حالیہ اسمبلی انتخابات کےد وران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مجموعی فتح، خاص کر اہم ترین شمالی ریاست اُتر پردیش میں تین چوتھائی نشستوں پر کامیابی نےجہاں سارے ہندوستان میں سیاسی تجزیہ نگاروں کےتجریاتی ڈھانچوں کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں وہیں مسلمانوں کے درمیان انتشار اور نا اتفاقی کا ثبوت پیش کرکے مسلمان قیادت ، خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی ، کوعریاں کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے پس پشت وجوہات ، جس کی فہرست کا فی طویل ہو سکتی ہے، سے صرف نظر کرتے ہوئے فی الوقت یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُتر پردیش میں ایک انتہا پسند ہندتوا مبلغ کے وزارت اعلیٰ کے منصب پر متمکن ہونے سے اس ریاست میں مسلمانوں کےخلاف شدت پسندی کے اُس محاذ کے پھاٹک وا ہوے ہیں، جسکا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔ وزیراعلیٰ موصوف کے منصب سنبھالنے کے پہلے ہی دن ریاست بھرمیں زبح خانوں کو بند کرنے کےلئے پالیسی ترتیب دینے کا فیصلہ کیا گیا ، جبکہ کوئی باضابطہ حکمنامہ جاری ہوئے بغیر ہی کئی ایسے زبح خانے پولیس نے سر بمہر کر دیئے جنکے متعلق بتایا جاتا ہے کہ انہیں سرکاری منظور ی حاصل نہیں ہے۔ اسی دن گوشت فروخت کرنےوالی کئی دوکانوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا، جس سے سارے اُتر پردیش ریاست میں مسلمانوں کے اندر تشویش کی لہر پیدا ہوگئی ہے کیونکہ ان پر متواتر گائو کشی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ ابھی ابتداء ہے، آگے اُس ہند توا ایجنڈا کے باقی نکات کو روبہ عمل لانے کی منظم کوشش ہونگی، جو ظاہر ہے مسلمانوں کو پشت بہ دیوار کرکے، بقول ان انتہا پسندوں کے ہندوستان کو ’’ ہندو راشٹر‘‘ کے قالب میں ڈھالنے کےلئے ضروری ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ’’ بابری مسجد‘‘ قضیہ کو عدالت سے باہر باہمی افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنے کا مشورہ دیا ہے مگر بھاجپا کے کچھ لیڈروں نے مشورت کا کوئی سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی واضح کیا ہے کہ اگر مسلمان کسی فیصلے پر متفق نہ ہوں تو ’’ بابری مسجد ‘‘کی جگہ ’’ رام مندر‘‘ تعمیر کرنے کےلے ریاستی اسمبلی کے ذریعہ قانون بنایا جائے گا، جس کےلئے بی جے پی کے پاس تین چوتھائی اکثریت ہے۔ غرض ہر گزرنے والے دن کےساتھ مسلمانوں کو پشت بہ دیوار کرنےکی پالیسی کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش تیز ہو رہی ہے، جسکا ملک کی سیکولر قیاد ت اور اور مسلم رائے عام کوسنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے۔ اگر چہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتیں اور قائدین کے دعوے عملی میدان میں کھوکھلی نعرہ بازی ہی ثابت ہو ئے ہیں تاہم یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اُنہیں اپنے اندر اتحاد و اتفاق پید اکرکے ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے تاکہ انتہا پسند ہندتوا قوتیں مسلمانوں کو پشت بہ دیوار کرنے کی کوشش اُس حد تک آگےنہ بڑھاپائیں، جہاں سے جوابی انتہا پسندی کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ دائیں بازوں کے انتہا پسند عام حالات میں بھی امن پسند اور سیکولر مزاج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر معمول کے قانونی مسائل کو دہشت گردی کے الزامات سے جوڑنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کےلئے نہایت ہی ہوشیار اور چوکنارہ کر کسی بھی قسم کے اشتعال کا شکار ہونےسے بچنا بہت ضروری ہے، وگرنہ انسانیت کے دشمنوں کو کھُل کھیلنے کا ایسا موقع میسر آئیگا جس کی وہ ہمیشہ تمنا کرتے آئے ہیں۔ ملک بھر میں مسلمانوں کے اندر تعلیم کے پھیلائو کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی اشدضرورت ہے، جس کےلئے ماہرین، دانشواروں اورعلماء کی کوئی کمی نہیں ہے تاہم انہیں ایک مناسب سمت عطا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فکری اور مسلکی اختلافات کی اُس فضا کو پنپنے کا موقع نہ دیا جائے، جس نےدنیا بھر میں مسلمانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور جسے ہوا دینے کےلئے ہندوستان بھر میں موجود فتنہ پرور عناصر نہ صرف سرگرم ہیں بلکہ انہیں حکمران اتحاد میں موجود متعدد حلقوں کی فکری وعملی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ یوپی کے حالات کے اثرات سارے ہندوستان پر ثبت ہونگے اورریاست جموںوکشمیر میں بھی ایسے عناصر کے حوصلے بلند ہونے کا اندیشہ موجودہے، لہٰذا یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے فتنہ پرور عناصر پر کڑی نگاہ رکھ کر انہیں اپنے خطرناک خاکوں میں رنگ بھرنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ کیونکہ گزشتہ دو برسوں کے دوران جموں صوبہ میں مختلف بہانوں سے امن عامہ میں خلل ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔