مسلم ممالک سے تجارتی تعلقات پر یقین رکھنے والے عالم اسلام کے نمبر ایک دشمن ڈونالڈ ٹرمپ کو اُس وقت زبردست دھکا لگا کہ تنظیم برائے اسلامی تعاون او آئی سی نے 13؍دسمبر کو استنبول میں منعقدہ اپنے غیر معمولی اجلاس میں ایک زبان ہوکر پوری جرأت کے ساتھ اپنے موقف کا اعلان کیا کہ بیت المقدس یہ مشرقی یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ ایک طرح سے اپنے آپ کو سوپر پاور سمجھنے والے امریکی صدر کو عالم اسلام نے پہلی مرتبہ متحدہ طور پر ٹھوکر لگائی ہے۔ سعودی عرب جس کے بارے میں اب تک یہ گمان رہا کہ اس نے امریکہ اور مغرب کے دبائو کے تحت اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو لچکدار بنادیا ہے، اُس نے بھی سخت الفاظ میں امریکی موقف کو یکسر مسترد کردیا۔ شاہ سلمان نے 13؍دسمبر کو اپنے سالانہ جائزہ اجلاس میں سعودی عرب کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ فلسطین کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہی رہے گا۔ انہوں نے امریکی صدر کے فیصلے کی مذمت کی جو یروشلم میں فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم کردینا چاہتا ہے۔ اگرچہ کہ بعض مسلم ممالک نے سعودی عرب کے موقف کو قدر کمزور قرار دیا۔ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ترکی صدر رجب طیب اردغان کی اپیل پر طلب کیا گیا تھا جس میں تمام ارکان نے فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ایران کے انقلابی گارڈس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے فلسطین میں اسرائیلیوں کے ساتھ مزاحمت میں شامل ہونے کی پیش کش کی جب کہ ایرانی پارلیمنٹ نے امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو قطع کردینے کا مسلم ممالک سے مطالبہ کیا۔ عرب لیگ، پی ایل او، حزب اللہ کے ساتھ ساتھ روسی صدر ولادمیر پوٹین نے بھی ٹرمپ کے بیت المقدس سے متعلق فیصلے کی مذمت کی جو مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں فلسطین کے حق میں ایک خوش آئند اقدام ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک عالم اسلام ہی نہیں ساری دنیا میں امریکہ کی اس فرعونیت، من مانی فیصلوں کے خلاف عوامی غیض و غضب کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جرمن ہو یا لبنان یا دنیا کے مختلف ممالک امریکی صدر کی فرعونیت کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ افریقی ممالک میں اس میں شدت پیدا ہوچکی ہے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس کے سکریٹری جنرل یوسف العثمان نے امریکہ کے خلاف مسلم قائدین کو متحدہ ہونے کی ضرورت پر زور دیاجب کہ فلسطین کے صدر جناب محمود عباس نے کہا کہ امریکہ نے اپنے اس اقدام سے اپنے آپ کو مستقبل میں اسرائیل فلسطین امن بات چیت میں کسی بھی ثالثی کردار کے لئے نااہل کرلیا ہے۔
یاد ہوگا کہ ڈونالڈ ٹرمپ جنہوں نے اپنی صدارتی مہم میں مسلسل مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں اور ان کی کامیابی میں یہودی لابی نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ 6؍دسمبر 2017ء کو اُس وقت بیت المقدس (مشرقی یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا جبکہ نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ عالم اسلام بابری مسجد کی شہادت کی 25ویں برسی کے موقع پر اپنے محاسبہ کے ساتھ ساتھ اللہ کے گھر کی شہادت کا غم منارہا تھا‘ ٹرمپ نے ایک ایسا دن منتخب کیا جو عالم اسلام کے زخموں پر نمک پاشی کے لئے ان کی نظر میں موزوں تھا۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ بابری مسجد کی شہادت مسجد اقصیٰ کی (خدا نخواستہ) شہادت کا ریہرسل تھا۔ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کا قیام کیوں ہوا کیسا ہوا‘ اس کی طویل تاریخ ہے۔ سائیکس Sykes-Picot معاہدہ جسے ایشیا ک معاہدہ صغیر بھی کہا جاتا ہے جو 102برس پہلے 16مئی 1916ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان روس کی شاہی حکومت کی منظوری سے طے کیا گیا تھا، اس کے تحت جنوبی مغربی ایشیا پر ہر حال میں تسلط‘ یہودیوں کے لئے اسرائیلی مملکت کا قیام، ترکی خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے سلسلہ میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس معاہدہ پر کامیابی کے ساتھ عمل آوری میں مصر اور بعض عرب ممالک شامل تھے جنہوں نے اسلام دشمن طاقتوں کی اپنے مفادات کے سونا اور افرادی قوت سے مدد کی۔ مشرق وسطیٰ میں مسلک کی بنیاد پر اختلافات کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوا وہ بھی Sykes-Picot معاہدہ کی ایک کڑی ہے‘ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس معاہدہ میں جن جن نکات پر اتفاق ہوا تھا ان پر عمل آوری ہوئی۔ سب سے پہلے خلافت عثمانیہ کا چراغ غل ہوا جس میں مسلمانان عالم کو اس کی اپنی نظروں سے گرادیا، پھر ہزاروں برس سے یہودی نصاریٰ ایک دوسرے کے دشمن رہے ہیں مگر انہوں نے بیت المقدس کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے اتحاد کیا ہوا ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ص کی قیادت میں مسلمانوں نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو انہوں نے نہ تو عیسائیوں کے اور نہ ہی یہودیوں کے مقامات مقدسہ کے نشانات کو مٹانے کی کوشش کی بلکہ مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کو ان کے اپنے مذہبی مقامات سے واقف کروایا شاید یہ ایک تاریخی غلطی تھی یا مسلمانوں کی اعلیٰ ظرفی؟
1099ء میں جب صلیبیوں نے یروشلم فتح کیا تو مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے مشہور مؤرخ Istanley lenpole کے حوالہ سے لکھا ہے کہ صلیبیوں نے مسلمانوں پراس قدر ظلم ڈھایا کہ خود دشمن کانپ اٹھے۔ ان کے گھوڑے گھٹنے برابر خون میں ڈوبے ہوئے تھے۔ معصوم بچوں کو فصیل کی دیواروں سے پٹخ کر ماردیا گیا پھر انہیں فصیل کی دیواروں سے پھینک دیا گیا۔ اس کے برخلاف 1127ء میں جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے 90برس بعد دوبارہ فلسطین فتح کیا تو فضائوں میں صرف تکبیر و تہلیل کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
بہرحال بیت المقدس یا مشرقی یروشلم مسلمانوں یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کے لئے مذہبی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اہل یہود کو یہ امید ہے کہ مسیحا کی آمد، ان کی عظمت رفتہ کی بازیابی کا سبب بنے گی۔ دائود و سلیمان کی حکومتوں کا سابقہ جاہ و حشم لوٹ آئے گا۔ اور اقوام عالم پر اہل یہود کی فضیلت دوبارہ قائم ہوجائے گی۔ دوسری طرف عیسائی روایت پرست یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ فلسطین میں یہودی معبد کی تیسری تعبیر سے حضرت مسیح کی آمد ثانی ہوگی جس کے بعد تاریخ کے کمان ان کے تابعین کے ہاتھ میں ہوگی۔ چنانچہ عیسائیوں نے اپنے مقصد کے لئے یہودیوں کو آگے بڑھایا اور آج یہودی اس قدر طاقتور ہوچکے ہیں کہ اپنے آپ کو سوپر پاور کہنے والا بھی اس کا دم بھرنے کے لئے مجبور ہے۔امریکہ ہو یا دیگر مغربی ممالک ان کے سربراہ ہمیشہ سے یہودیوں کے تابع رہے ہیں اور موجودہ امریکی صدر کے داماد خود یہودی ہیں اور ان کی بیٹی ایوانکا بھی یہودی مذہب قبول کرچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ دھر میں بھی دبائو اور باہر بھی ۔بقول کسے یہودیوں کو ان کی اپنی مذہبی روایت اور عقائد کے مطابق اُسی وقت برتری حاصل ہوگی جب تمام اہل یہود پاک ہوجائیںگے، ان کے اپنی نگاہ میں کوئی بھی یہودی پاک نہیں ہے اور پاک ہونے کے لئے سرخ گائے کی راکھ سے تیمم کیا جائے جس کی قربانی ایک کاہن کی نگرانی میں عمل میں آئی ہو۔ یہودیوں کی نئی نسل روایت پرستوں سے انحراف کرتی ہے۔ چنانچہ ایک مملکت کی تشکیل کے باوجود نوجوان اسرائیلی وہاں رہنا نہیں چاہتی کیوں کہ وہ اپنے آپ کو قیدی محسوس کرتے ہیں۔ جواں سال یہودیوں کی اکثریت ان کے اپنے لئے تشکیل دی گئی اسرائیلی مملکت سے دنیا کے دوسرے ممالک کو نقل مکانی کررہے ہیں۔ تاہم روایت پرست یہودیوں کو سازشی اور مکار عیسائی ان کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے ان میں یہودی معبد کی تیسری تعبیر کی آرزو کی بجھتی ہوئی چنگاری کو ہوا دے رہے ہیں۔
عالم اسلام اپنے قبلہ اول کے لئے احتجاج کرتا رہا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے لئے دامے، درمے سخنے اس کی مدد ہوتی رہی مگر اپنے اپنے مفادات کی خاطر ا نہوں نے امریکہ یا دوسری مغربی طاقتوں کے خلاف کوئی جرأتمندانہ موقف ا ختیار نہیں کیا تھا۔ 13؍دسمبر 2017ء یقینا عالم اسلام کے لئے ایک تاریخ ساز دن ہے جب تنظیم اسلامی کانفرنس میں تمام مسلم ممالک نے مردانہ فیصلہ کیا اور مجاہدانہ موقف کا اعلان کیا۔ اس فیصلے اور اعلان پر قائم رہنا کمال ہے۔ مغربی طاقتیں حرامی خون سے پروان چڑھتی ہے۔ عیاری و مکاری ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ وہ اس نئے اتحاد کی نئی دیوار میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کریںگی۔ یہ وقت عالم اسلام کو خواب غفلت سے جاگ جانے اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے کھوئے ہوئے مقام کو بحال کرنے کا ہے۔ بڑی شرم آتی ہے جب مسلم ممالک کے دولت مند ترین حکمران تمام وسائل رکھتے ہوئے بھی دوسروں کے رحم و کرم پر نظر آتے ہیں۔ جنہیں حرمین کے خادمین ہونے کا شرف بخشا گیا،جن کے بنجر زمینوں سے سونا اور تیل اُگلتے ہوئے مالا مال کیا گیا، وہ کیسے اُس ہستی کو بھول جاتے ہیں جس کے پاس دنیا کے تمام سوپر پاورس کا ریموٹ کنٹرول ہے؟ بہر حال جس دن خادمین حرمین شریفین اور دوسرے مسلم ممالک کے حکمران اپنے آپ کو واقعی خادمین سمجھنے لگیںگے اُس دن سوپر پاورس کے سر ان کے تخت تاج اِن کی ٹھوکروں میں آجائے گی۔ اس کے لئے شرط ہے کہ عالم ا سلام جاگ جائے اور اپنی منصبی ذمہ داریوں کو ایمان کامل اور جدید علوم اور سائنس کی روشنی میں ادا کر نے کی کمر ہمت باندھ لے۔ یہ سب ہو اتو مغرور و سر کش سو پر پاور فضا میں تحلیل ہوگا ۔
…………………
رابطہ :ایڈیٹر ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد۔ فون9395381226