طارق اعظم کشمیری
ربِ کریم کا نظام ہی عجیب و غریب ہے۔ ہر ساعت ہر لمحے کی شان ، رتبہ، درجہ اور مرتب نشیب و فراز کے مدار میں گردش گزار رہتا ہے۔ کبھی کسی شٔے کو کسی اور شٔے سے نسبت دے کر اسکے مقدر کی لکیروں کو تابناک کردیا۔جیسے کہ ماہِ رمضان کے ایام کی فضیلت تمام باقی مہینوں سے بالا تر ہیں۔ اسکا ہر ہر لمحہ بہت ہی سرمایہ خیز ہے ۔ اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول اس ماہ میں بارش کے قطروں سے زیادہ ہوتا ہے ۔ رمضان کی کیفیت ،رونق اور چہل پہل کا کیا کہنا ۔ زھد و تقویٰ کے آثار ہر صایم کے رخسار سے نمایاں ہوتا ہے ۔ مسجدوں میں افراد کی کثرت ہی امتیازی حیثیت کا اظہار کرتی ہے۔ بیشتر مسلمان کلامِ الٰہی کی تلاوت اور اللہ پاک کی ذکر و فکر میں صبح و شام ہاتھوں تسبیح لئےبیٹھے ہیں۔ رمضان کی ہر ادا منفرد اور دلکش ہوتی ہے۔ وہ چاہے سحری ہو یا افطاری ،کھانے پینے کی ضیافتوں میں برکت ہی برکت ۔ مسلمان بڑے شوق و ذوق سے اپنی جمع پونجی خرچ کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گیارہ مہینوں میں کمائو اور اس ماہ میں سخاوت سے خرچ کرو، اس سب پر تو عمل ہورہا ہے ،لیکن ایک دلخراش اور دُکھ کا منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جس کو سن کر یا دیکھ کے انسان آب دیدہ ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے عزیز و اقارب ، دوست اور پڑوسیوں کا وہ خیال نہیں رکھتے،جس کی ہمیں تاکید کی گئی ہے۔ ہم میں وہ خبر گیری کا جذبہ معدوم ہوچکا ہے۔ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص تعلیمات تھی کہ اپنے عزیز اقارب اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ بھائی پر یہ فرض بھی عائد ہے کہ بہنوں کی خیر خبر لیں۔اگر اُن کی مالی وسعت کمزور ہے تواُن کے لئے بھی روزمرہ زندگی کی کھانے پینے کے چیزوںکے اخراجات پورے کرنےمیںمعاونت کریں ۔ ہم سب پر یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دسترخوان پر دوست ، پڑوسی، رشتہ دار کو افطار اور سحری بھی کرائیں، جو اس ماہ کا لُبِ لباب ہے کہ ہم ایک دوسرے کا درد بانٹیں۔ ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔ لیکن ہم کھانے پینے کی لذتوں میں مدہوش ہیں، اپنا پیٹ مختلف ضیافتوں سے بھرکردوسروں کو صبر اور تحمل کا درس دیتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو پھر کیا ہے؟ خدا کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں، وہ ہر رنگ میںبے نیاز ہے۔ جس کیلئےاُس نے ہمیں تخلیق کیا ہے ،وہ اگر انجام دیتے،تو اچھا تھا۔ مگر ہم تسبیحات کے ورد میں اپنے بنیادی فرائض بھول گئے ہیں۔ ایک قول مشہور ہے کہ خدمت سے خدا ملتا ہے اور عبادت سے جنت ۔ذرا غور کریں کہ جس کی طلب میں ہم سورج کی تپش میں لمبے لمبے دنوں کے روزہ رکھتے ہیں، وہ محبوب اپنے مخلوق کی خدمت گزاری سے ملتا ہے۔ اب دورِ عصر کا حال دیکھیںتو آج کا مسلمان ، عبادت جیسے نماز، روزہ، حج اور عمرہ میں کوئی کمی نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن خدمت، ایثار، ہمدردی اور اخُوت کو قضا کر بیٹھے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کا احتساب کریںاور اس بات پر غوروفکر کریں کہ بحیثیت مسلمان ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہیں ،اُن کو ہم کہاں تک پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی زمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق دے اوراپنے بہن بھائیوں کی خدمت گزاری کے جذبے ، شوق اور ولولے سے سرفراز کرے۔آمین
رابطہ۔ 6006362135
[email protected]