اور وہی سمندری مچھلیوں کا علاج کرنے والے،جنگلی جانوروں کی دوا دارو کرنے والے،کچہاروں میں شیروں کے مونچھوں پر بوسہ دینے والے،قدرت کے اس بوقلمونی عطیے سے پیار کرنے والے ،سر سبز خطوں اور گھنے سایہ دار درختوں کے بیچ رہنے والے لوگ جب یہ سنیں گے کہ سینکڑوں سال عمر رکھنے والے ،بے حد گھنے اور جسیم چناروں کو کاٹ کر نہ صرف ماحولیاتی نظام بگاڑا جاتا ہے بلکہ شہر کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ پرندوں کے حقوق پر بھی شب و خون مارا جاتا ہے تو وہ ضرور سوچیں گے کہ وہ قوم یا اس قوم کے سربراہ ضرور پاگل خانے سے چُھوٹے ہوئے افیم چی ہوسکتے ہیں ۔یہ بات بھی اُن متمدن لوگوں کے لئے دنیا کے آٹھویں عجوبے سے کسی طرح کم نہیںہوسکتی ،جب وہ سنیں گے کہ اس ملک ِ ناشاد میں ایک دریا شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے اور اُس دریا کے دونوں کناروں پر شہر صدیوں سے بسا ہوا ہے ۔ایک طرف کے لوگوںکو دوسری طرف جانے کے لئے شہر کے بیچوں بیچ ایک پُل بنا ہوا ہے اور پُل کے اوپر سے دن میں بلکہ رات میں بھی مختلف قسم کے ہزاروں واہن ،ہتھ گاڑیاں اور پیدل لوگ گذرتے ہیں ۔پُل کے دونوں حاشیوں پر دو پگڈنڈیاں مضبوط لوہے کے جنگلے سے مزین پیدل چلنے والوں کے لئے بنائی گئی ہیں مگر پیدل چلنے والے ایک حسرت بھری نظر اُن پگڈنڈیوں کی طر ف ڈال کر بیچ سڑک سے گزرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ایک طرف والی پگڈنڈی پر قطار در قطار مچھلی فروش مستورات بیٹھی اپنے خریداروں سے اُلجھی ہوتی ہیں یا خریداروں کو لبھانے کے لئے آوازیں لگاتی رہتی ہیں ۔اگر سودا نہ پٹے تو وہ خریدار کو کم دام لینے کا لالچ بھی دیتی ہیں اور اگر پھر بھی خریدار چلا ہی جائے تو وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتی رہتی ہوں یا کوسنے دیتی ہوں ۔اب۔۔۔۔۔ ع
چلی جائی ہو بے درد ا میں روئے مروں گی
اس سنگیت مے دادرا اور ٹپا والے ماحول میں کوئی کیا کرے۔خوبصورت مچھیرنوں کو نہارتا گذر جائے یا اپنے وجود کی فکر کرے کیونکہ گاڑیاں ،بائیک وغیرہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ چار لائن بناکر بھی ٹریفک جام ہوجاتا ہے ۔یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی منچلا بائیک سوار اپنے دو اور ساتھیوں کے ہمراہ باہو بھلی بناٹکر مارکر برزلہ ہسپتال کا ٹکٹ ہاتھ میں نہ تھمادے ۔
رہی دوسری طرف والی پگڈنڈی تو اُس میں ہوزری،بیلٹ ،کیسٹ ، گاگل،رسٹ واچ اور تالے بیچنے والوں نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں ۔اب اس پانچ فٹ پگڈنڈی میں چار فٹ تو دوکاندار نے گھیرے ہوتے ہیں باقی بچے ایک فٹ میں کیسے کوئی پلو جھاڑ کر چلے۔اب اس بات کی اگر شکایت کریں تو کسی سے ،کس کو ،کس طرح۔۔۔۔۔کیونکہ ع
بات پر واں زبان کٹتی ہے
ارے بھائی سیدھے سادھے شریف انسان ہو ۔جیسے تیسے آگے بڑھو یا محاوراتی زبان میں اپنا راستہ ناپو ۔نہیں تو سیفٹی ایکٹ لگ کر ملک دشمن عناصر کی فہرست میں آجائو گے اور یاروں ،دوستوں ،رشتہ داروں اور گھر والوں کو تمہاری گرد بھی نہیں ملے گی ،بلکہ میں تو کہوں گا کہ ۔۔۔۔۔ ع
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
اب آپ اس بات پر بھی غور فرمایئے کہ جن ترقی یافتہ اور متمدن لوگوں کی میں بات کررہا تھا وہ بھی کتے رکھتے ہیں ،اُن کو پالتے ہیں ،مہنگے داموں خریدتے ہیں ، اُن کے نسل کی حفاظت کرتے ہیں۔وہ کتے بھی تہذیب یافتہ دائروں کے اندر گھروں میں دیگر فیملی ممبروں کی طرح بودوباش رکھتے ہیں۔کتے یہاں پر بھی ہیں مگر وہ سڑکوں اور گلی کوچوں میں ایک تو گندگی پھیلاتے رہتے ہیں اور دوسرا آنے جانے والے راہ گیروں پر بھونکتے رہتے ہیںبلکہ بچوں اور بڑوں کو یکسان طور پر کاٹتے بھی ہیں ۔یہاں گائے ،بیل ،بھینس اور بھیڑ بکری کی اتنی آبادی نہیں جتنی ان آوارہ کتوں کی تعداد ہے ۔اس بھرمار کی وجہ سے تقریباً ہر ہفتے کوئی نہ کوئی خبر اخبار میں کتوں کی ہڑبونگ اور حملوں کے بارے میں آتی ہی رہتی ہے۔شہروں سے زیادہ گائوں اور قصبوں کی بُری حالت ہے ۔یہ بات ماہرین طب نے پہلے ہی ثابت کی ہے کہ کتے کی فطرت میں یا سرشت میں پاگل پن کے جراثیم ہوتے ہیں ،اس وجہ سے اُن کے کاٹنے پر مہنگے انجکشن لگوانے پڑتے ہیں۔ایک بار جموں کے محلہ قاضیاںؔکے ایک نوجوان نے اس بارے میں ذرا سی پہلوتہی برتی تھی تو نتیجتاً اُس کی موت واقع ہوگئی ۔اس سانحے کا میں ذاتی طور شاہد ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی وجہ سے دانائے سبل ،خیر خواہِ انسانیت اورخیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں کتوں کی آبادی بڑھنے پر اُن کو ہلاک کروانے کا حکم دیا کرتے تھے مگر یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ۔۔۔۔ع
اپنی بلا سے بوم بسے یا ہمار ہے
یہاں کی یہ بھی صورت حال ہے کہ انسانوں کے معمولی سے احتجاج، وہ پھر پانی ،بجلی ،راشن کے سلسلے میں ہو یا استحصال ،مظالم کے خلاف ،پتھر ٹھیکری مارنے یا خالی خولی احتجاجی کلمات مُنہ سے نکالنے پر اُس بندوق سے اُن احتجاج کرنے والوں پر چھرے برسائے جاتے ہیں جو آوارہ کتوں کو مارنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے تھا مگر عجیب صورت حال یہ ہے یہاں انسانوں کا جسم و جان بے وقعت اور بے قیمت ہے جبکہ کتے کو قانونی تحفظ حاصل ہے ۔یہ بات جب متمدن دنیا کے لوگ سنتے ہیں تو منہ پیٹ کے رہ جاتے ہیں ۔آپ ایک آوارہ پاگل کتے کو نہیں مار سکتے ،اُسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے کیونکہ مرکزی حکومت میں بیٹھے گئو رکشکوں کی طرح سگ رکشک بھی اپنی پوری طمطراقی اور رعونت کے ساتھ حکم نافذ کرتے رہتے ہیں اور ہم جیسے یر غمالیوں کو بہر حال حکم کا پالن تو کرنا ہی کرنا ہے ۔نہیں تو ۔۔۔۔۔۔جمیل اور جمیل ؔکے الفاط میں ؎
روز ہوتا ہے یہاں پر دل کے اَرمانوں کا خون
کب تک آخر حسرتوں کی لاش پر رویا کریں
(ختم شد)
……………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995