بدیشی ملک۔۔۔۔۔۔جی ہاں کوئی بھی بدیشی ملک ۔۔۔کسی بھی ملک کی مثال لے لیجئے ۔۔۔۔۔۔امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی ،اٹلی ، کنیڈا،آسٹریلیا ،بلجیم۔۔۔۔۔۔ان ممالک میں اگر ایک چھوٹا سا بچہ گشت پر نکلے،سپاہی یا ویسے ہی کسی پولیس مین سے کسی طرح کی مدد مانگے گا ،وہ اُس کی مدد بلا تاخیر اور یقینی طور سے کرے گا ۔بچہ سمجھ کر اُسے ٹالے گا نہیںاور اگر کوئی بچہ پولیس سٹیشن میں جاکر یہ شکایت کرے گا کہ اُس کا باپ یا اُس کی ماں اُسے ایذاء دیتے ہیں یا اور کوئی ناروا سلوک کرتے ہیں تو منٹوں میں اُن والدین کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے ۔کئی ایک ممالک میں وادیٔ کشمیر سے بڑھ کر بلکہ حد سے زیادہ برف باری ہوتی ہے مگر چند گھنٹوں کے اندر اندر ہر ایک گھر میں آنے جانے کا راستہ ملتا ہے ۔سینما ،جہاز ، ریلوے ،میٹرو ،کسی کا بھی ٹکٹ لینا ہو تو لوگ بڑی شائستگی اور صبر و تحمل کے ساتھ لائن میں کھڑے رہ کر اپنی باری پر مطلوب ٹکٹ وصول کرتے ہیں ۔ ویسے موجودہ زمانے میں سہولیات بھی مہیا ہیں مگر جہاں ایسی کوئی سچویشن بنتی ہے تو یقینی طور سے تہذیب و شائستگی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ٹیکسی ،آٹو رکشا یا کسی اور طرح کی سوِدھا درکار ہو تو وہ یہی طریقہ اپنائیں گے اور ڈسپلن سے ہٹ کر کوئی بات نہیں ہوگی۔
آفاتِ سماوی ،آندھی ،بھونچال ،برف بارش یا کسی اور وجہ سے بجلی چل جائے یا فون کی تاریں کٹ جائیں تو بہت قلیل وقت کے اندر اندر ساری سہولیات بحال ہوجاتی ہیں ۔بیمار کے لئے منٹوں میں ایمبولنس ،آگ کی واردات میں چند ثانیوں میں فائر بریگیڈ،مجرم ،چور ،قاتل کے لئے سیکنڈوں میں پولیس اور اسی طرح سڑک حادثات کے لئے پل بھر میں ٹریفک پولیس ،ایمبولنس اور دیگر سہولیات میسر ہوجاتی ہیں۔دوردراز مقامات پر، ہائے وے پر ،جنگلوں پہاڑوں پر یا پھر سمندروں میں کوئی مصیبت میں پھنس جائے تو ہر طرف سے ہیلی کوارپٹر پہنچ کر خاطر خواہ مدد بہت قلیل وقت میں فراہم کرتے ہیں ۔اس تمہید سے میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن ممالک میں متمدن انسان رہتے ہیں،وہ خود کو بھی انسان سمجھتے ہیں او ر جن کی طرف وہ مدد کے لئے دوڑتے ہیں ،یہی سمجھ کر دوڑتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہی ہیںاور انہیں دوسرے انسان کو مدد کی حاجت ہے ۔ایک انسان کا دوسرے انسان کے تئیں یہ محبت اور خلوص اس وجہ سے ہے کہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ دنیا میں انسان سے بڑھ کر کوئی بھی شیٔ بلکہ کچھ بھی قیمتی نہیں ہے ۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انسان تمام مخلوقات سے زیادہ وقار ،عزت اور قیمت رکھتا ہے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے ۔انسان کے اس اشرف ہونے کو وہ بخوبی سمجھتے ہیںحتیٰ کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا اور دنیا کی ہر ایک شیٔ اللہ تعالیٰ نے صرف بنی نوع انسان کے لئے ہی تخلیق کی ہے ۔اس لئے ہر اُس سہولت کا فائدہ ،ہر اُس چیز کا مزہ اور رب العزت کی ہر تخلیق سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اب اگر یہ متمدن اور تہذیب یافتہ لوگ۔۔۔۔۔معاف کیجئے گا تہذیب یافتہ متمدن اور پڑھے لکھے لوگ ہم بھی ہیں مگر ہم کو بے وقعتی ،بے عزتی اور بے قیمتی ورثے میں ملی ہے کیونکہ ہمارے حکمران جن کو ہمارے لئے انسانی حقوق کے تحت آنے والی سہولیات اور آسائشیں میسر کرانی تھیں، وہ ہمیں ٹھیکری کے برابر بھی نہیں سمجھتے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے اوپر تعینات نام نہاد محافظ ہمارے گھروں میں گھس کر نہ صرف مردوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ بے ضرر معصوم مستورات حتیٰ کہ کم سن بچیوں کی بھی بندوق کے بھٹوں سے ہڈی پسلی توڑدیتے ہیں ۔یہ تو عصر حاضر کی بات ہے ۔۔۔۔سابقہ ایام میں ہم نے کیا کیا سہا ہے اور ہم کس بے غیرتی کے ساتھ زندگی کے یہ الم رسیدہ دن پورے کررہے ہیں، اُس سوچ سے ہی جھر جھری آتی ہے ۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ اب اگر وہی یعنی دنیا کے تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ لوگ سنتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں ایک ایسا بھی خطہ دنیا میں موجود ہے جہاں لوگ مہینوں موبائیل فون ،انٹر نیٹ ،ٹی وی کے کیبل کنکشن ،بنک سے اے ٹی ایم و دیگر سہولیات ،سرکاری ڈیپووں سے راشن بشمول چاول ،آٹا ،چینی،تیل خاکی کے علاوہ اخبارات و جرائد ،پبلک ٹرانسپورٹ ،مسجدو اور عبادت گاہوں میںجانے پر روک وغیرہ وغیرہ کے بغیر جی رہے ہیںاور اس پر مستزاد ہڑتال یعنی تالہ بندی بھی رہتی ہے اور سرکار کی طرف سے کرفیو بھی نافذ ہوتا رہتا ہے تو وہ کیا سوچتے ہوں گے؟ اول تو انہیں اعتبار بھی نہ آتا ہوگا ۔اُن کے تصور میں بھی یہ بات بیٹھتی نہیں ہوگی کہ اس اکیسویں صدی میں ایسا کچھ ہوتا ہوگا اور اب اگر کوئی میڈیا پر یا زبانی ذرائع پر اعتبار کرتا بھی ہوگا تو اُس کی سوچ یہی بنتی ہوگی کہ اصل میں وہ لوگ غیر متمدن ،جاہل گنوار ،پتھر کے زمانہ سے مشابہ یا تاریک براعظم افریقہ کے ننگ دھڑنگ لوگوں جیسی زندگی بسر کرنے والے لوگ ہوں گے کیونکہ موجودہ زمانے میں مذکورہ چیزوں اور سہولیات کے بغیر دنیا میں زندہ رہنے کا تصور ہی قائم نہیں ہوسکتا ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس بے انتہا ترقی یافتہ دور میں انسان اب اپنے ہاتھ سے بہت کم کام کرتا ہے جب کہ اُ س کے بڑے تو بڑے معمولی نوعیت کے کام بھی مشینیں اور روبوٹ کرتے ہیں ۔انسان عرصہ ہوا جب وہ چاند کے رنگین خوابوں سے باہر نکل آیا ہے اور اب وہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘والی جگہوں اور منزلوں پر کمندیں ڈال کر اپنی بستیاں ،انسانی بستیاں بسانے کے چکر اور فکر میں ہے ۔آگے صرف نظام ِشمسی سے وابستہ چند سیاروں کے ناموں سے ہی آدم واقف تھا مگر اب سائنس دانوں نے نظام شمسی جس میں ہماری زمین بھی آتی ہے ،کے علاوہ بیسیوں سیارے دریافت کئے ہیں اور یہ دریافتیں نہ جانے آگے کہاں دم لیں گی؟
(جاری ہے۔۔)
……………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995