رئیس احمد کمار
پوش کالونی میں رہنے والے بیشتر مکین گنجان آبادی والے دوسرے گاؤں اور قصبوں سے آکر آباد ہوئے تھے ۔ کالونی کے اکثر گھرانے دولت مند اور صاحب ثروت تھے ۔ گنجان آبادی والے علاقوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی غرض سے انہوں نے شہر کے مضافاتی علاقے میں پوش کالونی آباد کی تھی ۔ کالونی میں تمام تر بنیادی سہولتیں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ رہنے کے لئے ایک موافق ماحول بھی موجود تھا ۔ اس لیے لوگ گنجان آبادیوں سے نکل کر پوش کالونی میں ہی مکان تعمیر کرنے کے لئے زمین خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ انہیں زمین مہنگے داموں ہی ملتی ہے ۔
چند سال قبل کالونی کے لوگوں نے ایک عالیشان مسجد شریف بھی تعمیر کروائی اور قبرستان کے لئے بھی زمین کا ایک بڑا پلاٹ خریدا ہے ۔ مسجد شریف جدید اسلامی طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے جس کی عظمت اس کے شاندار گنبدوں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مسجد شریف کے اندر بھی اعلیٰ قسم کی ووڑ پینلنگ سے مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا ہے ۔
جدید و اعلیٰ قسم کے لاوڑ سپیکروں سے لیکر ڑیجیٹل اوقات صلات كا بورڈ پہلی صف كے سامنے لگا ہے ۔ دونوں منزلوں پر قیمتی ایرانی قالین بچھائے گئے ہیں ۔ مسجد کے خوبصورت اور اونچے مینار کئ کلومیٹر کی دوری سے دکھائی دیتے ہیں ۔ مسجد شریف کے صحن میں بھی دیودار کے درخت لگائے گئے ہیں جس سے یہ اور جازب نظر بن گئی ہے اور خوبصورتی بھی دوبالا ہوئی ہے ۔ مسجد شریف میں کسی چیز کی کمی نہ تھی ہاں اگر کوئی کمی نظر آتی تھی تو وہ نمازیوں کی تھی ۔ پوش کالونی کے لوگ شازو نادر ہی مسجد شریف کا رخ کیا کرتے تھے ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کالونی کے لوگ نمازیں پڑھتے بھی ہیں یا نہیں یا گھروں میں ہی ادا کرتے ہیں ۔
کالونی میں دن بھر کپڑے و دیگر چیزیں بیچنے والوں کی بھیڑ اور گہما گہمی رہتی ہے ۔ ایک دن گاؤں سے آیا ہوا ایک نوجوان لڑکا جو کشمیری مکھن اور دیسی گھی بیچتا تھا نماز ظہر ادا کرنے کی غرض سے مسجد شریف میں داخل ہوا ۔ وضو کرنے کے بعد جب اس نے مسجد شریف میں کسی کو نہ پایا تو خود ہی اذان دے دی ۔ صلات بورڈ پر نماز ظہر کا وقت ڈیڑھ بجے دکھایا گیا تھا ۔ جب گھڑی نے ایک بجکر چالیس منٹ کا وقت بھی دکھا دیا اور مسجد شریف میں کوئی بھی شخص نماز کے لئے داخل نہیں ہوا تو نوجوان نے سمجھا کہ شاید کالونی میں رہنے والے کسی بھی شخص نے اس کی اذان نہیں سنی ہوگی ۔ اس لیے اس نے دوبارہ اذان دینی شروع کی ۔ وہ اذان دے ہی رہا تھا کہ چاروں اطراف سے لوگ مسجد شریف کی کھڑکیوں سے آواز دینے لگے ۔۔۔۔۔ ارے جناب ۔ اذان پہلے ہی دی گئی ہے، اب دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ نوجوان اس بات پر حیران ہوا کہ آواز دینے والوں میں ایک اندھا بھی لاٹھی کے سہارے مسجد کی کھڑکی تک آیا تھا اور ایک گونگا بھی اشاروں سے ہی کہہ رہا تھا کہ اذان پہلے ہی دی گئی ہے ۔۔۔۔
���
قاضی گنڈ کشمیر