ایم ڈبلیوانصاری
سرزمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا
ممتاز مجاہد آزادی، جدید اُردو غزل کے امام، بے بدل شاعر، نقاد،رگھوپت سہائے فراقؔ گورکھپوری اپنی اُردو خدمات کے لئے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔رگھوپت سہائے فراقؔ کی ولادت28اگست 1896کواترپردیش کے مردم خیز علاقے بانس گائوں میں ہوئی اور انہوںنے 3مارچ1982کو اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ فراق گورکھپوری کی یوم ولادت کے موقع پر ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
فراقؔ گورکھپوری کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور انہوںنے اُردو فارسی اور سنسکرت زبان میں کامل عبور حاصل کیا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فراقؔالٰہ آباد چلے گئے۔1918ء میں سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگرملازمت نہیں کی۔اسکے بعد وطن کی جدوجہد میں لگ گئے اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔1930 میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی مضمون میں ایم اے کیا اورآلہ آباد یونیورسٹی میں معلم مقرر ہوئے اور یہیں سے وظیفہ حسن خدمت پر ریٹائر ہوئے۔
فراق گورکھپوری اُردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ جدید اُردو غزل کے امام ہیں۔فراقؔ کا شمار اُردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ان کے شاعری مجموعے میں روح کائنات، شبستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ’’رباعی‘‘، شعلہ ساز، پچھلی رات،مشعل اور گل نغمہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔فراقؔ گورکھپوری کی خانگی زندگی بہت پُر سکون نہیں تھی باوجود اس کے فراقؔ نے اردو زبان و ادب کی جو خدمات انجام دی ہیں انہیں کبھی فرامو ش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ان کی گراں قدر خدمات کے لئے ہی انہیں سب سے پہلا گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا تھا۔
اردو ہندوستان کی وہ طاقتور زبان ہے جو پورے بھارت کے مختلف خطوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کر رہی ہے،نفرت کی آندھی میں محبت کی شمع جلائے ہوئے ہے اسی اُردو زبان کو آج اس ملک میں تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا تعصب، اُردو کے تئیں غیروں میں نفرت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ حکومت ہی نہیں وہ عناصر جو اُردو سے ذات پر خاش رکھتے ہیں وہ اُردو کو مٹانے کے در پے ہے لیکن اس کے باوجود پیاری زبان اُردو سب کو ایک دھاگے میں باندھے ہوئے ہے۔ اردو ایک زندہ زبان ہے۔جو ہماری مشترکہ تہذیب کی پہچان ہے۔ آج ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اردو کو مٹنے سے بچائیں۔ اسلئے کہ موجودہ وقت میں تو اُردو بولنے ، لکھنے اور جاننے والے موجود ہیں لیکن آنے والی نسل کو اگر ہم نے یہ تہذیبی سرمایا منتقل نہیں کیا تو آنے والی نسل اردو کو بھول جائے گی اور قصوروار ہم سب ہونگے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اُردو کا پہلا باقاعدہ شاعر چندربھان برہمن تھا اور آج بھی ساہتیہ اکیڈمی آف انڈیا اُردو مشاورتی بورڈ کا جو سربراہ ہے وہ چندربھان خیال ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سنسکرت سے نکلنے والی تیرھویں زبان جسے ہم اُردو کے نام سے جانتے ہیں اس کی بقاء کے لئے کام کیا جائے۔ اُردو اساتذہ کی تقرری ہو، کالجز میں اُردو ، عربی اور فارسی ڈپارٹمنٹ کھولے جائیں، اُردو نصاب کی کتابیں خاص کرکے سائنس ، میتھس، بائیولوجی، ٹیکنالوجی وغیرہ کی کتابیں طلباء کو مہیا کرائی جائیں۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔جسے حکومت نہیں نبھا رہی ہے۔
حکومتیں چاہے جس پارٹی کی ہوں وہ اُردو کے تئیں تعصبانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے کام کی ذمہ داری نہیں نبھارہی ہیں ۔اردو کی بقاء و فروغ کے لئے جو ادارے قائم ہیں انہیں بند کیا جارہا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں راجستھان اُردو اکیڈمی کو بند کر دیا گیا ،اسی طرح جہاں جہاں بھی ادارے قائم ہیں انہیں سرکاری گرانٹ نہیں مل رہی ہے جس سے یہ ادارے اُردو کی بقاء و فروغ کے لئے کام نہیں کر پارہے ہیں۔تمام محبان اُردو کو ایک پلیٹ فارم پر آکر، ایک ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر اُردو کی بقاء و فروغ کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی۔
بے شک فراقؔ گورکھپوری نے اُردو زبان کی جو خدمات کی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے گراں قدر اعزازات سے بھی نوازا۔ لیکن آج وہی پیاری زبان جو رگھوپت سہائے فراقؔ کی دل کی زبان تھی اسی کا وجود خطرے میں ہے ۔ پیاری زبان بھارت کی بیٹی اُردو کے وسیع دامن کو تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن اُردو کے ساتھ جو سوتیلا سلوک ہمارے ملک بھارت میں ہو رہا ہے یقینا آج فراقؔ گورکھپوری حیات ہوتے تو انہیں بہت تکلیف ہوتی۔اُردو نے فراقؔ گورکھپوری، برج نارائن چکبست، آنند نارائن ملا، جگناتھ آزاد جیسے ہزاروں شعراء، ناول نگار، ادباء کو پوری دنیا میں متعارف کرایا آج اس اُردو کے ساتھ سوتیلا سلوک یقینا ان کی روح کو تکلیف پہنچاتا ہے۔
تمام تر پریشانیوں کے بیچ اُردو کی خدمت کرنے والے فراق ؔگورکھپوری کے یوم پیدائش پر ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔ ہم سب یہ عہد کریں کہ بھارت کی بیٹی کوبچانے کے لئے ہم خود اپنی ذات سے پہل کریں گے اور یقینا ہماری چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے ہی بڑا انقلاب آئے گا ۔اُردو کی بقاء و فروغ ہی فراق گورکھپوری اور ان جیسے خدام اُردو کے لئے سچی خراج عقیدت ہوتی ہے۔
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
?????????????????