گھر میں ماتم کا ماحول تھا۔ عورتیں رہ رہ کر بین کر رہی تھیں۔ غم و اندوہ کا غبار گھر کی دیواروں پر بھی تہہ بہ تہہ جم رہا تھا۔ جوں ہی سجاد گھر میں داخل ہوا سب کچھ جیسے تھم سا گیا۔ گھر میں موجود سبھی لوگوں نے جیسے سانس لینا بھی بند کر دی۔ لیکن جوں ہی اُنہیں یوسف کے نہ ملنے کا پتہ چلا تو سبھی نے رونا پیٹنا پھر شروع کر دیا۔ اُنکی چیخوں سے لگتا تھا کہ آسمان ابھی ٹوٹ کر گرجائے گا۔ اب کی بار دلاسہ دینے کیلئے باہر سے بھی کوئی نہیں آیا کیونکہ سجاد کے گھر پہنچنے تک اندھیرے کی سیاہ چادر ساری بستی پہ تن گئی تھی اور لوگوں نے وحشی تیندئوں، جنہوں نے بستی والوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دی تھیں، کے خوف سے در و دریچے بند کر دئے تھے۔ کوئی اچک کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بس درد و کرب اور اداسیوں کا سمندر دور دور تک پھیلا ہوا تھا، جیسے اس بستی میں اکثر ہوتا آرہاتھا۔
سجاد اپنے بیٹے یوسف کو کئی دنوں تک ڈھونڈ تا رہا۔ ندی نالوں، جنگلوں، میدانوں، کھیت کھلیانوں، قبرستانوں اور باغوں میں تلاش کرتا رہا مگر یوسف کہیں نہیں دکھا۔ نہ زندہ نہ ہی مردہ۔ جن علاقوںمیں وہ پھیری کرتا تھا وہاں بھی جان پہچان والے لوگوں سے پوچھا پر بے سود۔ آخر تھک ہار کر تھانے میں جاکر رپورٹ درج کروادی اور دل پر پتھر رکھ کر گھر کی راہ لی۔ اتنا ہی تو تھا اُس کے بس میں، اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
یوسف پھیری لگاتا تھا اور بستی بستی گائوں گائوں جاکر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا تھا۔ اُس دن بھی وہ گٹھری کاندھے پر اُٹھا کر گھر سے کہیں دورنکل گیا تھا لیکن رات دیر گئے تک جب واپس نہیں لوٹا تو سبھی گھر والے پریشان ہوگئے، کیونکہ حالات ٹھیک نہیں تھے اور آئے روز لوگوں کے غائب ہونے کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا گھر والوں کی بے چینی و بے قراری بڑھتی گئی اور انہیں وسوسے اور اندیشے گھیرنے لگے۔ سیاہ اور وحشت زدہ رات لمبی ہوتی گئی۔ ماں نے دروازہ کھُلا رکھا تھا۔ بیوی بار بار آنگن میں جاکر دور تک نظریں دوڑاتی ۔ سیل فون بھی بند آرہا تھا۔ بس اتنا تو کافی تھا سٹپٹانے اور تڑپنے کیلئے۔ ستم برساتی ہوئی رات کیسے گزری؟ گھر کے افراد ہی بہتر جانتے ہیں۔
صُبح چلہ کلان کا ٹھنڈا، دھندلا اور مریل سا سورج طلوع ہوا تو سجاد کا سفر بھی اپنے لخت جگر کو ڈھونڈنے کیلئے شروع ہوگیا، درد و کرب کے ساتھ مگر خالی ہاتھوں واپس لوٹ آنے سے سب کی اُمیدیں جیسے ٹوٹ گئی تھیں۔
سبھی غم کے بیکراں سمندر میں ایسے ڈوب گئے تھے کہ یوسف کے کم سن بچے کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جارہا تھا۔ وہ تھا کہ پریشان اور سہما ہوا، اس غیر مانوس سی حالت میں وہ کیا دیکھ رہا تھا اور کیا سوچ رہا تھا؟ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ سجاد کا دھیان پوتے کی طرف مبذول ہوا تو اُس کا کلیجہ مُنہ کو آگیا۔ اُس نے پوتے کو گود میں لیا، پچکارا دُلارا، کچھ یاد آیا تو گلا رندھ گیا۔ سوچنے لگا اس معصوم بچے کا اب کیا ہوگا؟۔۔۔ بہو بھی ابھی جوان ہے۔ صرف چار سال ہی تو ہوئے ہیں بیاہ کو۔
سجاد زور زور سے رونا چاہتا تھا لیکن بہت کچھ سوچ کر رونے سے باز رہا اور آنکھیں پونچھ ڈالیں۔ وہ جانتا تھا اگر اُس نے اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھا تو گھر کا سفینہ درد کے اس سمندر میں غرق ہوکر رہ جائے گا۔ سجاد نے بچے کے معصوم چہرے کو چوما، اُسے اپنے سینے سے لگایا اور اندر ہی اندر تہیہ کر لیا کہ اکلوتے بیٹے یوسف کی اکلوتی نشانی پر اب آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔۔۔ دل و جان سے اِس کی پرورش کرے گا۔۔۔ سجاد ان ہی خیالوںمیں ڈوبا ہوا تھا کہ بچہ طوطلی زبان میں اپنے دادا سے پوچھنے لگا۔ ’’دادو! ابو کہاں ہے؟۔ وہ کبھی نہیں آئے گا اب؟ شب لو لہے ہیں ماں اور دادی بھی لوتی ہے۔۔۔‘‘ دادا کے پیار دُلار سے بچے کے اندر کا خوف اب کچھ کم ہوا تھا۔ اُس نے اپنے اندر کھَل رہی بات پوچھی۔
’’نہیں راجہ جی، میری جان! وہ ضرور آئے گا۔۔۔ تیرے لئے ڈھیر ساری چیزیں لائے گا۔۔۔‘‘
سجاد نے ہاتھ اوپر اُٹھائے اور دُعا مانگی۔ پوتے کو پھر ایک بار سینے سے لگایا۔ بچے کی کہی ہوئی بات جیسے اُسکے جگر کو چیر گئی۔ ’’نہیں آئیگنے ابو۔۔۔۔ چیجیں نہیں لائیئنگے، اُسکو ٹینڈوا کھا گیا ہے نا‘‘۔
’’راجہ جی ایسا نہیں بولتے۔۔۔ اپنے ابو کے بارے میں۔۔۔ گندی بات ہے۔۔۔۔‘‘
سجاد کا سینہ پھٹا جارہا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر کہنا چاہتا تھا ۔۔۔’’ہاں ہاں‘‘ پر کہا نہیں۔ صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ گیا۔۔۔
بچہ اب بھی چُپ نہیں ہورہا تھا۔ اُسکی معصوم سوچ میں جو کچھ تھا وہ کہہ دینا چاہتا تھا۔ پھر پوچھنے لگا۔
’’دادو ٹینڈوے کیوں آتے ہیں جنگل سے ہمالی بشتی میں؟۔۔۔ لوگوںکو مالتے ہیں۔ کھاتے ہیں۔۔۔‘‘
اب کی بار دادو کچھ نہ بولا مگر آنسوں کو بہنے سے روک بھی نہ سکا۔ دادا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بچہ پھر اُداس ہوگیا اور بہت دیر تک چپ بھی نہ رہ پایا۔ سوچ کر کہنے لگا۔’’ دادو تم مجھے بندوق لادو گے نا؟ میں شبھی ٹینڈووں کو مار ڈالوں گا‘‘
دادو نے چونک کر پوتے کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اُس کو لگا جیسے گھنے بادلوں میں سے بجلی زور سے کوندی ہو۔ اُس نے پوتے کو پھر اپنے سینے سے لگا دیا۔ کہیں یہ بھی بندوق اُٹھا کر جنگل کی طرف نہ نکل پڑے۔
موبائل نمبر؛9858433957