محمد عرفات وانی
دروازے کی چرچراہٹ نے جیسے کمرے کی خاموشی کی قبر پر پہلی دستک دی۔۔ ایک دبلا پتلا لڑکا، گہری خاموشی کے حصار کو چیرتا ہوا۔۔نہایت آہستگی سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرانی، بارہا استعمال شدہ پلاسٹک کی تھیلی تھی، جس میں دو کتابیں اور ایک ٹوٹا ہوا lunch box رکھا تھا۔۔ لباس پر ایک شکن تک نہ تھی۔ قمیض اتنی اجلی اور بے داغ تھی گویا چاندنی رات میں دھو کر رکھی گئی ہو مگر آنکھوں کے گرد سیاہ ہالے، پیروں کی ایڑیاں اور جوتوں پر جمی مٹی چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ یہ اجالا فاقوں کے اندھیروں سے کشید کیا گیا ہے۔
آ گئے سلیم؟ دیر کیوں ہوئی بیٹا؟ استاد کی آواز میں وہ نرمی تھی جو کسی ٹوٹے ہوئے دل پر مرہم رکھتی ہے اور کسی زخمی روح کو سہارا دیتی ہے۔
سلیم نے سر جھکا کر آہستہ کہا۔۔ابو کی سائیکل پنکچر ہو گئی تھی سر… میں دھکا دے کر ورکشاپ تک لے گیا۔
کچھ بچوں کے قہقہے فضا میں گھلنے لگے جیسے غربت کا مذاق ان کے لیے ایک مشغلہ ہو مگر استاد کی آنکھیں چند لمحوں کے لئے بھیگ گئیں۔۔ وہ خاموشی جو دل کی گہرائیوں میں جنم لیتی ہے وہی خاموشی ان کی نگاہوں میں اُتر آئی۔ تحسین، درد اور احترام کی ملی جلی تصویر۔
کبھی کبھی اُجلا لباس صرف ایک ماں کی دعا ہوتا ہے، جو غربت کو چھپا تو لیتا ہے مگر مٹا نہیں سکتا۔
سلیم کا گھر یا یوں کہیں امیدوں کا آشیانہ اینٹوں، مٹی اور کچے خوابوں کا ایک جھونپڑا تھا۔چھت پر پلاسٹک کی چادریں، دروازے پر ایک بوسیدہ کمبل اور فرش پر بوری بچھی ہوئی۔۔۔ مگر جب سلیم اس بوری پر بیٹھ کر اپنی کتاب کھولتا تو وہ جگہ علم کا ایک قلعہ بن جاتی۔۔ وہاں روشنی چراغ سے نہیں خواب سے نکلتی تھی۔۔۔
بیٹا..کپڑے تو وقت کے ساتھ پھٹ جاتے ہیں مگر علم ایسا لباس ہے جو تجھے زمانے کے سامنے کبھی ننگا نہ ہونے دے گا۔.. ماں اکثر کہا کرتی۔
ایک رات سلیم کتاب پر سر رکھے سو گیا۔. ماں نے آہستگی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور دھیرے سے کہا..تیرے ابو مزدوری کرتے ہیں تاکہ تو قلم سے زندگی لکھ سکے… تو ان کی امید ہے.. سلیم۔
اسی رات سلیم کے دل میں ایک عہد نے جنم لیا… کہ غربت اس کے خوابوں کی دیوار نہیں بنے گی۔
دن گزرتے گئے۔اسکول میں نصاب کے ساتھ ساتھ سلیم کی غربت بھی بچوں کی گفتگو کا حصہ بن گئی۔مگر وہ ہر دن اپنی ماں کی دعا، اپنے باپ کی قربانی اور اپنے اندر کے چراغ کے ساتھ اسکول آتا۔ اس کی خاموشی، اس کی نظریں اور اس کی ہمت وقت کے ساتھ بولنے لگیں۔
سالانہ تقریری مقابلے کا دن آیا۔ اسکول میں رونق تھی۔ ہر بچہ نئے کپڑوں میں ملبوس، چمکتے جوتوں اور قیمتی گھڑیوں کے ساتھ آراستہ۔ سلیم کے پاس وہی ایک اُجلا لباس تھا مگر اس کی ہر شکن میں ماں کی دعا اور ہر دھاگے میں غیرت کی روشنی چھپی تھی۔
جب وہ اسٹیج پر چڑھا تو سرگوشیاں شروع ہو گئیں…یہ وہی غریب لڑکا ہے… کیا بولے گا؟
مگر جیسے ہی اس نے بولنا شروع کیا۔مرے کی فضا بدل گئی۔
مجھے الفاظ کو سنوارنا نہیں آتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میری ماں رات کا کھانا چھوڑ دیتی ہے تاکہ میری کاپیوں پر دھبہ نہ پڑے۔ میرے ابو کے ہاتھوں کی دراڑیں میرے خوابوں کی بنیاد ہیں۔ میرے پاس دولت نہیں مگر ایک ایسی بھوک ہے جو صرف علم سے ہی مٹ سکتی ہے۔
ہال میں مکمل خاموشی چھا گئی۔۔۔ وہ خاموشی جو صرف عظمت کے سائے میں جنم لیتی ہے۔ آنکھیں نم ہو گئیں، دل تھرتھرا اٹھے۔۔۔وہ بچے جو پہلے ہنسے تھے اب شرمندگی کے مارے نظریں جھکا چکے تھے۔ انہوں نے پہلی بار غربت کو نہیں عظمت کو دیکھا تھا۔
وقت کی چال تیز تھی مگر سلیم کی لگن اس سے بھی تیز نکلی۔ غربت پیچھے رہ گئی مگر جو کچھ وہ دے گئی..صبر، تہذیب، توقیر وہ سلیم کی پہچان بن گئی۔ برسوں بعد وہی سلیم جو کبھی اسکول چپلوں میں آتا تھا آج ڈاکٹر سلیم کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔
اس نے ایک اسپتال قائم کیا… ان بچوں کے لئے جو اُجلے کپڑوں میں آتے ہیں مگر جن کے اندر غربت، بیماری اور بے بسی چھپی ہوتی ہے۔۔ وہ اسپتال جہاں صرف جسموں کا نہیں بلکہ خوابوں کا بھی علاج ہوتا ہے۔
افتتاحی تقریب میں استاد بھی موجود تھے وہی استاد جنہوں نے ایک دن پوچھا تھا۔۔۔دیر کیوں ہوئی؟
سلیم نے ان کے قدموں کو چھوا اور مسکرا کر کہا۔۔۔سر میں کبھی دیر سے نہیں آیا… بس تھوڑی دور سے آیا ہوں۔
غربت… اگر ماں کی دعاؤں اور باپ کی محنت میں ڈھل جائے تو وہ رکاوٹ نہیں منزل بن جاتی ہے اور جب کوئی اپنے خوابوں کی منزل پر پہنچتا ہے تو دنیا اس کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور خاموش ہو کر سلام کرتی ہے۔
���
کچھمولہ ترال پلوامہ کشمیر