الطاف حسین جنجوعہ
ہمارے ملک بھارت میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔زندگی کے مخصوص پہلوئوں جیسے شادی، طلاق، وراثت اور خاندانی معاملات سے متعلق معاملات کے لئے یہاں پر مختلف ’آئلی قوانین ‘یعنی کے پرسنل لائز نافذ العمل ہیں۔آزاد ی کے بعد بھی وراثت، گود لینا، طلاق اور شادی متعلق مختلف آئلی قانون ملک کی پارلیمنٹ سے منظور ہوئے۔البتہ آئین ِ ہند کی دفعہ44میں بات درج ہے کہ ہندوستانی شہریوں کے لئے پورے ملک میں یکساں سول کوڈ ہونا چاہئے جس پر دہائیوں سے بحث چلتی آرہی ہے ۔مختلف مذاہب کے لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت کی وجہ سے ابھی تک ملک بھر میں یونیفارم سول کوڈ لاگونہیں لیکن آہستہ آہستہ اِس کے نفاذ کا عمل شروع کر دیاگیاہے۔
27جنوری2025کو ا ُتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی ،وہاں کی حکومت نے اس کا مقصد انفرادی حقوق کا تحفظ فراہم کرنا اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا قرار دیا ہے۔اترا کھنڈسول یونیفارم کوڈ 392دفعات پر مشتمل ہے جس کو 4حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور اِس کے 7شیڈیول بھی ہیں۔حصہ اول میں شادی اور طلاق، حصہ دوم میں وراثت، وصیت سے متعلق بات ہے، حصہ سوم میں لیو انِ ریلیشنز یعنی بغیرشادی کئے ایک ساتھ رہنے کے متعلق بات کی گئی ہے اورحصہ چہارم میں اِس قانون کے نافذ ہونے سے کون کون سے آئلی قوانین تحلیل ہوں گے یااس قانون سے قبل جوقوانین نافذ ہیں، کا کیا اثرر ہے گا، سے متعلق تنسیخ و استثنات کی بات کی گئی ہے۔یو سی سی آئین کے دفعہ342اور دفعہ366(25) کے تحت درج فہرست قبائل اور درج فہرست علاقوںپر لاگو نہیں ہوگا۔ اگر بعد ازاں جب بھی ملک میں یوسی سی کانفاذ عمل میں آیاتو یہ کم و بیش اتراکھنڈ یکساں کوڈ جیسا ہی ہوگا۔ اِس لئے اتراکھنڈ میں نافذ کئے گئے اس قانون کی ہمیں جانکاری ہونی چاہئے۔
ایک مضمون کے اندر پورے کوڈ متعلق تفصیلی بات کرنا مشکل ہے، لہٰذا اس کالم میں ہم صرف شادی ور طلاق سے متعلق سول کوڈ میں شامل التزامات پر بات کریں گے۔ اس سول کوڈ کا نفاذ ریاست کے سبھی شہریوں پریکساں ہوگا اورشادی، بیاہ، طلاق، زمین، جائیداد اور موروثی حق کے معاملوں میں بلاتفریق مذہب یکساں قوانین کا اطلاق ہو گا۔اس کے تحت ایک بار میں تین طلاق دینے، حلالہ اور ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ۔لڑکیوں کو وراثتی جائیداد میں برابر کا حق ملے گا۔ ہر مذہب کے افراد کو کسی بچے کو گود لینے کا قانونی حق دیا گیا ہے جبکہ لیو ان ریلیشنز (یعنی بغیر شادی کے ساتھ رہنے والوں) کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی لیکن انھیں مقامی پولیس تھانہ کے ساتھ خود کو رجسٹر کروانا ہو گا۔شادی کی قانونی عمر تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لئے 18 برس اور21برس رکھی گئی ہے۔ ہر شادی کو قانونی طور پر رجسٹر کروانا لازمی ہو گا جبکہ طلاق کے معاملے میں مرد اور عورت کو برابر کے حقوق ہوں گے۔ وراثتی جائیداد سمیت زمین اور دوسری املاک میں لڑکی کو برابر کا حق حاصل ہو گا اور تقسیم کے سلسلے میں لڑکا یا لڑکی لکھنے کے بجائے ’بچہ‘ لکھا جائے گا۔
شادی :۔یو سی سی میں شادی سے متعلق قوانین میں بڑے بدلائو کیے گئے ہیں۔ دفعہ4سے 20تک اس بات کی مکمل تشریح کی گئی ہے کہ شادی کون کر سکتا ہے، نکاح کیسے کیا جائے، نئی اور پرانی دونوں شادیوں کو قانونی طور پر کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔اس کے مطابق مختلف مذاہب اور برادریوں کے پرسنل لاز کو ختم کرتے ہوئے شادی کے لیے سب کو ایک ہی قانون پر عمل کرنا ہوگا۔ دفعہ4کے مطابق شاد ی کی پانچ شرائط ہیںجن میں واحد زوجیت: شادی صرف ایسے دو افراد کے درمیان ہو سکتی ہے جن میں سے کسی کا بھی کوئی زندہ شریک حیات نہ ہو۔ یعنی، ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مرد کی کم از کم عمر 21 سال اور عورت کی 18 سال ہونی چاہیے۔ دونوں افراد ذہنی طور پر اس قابل ہوں کہ قانونی رضامندی دے سکیں۔دونوں افراد کے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہ ہو جو شادی کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہوبشرطیکہ رسم ورواج اس کی اجازت دیتا ہے اور وہ پبلک پالیسی کیخلاف یا غیر اخلاقی نہ ہو۔دفعہ5 میں یہ رعایت دی گئی ہے شادی اپنی رسومات کے مطابق کی جاسکتی ہے ۔ اس کے مطابق شادی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان مذہبی عقائد، روایات، رسوم و رواج اور تقریبات کے مطابق منعقد یا طے کی جا سکتی ہے مثلاً’سپت پدی‘، آشیرواد،’نکاح‘، آنند کارج وغیرہ شامل ہیں لیکن شادی کو 60 دنوں کے اندر اندر رجسٹر کرانا لازمی ہوگا۔ جب کہ 26 مارچ 2010 سے لے کر ایکٹ کے نافذ ہونے تک کی مدت میں ہوئی شادیاں کا رجسٹریشن چھ ماہ کے اندر اندر کرانا ہوگا۔ جو لوگ پہلے سے طے شدہ معیار کے مطابق رجسٹریشن کرا چکے ہیں، انہیں دوبارہ رجسٹریشن کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ انہیں اپنے پہلے کے رجسٹریشن کا (اعتراف نامہ) دینا ہوگا۔
یو سی سی کے تحت شادی کا رجسٹریشن آن لائن اور آف لائن دونوں طرح کیا جا سکتا ہے۔ یو سی سی کی ان دفعات کو نافذ کرنے کے لیے ریاستی حکومت رجسٹرار جنرل، رجسٹرار اور سب رجسٹرار کی تقرری کرے گی، جو متعلقہ ریکارڈ کی دیکھ بھال اور نگرانی کریں گے۔ شادی کی رجسٹریشن سے متعلق درخواست موصول ہونے کے بعد سب رجسٹرار کو 15 دنوں کے اندر مناسب فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر 15 دن کی مقررہ مدت میں درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے تو درخواست خود بخود رجسٹرار کو منتقل ہو جائے گی۔ تسلیم کرنے کی صورت میں اسی مدت کے بعد درخواست خود بخود قبول سمجھی جائے گی۔ وہیں رجسٹریشن کی درخواست مسترد ہونے پر اپیل کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس ایکٹ کے تحت شادی رجسٹریشن کے لیے غلط تفصیلات دینے پر جرمانہ بھی عائد کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ محض رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے نکاح/شادی کو باطل نہیں سمجھا جائے گا۔
دفعہ21اور22میں حقوق زوجیت کی بحالی اورعدالتی اعلیحدگی کا ذکر ہے۔ دفعہ 21کے تحت ایک شریک حیات کو عدالت سے درخواست کرنے کی اجازت دیتی ہے کہ اگر دوسرا شریک حیات بغیر معقول وجہ کے ازدواجی تعلقات سے دستبردار ہو گیا ہے، تو اسے دوبارہ ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے۔ متاثرہ فریق عدالت میں درخواست دائر کر سکتا ہے اور اگر عدالت درخواست کی سچائی سے مطمئن ہو اور کوئی قانونی رکاوٹ نہ پائے، تو وہ ازدواجی حقوق کی بحالی کا حکم جاری کر سکتی ہے۔دفعہ22کے تحت کوئی بھی شریک حیات مخصوص وجوہات کی بنا پر عدالت سے عدالتی علیحدگی کا حکم حاصل کرنے کے لیے درخواست دے سکتا ہے، جیسے:زنا، ظلم وزیادتی،ترک کرنا،کسی دوسرے مذہب میں تبدیلی،ذہنی بیماری،متعدی بیماری ۔اگر عدالت درخواست کی معقولیت سے مطمئن ہو تو وہ عدالتی علیحدگی کا حکم جاری کر سکتی ہے، جس سے فریقین کو شادی ختم کیے بغیر الگ رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔یو سی سی کے مطابق نجی سطح پر شادی، زوجیت کے حقوق کی بحالی، عدالتی علیحدگی کے لئے نجی سطح پر کسی بھی فیصلے یا عمل کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہ ہے۔
باطل اور قابل تنسیخ شادی :۔یو سی سی اتراکھنڈ کی دفعہ 23 اور 24 خاص طور پر باطل اور قابل تنسیخ شادیوں سے متعلق ہیں۔باطل شادی (Void Marriage)وہ ہے جو قانونی نقط نظر سے شروع سے ہی غیر مو ٔ ثر اور کالعدم ہوتی ہے۔ ایسی شادیوں کو قانونی طور پر کبھی وجود میں آیا ہوا نہیں سمجھا جاتا، اور ان کی منسوخی کے لیے کسی باضابطہ قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دفعہ 23 کے مطابق وہ شادی باطل ہے ،اگر کسی بھی فریق کا شادی کے وقت کوئی اور زندہ شریک حیات موجود ہو،قریبی رشتہ داری کی ممانعت: اگر شادی قریبی رشتہ داروں کے درمیان ہو، جیسا کہ قانون میں درج ہے، جب تک کہ کسی مخصوص رسم و رواج کے مطابق اس کی اجازت نہ ہو اوراگر کسی بھی فریق کی عمر قانونی شادی کی عمر سے کم ہو۔دفعہ 24قابلِ تنسیخ شادی (Voidable Marriage)کی بات کرتا ہے، جس کے مطابق قابلِ تنسیخ شادی وہ ہے جو قانونی طور پر موثر ہوتی ہے، لیکن مخصوص وجوہات کی بنا پر فریقین میں سے کوئی ایک عدالت سے اس کی منسوخی کی درخواست کر سکتا ہے۔ عدالت کی جانب سے منسوخی کا حکم جاری ہونے تک یہ شادی قانونی طور پر برقرار رہتی ہے، مثال کے طوراگر کوئی بھی فریق ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے قاصر ہو،اگر کسی بھی فریق کی شادی کے وقت ذہنی صحت خراب ہو یا وہ ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جو اسے شادی اور تولید کے لیے نااہل بنائے۔زبردستی یا دھوکے سے لیا گیا رضامندی: اگر شادی کی رضامندی دبائو ، جبر یا فریب کے ذریعے حاصل کی گئی ہو،اگر بیوی شادی کے وقت کسی اور کے بچے سے حاملہ ہو، اور شوہر اس حقیقت سے لاعلم ہو۔دفعہ31کے تحت اگر شادی باطل ہے یاقابل ِ تنسیخ ہے، اُس صورت میں بھی پیدا ہونے والا بچہ قانونی طورجائز ہی ہوگا اور وہ وراثت کا حقدار بھی ۔ بچے کوناجائز نہیں کہاجاسکتا۔
طلاق :۔ یو سی سی کے تحت طلاق کے لئے بھی سبھی مذاہب کے لوگوں کے لئے یکساںطریقہ کار وضع کیاگیا ہے جس کی تشریع دفعہ25میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی اور طریقہ سے طلاق یا شادی کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔اگر کوئی ایسا کرئے گا تو وہ قابل ِ جرم ہے جس پر سزا ہوسکتی ہے اور یہ جرم قابل ِ دست اندازی ہے۔یہ دفعہ دونوں فریقین کو عدالت سے طلاق کا حکم حاصل کرنے کا مساوی حق فراہم کرتی ہے۔ اس کے مطابق، طلاق صرف عدالتی کارروائی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔دفعہ25کے تحت 10ایسے وجوہات ہیں جن میں سے کسی کی بنا پر دونوں فریقین میں سے کوئی بھی طلاق کے لئے عدالت میں عرضی دائر کرسکتا ہے۔ اس میں عورت کو زیادہ حقو ق حاصل ہیں، اگر خاوند کے شادی کے بعد کسی سے ناجائز جنسی تعلقات ہیں یا خاوند نے یو سی سی کوڈ نافذ ہونے کے بعد ایک سےدوشادیاں کی ہیں، تو اِس بنیاد پر بھی عورت طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ دفعہ27میں دونوں فریقین باہمی رضامندی سے بھی ایک دوسرے کو طلاق دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے بھی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنی ہوگی۔ شادی کے ایک سال تک کوئی بھی طلاق کے لئے عدالت میں پٹیشن دائر نہیں کرسکے گا۔ دفعہ29میں یہ واضح کیاگیا ہے شادیوں کو صرف اس کوڈ میں بیان کردہ ضوابط کے تحت منحل کیا جا سکتا ہے، اور یہ ذاتی قوانین، رسم و رواج یا روایات کے مطابق نہیں ہوگا۔اس دفعہ کی خلاف ورزی کو قابل گرفتاری جرم سمجھا جاتا ہے، جس میں تین سال تک کی قید اور جرمانے کی سزائیں شامل ہیں۔دفعہ30کے مطابق جب عدالت طلاق کی عرضی پر حتمی فیصلہ صادر کرتی ہے اور اُس فیصلے کے خلاف کوئی فریق اپیل نہیں کرتا توایسی صورت میں 90دن یعنی کے تین ماہ بعد دونوں فریقین آپس میں دوبارہ بھی شادی کرسکتے ہیں یا کسی اور سے بھی شادی کرنے کے لئے آزاد ہیں۔
سزائیں :۔یو سی سی کوڈ کے سختی سے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے اس میں سزائیں بھی متعین کی گئی ہیں۔دفعہ32میں تفصیلی طور اس کا ذکر ہے کہ اگرکوئی شخص یونیفارم سول کوڈ کے تحت وضع کر دہ ضوابط کی خلاف ورزی میں شادی کرتا ہے، طلاق دیتا ہے یاطلاق کے بعد دوبارہ شادی کے لئے حلالہ، عدت وغیرہ یا ایسی کوئی دیگررسوم، شرط رکھتا ہے تو ایسے عمل کو قابل ِ سزا جرم قرار دیاگیاہے۔ دفعہ32(1)(i)کے تحت اگر کوئی شخص دفعہ4کی شقiiiاورivکی خلاف ورزی کر کے شادی کرتا ہے تو اُس کو چھ ماہ کی سزا اور پچاس ہزار تک کا جرمانہ ہوسکتاہے۔اگر کوئی دفعہ29کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شادی کو ختم کرتا ہے تو اُس کو تین سال تک کی سزا ور جرمانہ ہوگا۔دفعہ32(1)(iiii)کے تحت اگر کوئی شخص دوبارہ سے شادی کرنے پر کوئی شرط کا رسم اپنانے پر مجبور کرتا ہے تو اُس کو تین سال تک کی سزا اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ ہوگا اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید چھ ماہ کی قید ہوگی۔دفعہ32کے تحت سب جرم قابل ِ دست اندازی ہیں یعنی کہ پولیس بغیر وارنٹ گرفتار کرسکتی ہے۔ البتہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی اجازت پر متاثرہ شخص کی رضامندی سے یہ جرم قابل ِ معافی ہوگا اور ایساحکم صاد رکرتے وقت جوڈیشل مجسٹریٹ شرائط عائد کرنے کے لئے بھی با اختیار ہے۔یو سی سی کے مطابق شادی آپ اپنی رسم ورواج کے مطابق کرسکتے ہیں لیکن شادی کی شرائط کوڈ کے مطابق ہوں گے۔ اس کی رجسٹریشن لازمی ہے، طلاق صرف عدالت کے ذریعے ہی ہوگا۔ دونوں فریقین کو شادی ختم کرنے کے برابر کے حقوق ہوں گے، عدت اور حلالہ کا تصور ختم کیاگیا ہے اور ایسا کرنے پر سزا بھی ہوسکتی ہے۔(جاری)
(مضمون نگار جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے وکیل ہیں)
[email protected]