۔ سوز وطن میں کوئی کہانی ایسی نہیںتھی جو ملک میں باغیانہ خیالات پیدا کر سکے یا کسی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکے ۔ بس اتنا ہے کہ اس سے اردوافسانہ نگاری کے پہلے دورکا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے اور قاری کے دل میںحُبِّ وطن کے جذبے کو بیدار کرتا ہے ۔لیکن سرکار کو اس کی اشاعت پسند نہیں آئی اسے ضبط کر لیا گیا اور نواب رائے کو ہدایت دی گئی کہ سرکار سے منظور کرائے بغیر کوئی افسانہ یا مضمون شائع نہ کرائیں ۔ ۱۹۱۵ء میں ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ’’پریم پچیسی‘‘کے نام سے شایع ہوا۔۱۹۲۰ء میں تیسرا مجموعہ ’’پریم بتیسی‘‘اور ۱۹۲۸ء میں چوتھا مجموعہ ’’خاکِ پروانہ‘‘،پانچواں مجموعہ’’خواب و خیال‘‘اور چھٹا مجموعہ’’فردوس خیال‘‘،۱۹۳۰ء میں ساتواں مجموعہ ’’پریم چالیسی‘‘ ۱۹۳۴ء میں آٹھوں مجموعہ ’’آخری تحفہ ‘‘ اور ۱۹۳۶ء میں نواں مجموعہ ’’زادِراہ‘‘ شائع ہوئے۔پریم چند کی وفات کے بعد اُن کے دو اور مجموعے ’’دودھ کی قیمت‘‘اور ’’واردات‘‘شائع ہوئے۔اِن کی افسانہ نگاری کے تین دور ہیں۔پہلا دور جذباتی ہے،دوسرا دورسماجی ہے اور تیسرا دور سیاسی ہے۔پریم چند کے افسانوں میں حقیقت نگاری کی جھلک نظر آتی ہے۔ پریم چند کے بعد سدرشن،اعظم اور علی عباس حسینی اور فضل قریشی نے ان کی راہ اختیار کر لی۔سدرشن کے افسانوں کے مجموعے’’سولہ نگار‘‘ ،’’چندن‘‘ ، ’’بہارستان‘‘ اور محبت کا انتقام ہیں۔اعظم کے فسانوں کے مجموعے’’ پریم چوڑیاں‘‘ اُ ن کے رنگ و آہنگ کی نمائندگی کرتا ہے۔علی عباس حسینی کے ا فسانوں کے مجموعے’’باسی ٖپھول‘‘میں ہیرے اور جواہرات بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔فضل قریشی نے اپنے افسانوں میں اوسط درجے کے لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے جس کا ثبوت ’’ گناہِ شباب ‘‘ میں ملتا ہے۔قوم و ملک کی اصلاح کے لئے جوش نے ’’فسانہ جوش‘‘ کے عنوان سے افسانوں کا ایک مجموعہ تیار کیا۔حامدﷲافسر میرٹھی کے افسانوں کا مجموعہ ’’ڈالی کا جوگ‘‘ہے جس میں مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کی عکاسی ملتی ہے۔اس کے بعد ظہور احمد نے ’’وہ درویش‘‘ ، کاظم نے ’’اپنے خواب‘‘ ، احمد حسین نے ’’فیروزہ نگار‘‘ ، رضیہ فرحت نے ’’اُلجھے تار‘‘ کے عنوانات سے افسانوی مجموعے قلم بند کئے۔ سجاد یلدرم نے ’’خیالستان‘‘ ، ’’حکایات و احساسات‘‘او ر’’ ازدواجِ محبت ‘‘ کے نام سے افسانوی مجموعے تحریر کئے ۔ایم اسلمؔ کا افسانہ ’’ مرگ محبوب ‘‘ ایک مشہور افسانہ ہے۔
رومانوی افسانہ نگاروں میں نیاز فتح پوری کا نام قابل ذکر ہے۔نیاز نے تاریخی،اصلاحی اور اخلاقی افسانے لکھئے ہیں ۔مرزا ادیب نے افسانوں کا ایک مجمو عہ’’ صحرا نورد کے خطوط ‘‘ کے نام سے لکھا ۔مجنون گھورکھپوری کے فسانوں کے مجموعے ’’سمن پوش‘‘ اور ’’خواب و خیال‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ بہت سی دوسری زبانوں کے افسانوں کا اردو میں ترجمے کئے گئے ۔عظیم بیگ کے افسانوں کا مجموعہ ’’بھاگ متی‘‘،شوکت تھانوی کا مجموعہ’’طوفانِ تبسم‘‘بھی قابل قدر فن پارے ہیں۔
دورِحاضر میں کنہیا لال کپور کے ،مزاحیہ افسانوں کے مجموعے’’سنگِ وحشت‘‘،’’چنگ و رباب‘‘،نوکِ نشتر‘‘، ’’شیشہ و تیشہ‘‘اور ’’بال و پر ‘‘بلند درجہ کے افسانے ہیں۔ترقی پسندتحریک میں سعادت حسن منٹو کا نام بہت ہی اہم ہے۔انہوں نے ’’شرابی‘‘، ’’دھواں‘‘، ’’چانکی‘‘اور ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ لکھ کر اپنے آرٹ کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔اس کے بعد کرشن چندر کا نام قابل ذکر ہے۔انہوں نے دیگر زبانوں کے افسانوں کے اردو میں ترجمے کئے ہیں اور بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔’’گھونگھٹ میں گوری چلے‘‘ ، ’’ٹوٹے ہوئے تارے‘‘ ، ’’ زندگی کے موڑ پر‘‘ ، ’’نغمے کی موت‘‘ ، ’’پُرانے خُدا‘‘ اور’’ ہم وحشی ہیں‘‘ ان کے افسانوں کے بیش قیمت مجموعے ہیں ۔ قحط ِبنگال پر لکھا گیا ان کا مشہور افسانہ’’ اَن؎ داتا‘‘ہے ۔ اس افسانے میں مواد اور اسلوب نے مل کر ایک اچھوتی چیز پیش کر دی ہے ۔قحط ِبنگال پر کئی افسانے لکھے گئے ہیں اور ممکن ہے بعض افسانوں میں’’اَن داتا‘‘سے بھی زیادہ تیکھا پن اور گہرائی ہو لیکن جوچیز’’اَن داتا ‘‘کو منفرد اور ممتاز بناتی ہے وہ فن کار کی رسائی اور تکنیک ہے۔ایک ہی مواد پر تین زایوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔قحط پر تین مختلف تاثرات کی عکاسی کی گئی ہے۔یہ تینوں حصے الگ الگ تکنیک میںہیں ۔پہلے حصے میں خطوط ،دوسرے میں مکالمات،بیان اور عمل کا امتزاج اور تیسرے میں خود کلامیں ہے۔اس کے بعد راجندر سنگھ بیدی ؔ،حیات ﷲانصاری ،عصمت چغتائی ، اختر انصاری ، احمد علی، محمد حسین،اپندرناتھ اشک،احمد ندیم قاسمی ،سہیل عظیم آبادی ، رام لعل،شفیق الرحمان،قرۃالعین حیدر، ہاجرہ مسرور ،ممتاز مفتی، کشمیری لعل، جوگندرپال، بانو قدسیہ ، انتظار حسین، شوکت صدیقی،اشفاق احمد مشہور افسانہ نگار ہیں ۔اس دور کے افسانہ نگاروں میں قرۃالعین حیدر کا نام سر فہرست ہے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ ستاروں سے آ گے‘‘ ، ’’شیشے کے گھر‘‘ ، ’’پت جھڑکی آواز‘‘ افسانوی ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔اب افسانہ ترقی کر رہا ہے اور آگے رواں دواں ہے۔
تاریخی اعتبار سے افسانہ ہمارے ادب میں ناول کے بعد کی پیداوار ہے۔پریم چند دبستان سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار نے موضوعات کے اعتبار سے اردو افسانے میں تنوع پیدا کیا ۔انہوں نے دیہاتی زندگی کی واضح تصویر یں کھینچیں اور پسماندہ طبقے کی نمائندگی کی۔انہوں نے تحریک آزادیٔ ہند کی مختلف منزلوں کی نشاندہی کی اور جہد آزادی کی عکاسی کی ۔ان کی ان تخلیقات کو پڑھنے سے محسوس ہوتاہے کہ جیسے وہی لوگ ان افسانوں کے چلتے پھرتے لوگ ہیں ۔ان تخلیقات کی بنا پر پہلی بار حقیقت کو لوگوں نے محسوس کیا ۔ پریم چند نے اپنے مختصر افسانوں میں مشرقی مزاج کے مطابق مغربی تکنیک سے استفادہ کیا اور حقیقی زندگی کو اپنے فن کا موضوع بنا کر اردو میں ایک ایسی واقعیت اور حقیقت نگاری کو رواج دیا۔کسانوں ، مزدوروں،محنت کشوں اور افلاس زدہ لوگوں کے سینون میں دہکتی ہوئی آگ کو زبان دے دی۔اردو افسانہ میں سماجی حقیقت نگاری کی بنیاد پریم چند ہی نے ڈال دی۔’’ پریم چند کی روایت سے متاثر ہو نے والے معاصر ادیبوں کی ایک بڑی تعداد منظر عام پر آگئی جن میں سے علی عباس حسینی،اعظم کریویؔ او ر سدرشنؔکے نام قابل ذکر ہیں۔‘‘
جدید افسانے عام معنوں میں دو طرح کے ہوتے ہیں ۔تجریدی اور علامتی ِاب نہ الفاظ کے اسراف کی گنجائش ہے نہ واضح بیانات کی اور نہ ہی مزیں زبان و بیان کی ۔بقولِ گوپی چند نارنگ:’’ افسانے کا سفر زبان کے چٹخارے سے انحراٖف کا سفر ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے افسانوں اور روایتی افسانوں میں رویے کا فرق بنیادی فرق ہے۔اس نے افسانے کی پیش کش کو بھی متاثر کیا ہے۔افسانے لکھنے کے لئے جس سنجیدگی اور محنت و مشقت کی ضرورت ہے ۔افسانہ کی تنقیدو تفہیم بھی اتنا ہی صبر طلب اور مشکل کام ہے کیوںکہ یہ تنقید نگار سے متعدد تقاضے کرتا ہے مثلاََپوری کہانی پر نظر ہونا،کہانی کے اجزاء،زبان ،پلاٹ اور فن قصہ نگاری سے گہرے اور مسلسل توجہ کا تقاضا۔جدید افسانے میں تکنیک کی سطح پر بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے آج کے افسانے میں بعض فنکاروں نے آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک کو برتا ہے ۔لیکن بنیادی تکنیک تجریدی اور علامتی ہے ۔بلراج مین را،سریندر پرکاش،،سلام بن رزاق،قمر احسن،شوکت حیات،شفق،عبدالصمد،اور بیسوں دوسرے آج کے نمائندہ فنکار ہیں جو کیفیات کو گرفت میں لیتے ہیں اور علامتوں کے ذریعے ان کا اظہار کرتے ہیں جو حیات اور کائنات کے مختلف مسائل کو ہئیت کے نئے اور شاداب تجربوں میں ڈھال کر پیش کررہے ہیں۔’’اردو افسانہ ہر عہد کی حقیقتوں کا نترجمان اور ہر زمانے کے مسائل کا عکاسی رہا ہے۔چنانچہ نئے افسانہ نگار وں نے اپنے عہد کے دکھ،پریشانیوں ،جہالت اور توہم پرستی وغیرہ کو براہِ راست اپنا موضوع بنایا ہے‘‘۔
جہاں تک اس افسانوی ادب کا تعلق ہے جس نے سماج کے مختلف پہلوؤں کو واضح طور پر اُجاگر کیا اور سماج میں ہو رہے مختلف واقعات اور حقائق کو سامنے لاکھڑا کیا وہ ہے پریم چند اور اس کے ہم عصر افسانہ نگار جنھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے ہندوستان کی دیہاتی اور شہری زندگی کو روزِروشن کی طرح عیاں کیا اور اس زندگی کے مختلف گوشوں کو نمایاں کیا ۔غرض کہ سماجی حقائق بر سر عام آگئے اور اقدار اور اوقات میں روز بہ روزتبدیلی آتی گئی ۔ انسانی سوچ و فکر میں تبدیلیاں آتی رہی اور آتی رہے گی۔
دورِ جدید میں افسانہ نگا ری کمپوٹر ،سوپر کمپوٹر،سمارٹ فون اور گلوبل ولیج جیسی اصلاحات کا متقاضی ہے اورافسانہ نویس و نقاد دونوں کے لئے اب ایک امتحان کی گھڑی ہے جس میں دونوں آزمائے جائیں گے ۔اسی طرح افسانہ نویس اور قاری زندگی کے تلخ تجربات سے دوچار ہو رہے ہیں ۔زمانہ نئی کروٹیں لے رہا ہے ۔سماج ،سیاست،اقتصاد اور معاشرت نئی تبدیلیوں سے ہم کنار ہورہے ہیں ۔ان ہی پیمانوں پر افسانہ نگار اور دوسرے فن کاروں کو بھی اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا۔ جدیت کا تقاضا ہے کہ افسانہ بھی جد ید یت کا متقاضی ہو اور اس سب کے باوجود یہ افسانہ سماج میں نئی تبدیلیاں لانے کا داعی ہو۔ سماج اور معاشرے میں موجود خامیوں کو صرف ٹٹولنا ہی افسانہ نگار اور ادیب کا کام نہیں بلکہ ان خامیوں کا مداوا کرنے کا بھی اس میں داعیہ ہو۔یہ جدید افسانہ نگار کی ذمہ داری ہے جس کا سماج اور معاشرہ متمنی ہے۔
رابطہ:گورنمنٹ ماڈل ہائرسیکنڈری اسکول۔۔۔ چندوسہ بارہمولہ کشمیر
فون نمبر:۔9469447331