یو این آئی
سرینگر//سرحدی قصبہ اوڑی میں شیلنگ اگرچہ اب بند ہوچکی ہے لیکن نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مقامی آبادی خاص طور پر خواتین و بچے اب بھی شدید نفسیاتی صدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ انکشاف انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنسز کشمیر کی ایک تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے تحت چلنے والے چلڈرن گائیڈنس اینڈ ویل بینگ سینٹر کی ٹیم نے یونیسف اور مقامی انتظامیہ کے تعاون سے اوڑی کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، جہاں انہیں عام شہریوں میں شدید ذہنی دبائو، پریشانی، نیند نہ آنا اور بچوں میں خوف کی واضح علامات دیکھنے کو ملیں۔ ٹیم نے 3,600 سے زائد افراد کو فوری نفسیاتی امداد، دوائیں، مشورے اور ذہنی صحت سے متعلق رہنمائی فراہم کی۔رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے لائن آف کنٹرول کے قریب رہتے آئے ہیں لیکن اس بار کی شیلنگ اتنی شدید اور غیر متوقع تھی کہ وہ مکمل طور پر بے خبر اور غیر محفوظ تھے۔ کئی گھر تباہ ہوئے، درجنوں افراد بے گھر ہوئے اور روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔تحقیقی ٹیم کے مطابق خواتین میں سب سے زیادہ فکر اپنے بچوں، گھریلو سامان اور مردوں کی واپسی کی غیر یقینی صورتحال پر مرکوز تھی۔ بچوں میں رات کو ڈر کر جاگنے، دل کی دھڑکن تیز ہونے اور تعلیمی تسلسل کے ٹوٹنے کی شکایات عام پائی گئیں۔رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ محض عارضی نفسیاتی امداد کافی نہیں۔ مقامی برادریوں میں نیم مستقل ذہنی صحت کلینک، اساتذہ و رضاکاروں کی تربیت، اور ذہنی صحت کی خدمات تک مسلسل رسائی کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ماہرین نے تجویز دی ہے کہ متاثرہ بچوں اور نوجوانوں کے لیے اسکولوں میں تخلیقی سرگرمیوں، کھیلوں، اور صدمے سے نکلنے کی تربیت پر مبنی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ “ٹیلی مناس” جیسے ذہنی صحت ہیلپ لائنز کو فروغ دیا جائے تاکہ ہر فرد وقت پر مدد حاصل کر سکے۔