پروفیسر محمد اسداللہ وانی
ہیلو،ہیلو، ایک روہانسی نسوانی آواز سنائی دی۔
یس ہیلو،جی ہیلو، ہاں کون بول رہا ہے .
جی ،جی میں نجمہ بول رہی ہوں،آپ کی شاگرداورآپ کے دوست۔۔۔ کی بیٹی!
اچھا ،اچھا ،کیا بات ہے نجمہ؟
جی آپ کے دوست ۔۔۔۔۔میرے پاپا نہیں رہے ۔اتنا کہتے ہی اس نے دھاڑیں مار مار کر روناشروع کیا ۔چند ثانیوں تک میں نجمہ کی بین سنتا رہا۔مجھ پر جیسے سکتہ سا طاری ہوگیا ۔مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ جس شخص کی رفاقت میںمیری نصف صدی گزری ہے وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیاہے۔ وہ میری کالج کی تعلیم اورپھر ملازمت کے دوران اپنے گھر سے دورایک اجنبی شہر میں نہ صرف میرے محسن ومربی، رفیق وشفیق اور ایک سرپرست رہے بلکہ اُس کے بعد بھی آج تک ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شریک رہے آج وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
میری زندگی میںنجمہ کایہ پہلافون تھا۔میری آنکھوں کے سامنے پلک جھپکتے ہی ماضی کا ایک طویل دور ایک فلمی ٹریلر کی طرح تیزی سے گھوم گیا۔میرے مہربان دوست کاحسن سلوک ،اُس کی بیٹی اور میری شاگرد نجمہ کا حسین وجمیل سراپا،میرے لیے اُس کی وارفتگی ،والہانہ پن اور۔۔۔۔۔۔اوراُس کے تئیںمیراغیر جانب دارانہ ردّ ِعمل! سب واقعات قطار در قطارمیری نگاہوں کے سامنے مجسّم بن کرآ کھڑے ہوئے۔
یہ چالیس برس پرانی بات ہے جب میںنے ریاست کے ایک دور دراز علاقہ کے ڈگری کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے جوائن کرنے کے لیے سفر اختیار کیا ۔دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد میں اُس قصبے میں پہنچا جہاں کالج تھا۔میں نے اپنا سامان ایک معمولی سے ہوٹل میں رکھا،کپڑے تبدیل کیے اور جوائن کرنے کے لیے کالج کی جانب روانہ ہوگیا ۔ ہوٹل سے کالج کوئی دو کیلو میٹر کی دوری پر تھا مگر اُن دنوں وہاں آج کی طرح کوئی سواری دستیاب نہ تھی ۔کالج آزادی کے کچھ عرصہ بعدقائم کیا گیا تھا ۔اس کالج میںاطراف واکناف سے آنے والے طلبا وطالبات کے لیے گاڑی کی کوئی سہولیات نہ تھی۔دور کے طلبا توقصبے میں ہی رہائش پذیر تھے مگر کچھ طلبا روزانہ آنے جانے میںآٹھ دس کیلومیٹر پیدل سفرطے کر تے تھے۔
میں پندرہ برس قبل اس کالج کا طالب علم رہ چکا تھا اورآج لیکچراربن کے جوائن کرنے آیاتھا ۔ میںعجب سرمستی اورسرخوشی کی کیفیت میں ڈوبا ہوا کالج کی جانب رواں دواں تھا کہ مجھے اچانک کالج میںتعلیم کے دوران داخلہ لینے کے بعد اپنے پہلے دن کا پہلاپیریڈ یاد آیاجب حا ضری لگانے کے بعدایک پروفیسر نے مجھے کھڑاہونے کے لیے کہااورمجھ سے میرے گائوں، سکول ،سڑک ،بس اور ٹرک کے بارے میں کچھ سوال پوچھنے کے بعد مجھے کلاس سے نکل جانے کے لیے Get outکہا ۔یہ سن کر میرے پائوں تلے کی زمین جیسے سرک گئی ۔میںنے ایک لمحے میں اپنا جائزہ لیا کہ مجھ سے ایسا کیا قصور سرزد ہواکہ مجھے Get outکیا جارہا ہے اور پھریہ بھی سوچنے لگا کہ میں اپنے گائوںکے تین آدمیوں سے پچاس پچاس روپے اُدھار لے کر کالج میں داخل ہوا ہوںلیکن یہاںسرمنڈاتے ہی اولے پڑے کے مصداق مجھے پہلے ہی دن Get outہونا پڑ رہا ہے۔ میرے ذہن میںاپنے بھائیوں کا خیال کوندے کی طرح لپکاجو ٹھیکیدارکے ساتھ مزدوری پر ہیں۔ اسی اثنا میں مجھے دائیںبائیں کے ڈیسکوں پر بیٹھے ساتھیوں نے باہر نکل جانے کا مشورہ دیا۔ شاید وہ پروفیسر موصوف کی ذہنیت سے آگاہ تھے اورمیںکلاس روم سے باہر نکل کر کالج گراونڈکے ایک کونے میںجا کر پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔دل میں بار باریہ خیال کچوکے لگانے لگا کہ کیاNo knowledge without college کامطلب یہی ہوتا ہے ۔دل ودماغ میں برسوں سے بنا یہ شیش محل محض Get outکی ایک چٹکی میں زمیں بوس ہوگیا ۔
یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ میںدوسرے دن کلاس میں گیا توڈیسکوں کی پہلی دوتین قطاریں چھوڑ کرپیچھے بیٹھا۔ پروفیسر موصوف نے حاضری لگانے کے بعد مجھے Civics کو Define کرنے کے لیے کہا جس پرمیں نے کہا! سر کل آپ نے مجھے پڑھانے سے پہلے ہی کلاس سے باہر نکال دیا تھا،مجھے Civics کی Defination تونہیں آتی۔یہ سنتے ہی اُس نے مجھے Get out کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا Do n’t come for six days۔یوںمیںمجھے ایک ہفتے کے لیے کلاس سے نکال دیا گیا۔اس کے بعد مجھے کلاس روم سےGet out کرنے کا اُس پروفیسرکا معمول بن گیاجو پانچ سال پر محیط رہا ۔
کلاس سے باہر نکالنے کی وجہ مجھے کئی دنوں کے بعد چند لڑکیوں کی آپسی گفتگو سے معلوم ہوئی جو پروفیسر موصوف کی رشتہ دار تھیں اورپہلے دن وہ کلاس روم میںکھڑکیوں کے قریب بیٹھی تھیں جب کھڑکی کے باہر سے کالج کاتعمیری سامان لے کرایک ٹرک جا رہا تھا اورمیں نے اپنی سادگی میں اس کی جانب دیکھا تھا ،جس کی وجہ سے پروفیسر کو میرے کردار کے بارے میں شبہ ہوا۔اگر وہ لڑکیا ں اس کی رشتہ دار نہ ہوتیں تو شاید صورت حال مختلف ہوتی ۔جب میں نے اُن لڑکیوں کو آپس میں باتیںکرتے ہوئے سنا کہ’ یہ پروفیسر خواہ مخواہ میں شریف لڑکوں کو پریشان کرتا ہے ‘تو مجھے اُن کی اِس بات سے اطمینان ہوا کہ میں کم از کم پروفیسر کی گھٹیا سوچ سے بہت بلند ہوں۔
میںاول سے دسویں تک فرسٹ بینچر تھامگرکالج کے اس پروفیسر نے مجھے فرسٹ بینچرسے بیک بینچربنادیا۔کبھی وہ مجھے سٹینڈاَپ ہونے کو کہہ کرRemain Standing(رمین سٹینڈنگ) کا حکم کا دیتااور جب کبھی میں اُس پیریڈمیں نہ جاتا توکسی کو اپنیproxy کرنے کے لیے کہہ دیتا ۔ ادبی پروگراموں اور مباحثوں میں مجھے انعامات سے محروم رکھا جاتا۔ابتدائی ایام میںجب کبھی میںایسے حالات سے بہت مایوس ہوتا تو میں اپنی کتابیںلے کرقصبہ کے قبرستان میں جاکرتنہائی میں روتا اور پڑھتا بھی تھا۔میں نےPoltical Scienceعلم سیاسیات کی Austin’s theory of sovereinty،اس طرح کے بعض دوسرے نظریئےTheories اورشہریوں کے حقوق ا ورفرائض کم و بیش اُسی قبرستان میں یاد کیے تھے۔ آخر کار پانچ سال کے بعد میںنے تھرڈ ڈویژن میں گریجویشن پاس کیا۔
میں اپنے ماضی کے ان ہی خیالات میںغلطاں و پیچاںتھا کہ کالج گیٹ پر ایک بزرگ چپراسی کی سلام نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے پرنسپل کے پاس جوائنگ ڈالی ،کالج کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اراکین سے ملاقی ہوا اوراپنے سبجیکٹ کے سربراہ سے مل کراُن کی ہدایت کے مطابق دوسرے دن سے باقائدہ پڑھانا شروع کیا جس کی مجھے ہمیشہ سے تمناتھی۔
میں کالج سے جب واپس ہوٹل آیا تو معلوم ہوا کہ اس قصبے کا ایک مہربان ہوٹل والے کو یہ ہدایت دے کر میرا سامان اپنے گھر لے گیا ہے کہ وہ مجھے کھانا نہیں کھلائے گااوریہ کہ وہ اپنے گھر پر میرے ساتھ کھانا کھانے کا منتظر ہے ۔ میرا یہ مہربان میرے کالج کی تعلیم کے دوران میری دل جوئی کے ساتھ ساتھ مجھ سے شفقت اور محبت بھی کرتا تھا ۔وہ مجھے بازارمیں جہاں بھی ملتا اپنے ساتھ گھر لے جاتااور چائے ، ناشتہ اورکھاناکھلائے بنا نہیں جانے دیتا تھا۔
میں ہوٹل سے طوہاً وکرہاًاُس کے گھر کی جانب چل دیا۔اُس کے گھر پہنچاتو کیا دیکھتا ہوں کہ اُس نے اپنے گھر میں میرے لیے ایک بیڈروم میں میرا سامان سجا کر رکھا ہے اورخودمیرے آنے اور ایک ساتھ کھانا کھانے کا انتظار کر رہا ہے ۔وہ مجھے دیکھ کراورکالج میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازم ہونے پر بے حد خوش ہوا۔اُس نے مجھے اپنا اہل وعیال لانے تک اپنے گھر میں مہمان کے طور رکھا اور قیام وطعام کامعاوضہ کچھ بھی نہیں لیا۔
کالج میںاپنی ملازمت کے دوران میں نے طلبا کے ساتھ بڑا دوستانہ برتائو رکھا ۔کالج میں جب بھی کوئی تمدنی پروگرام ،بحث و مباحثہ ،سمپوزیم ،مشاعرہ یا سالانہ تقریب ہوتی تومیں طلبا وطالبات کوشرکت کرنے کے لیے نہ صرف آمادہ کرتا تھا بلکہ کافی محنت بھی کراتا تھا۔کالج کے میگزین، جس کا میں برسوں پہلے سٹوڈنٹ ایڈیٹر تھا،کواز سرِ نوشائع کیا ۔ میںبچوں کو کسی بھی بنا پر کلاسزسے باہر نکالنے یعنی Get out کہنے کے سخت خلاف رہا اورایسا کرنے والے اساتذہ کوہمیشہ نا اہل تصوّر کرتا رہاہوں۔
کالج میں درس وتدریس کا کا م سنبھالنے کے ہفتہ عشرہ کے بعدمجھے معلوم ہوا کہ میرے محسن کی بیٹی بھی کالج میں زیر تعلیم ہے ۔ وہ کالج کی لڑکیوں میں انتہائی حسین وجمیل اورمتناسب قدوقامت کی حسینہ تھی۔ جو کوئی اُسے دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔مجھ سے متعارف ہونے کے بعد وہ تعلیم سے زیادہ مجھ میں دل چسپی لینے لگی اور اُس کی اِس دل چسپی میں روز بروز شدّت پیدا ہوتی گئی ۔
وہ اپنے گھر میں باپ کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی ۔گھر کا سارا نظم ونسق تقریباًاُسی کے ہاتھ میں تھا۔وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی۔میرے کمرے کی صفائی، کپڑوں کی استری اور دوسری چھوٹی چھوٹی باتوں کادھیان رکھنا جیسے اُس کا اوّلین فرض بن گیا تھا۔ کالج سے واپس گھرجانے کے بعد وہ میراانتظار کرتی اور میرے پہنچنے کے بعدوہ مجھے کھانا کھلانے کے بعدخود کھانا کھاتی تھی۔اس بات کا مجھ پر بہت بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ کالج میں کسی کلاس کی طالبہ ہی نہیں تھی ۔وہ کلاس میں میرے پیریڈ میںبھی آکر بیٹھتی ۔میں اپنامضمون پڑھاتا تھا اوروہ مجھے ٹکڑ ٹکڑ دیکھتی رہتی تھی ۔کالج میں ویسے بھی اُسے کیاپڑھنا تھا جب کہ وہ ابھی دسویں جماعت بھی پاس نہ تھی۔اگر وہ پاس ہوئی ہوتی توکالج میں داخلہ لے لیتی ۔جب مجھے پتہ چلا تومیںمروّت کی وجہ سے نہ اسے اور نہ ہی اس کے والد کو کچھ کہہ سکا لیکن جب وہ دسویں جماعت کے Bi-Annualامتحان میںپاس ہوئی تو میں اُسے پاس ہونے کی مبارک دیتے ہوئے جب تک اُسے پڑھائی کے بارے میں کچھ اورکہتا اس کے والد نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ’ یہ اگلے سال کالج میں داخلہ لے گی تب تک اسے کالج آنے جانے کی مشق ہو جائے گی اوریوں اسے آپ کی سرپرستی بھی میسّر رہے گی ۔چنانچہ میں نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب نجمہ کے رَوّیے میں کافی تبدیلی آگئی تھی۔وہ اشارے کنایے چھوڑ کر اب واضح طور پر مجھ سے اپنی غیر مشروط محبت کا اظہار کر چکی تھی اور اپنی محبت میں شدّت پیدا کرنے اور اُسے پروان چڑھانے کے لیے وہ ہر وقت میرے آس پاس رہنے کی کوشش کرتی ۔وہ وقت بے وقت کسی بھی بہانے میرے کمرے میں آجاتی تھی، کبھی چائے لاتی ،کبھی پانی لے کر آتی،کسی وقت کافی لے کر آتی اور کہتی سر آپ کے لیے کافی لائی ہوں ،پروفیسرو ں کو تو کافی پینے کی عادت ہوتی ہے ۔ چونکہ مجھے رات دیرتک مطالعہ کرنے کی عادت تھی ۔اس لیے شاید وہ کچھ دیر سونے کے بعد جاگتی اورپھر پینے کا پانی پہنچانے کے بہانے پانی کی بوتل یاجگ لیے مخموراورخواب آلودہ آنکھوںسے جھومتے ہوئے دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوئے کہتی
’ سر !پیاس تو نہیں لگی ہے تازہ پانی لائی ہوں‘۔
میںچاروناچاردروازہ کھول کر دل میں یہ سوچتے ہوئے اُس سے پانی کا برتن لے لیتا
’پیاسی تو تم ہوجس نے تمہیں نیند سے جگایا ہے‘
وہ پانی کا برتن پکڑانے کے بعد کبھی تویک دم واپس لوٹ جاتی اور کبھی ناصحانہ انداز میں کہتی
’ سراب سو بھی جائیں،جسم کا بھی کچھ حق ہوتاہے‘ ۔
’ہاںنجمہ ! حق تواور بھی بہت سے لوگوں کا ہے مگر سب کا کہاں ادا ہوسکتا ہے ،میں کہتا۔
’تو کر دیاکریں نا ادا ، انتظار کیوں کرواتے ہیں ،تڑپاتے کیوں ہیں۔وہ کہتی
دیکھوحق ادا کرنے کا کب موقع ملتا ہے،میں کہتا
مجھے نہیں لگتا اس کاکبھی موقع ملے گا کیونکہ اب تو اصلی حق داربھی آنے والے ہیں
وہ ایسی باتیں کہتے ہوئے مسکراتی اورسیڑھیوں سے نیچے اُترجاتی۔
کالج میںاب سرما کی تعطیلات ہونے والی تھیں اورمیںتعطیلات کے بعد اپنے اہل وعیال کے ساتھ اسی محلے کے ایک مکان میں منتقل ہونے والا تھا۔ اس بات کا جب نجمہ کو پتہ چلا تو وہ بہت اُداس اورپریشان ہو گئی ۔اپنی اداسی اور پریشانی اُس نے مجھ پر ظاہرتو نہ ہونے دی مگر اُس کے ردّعمل اورنفسیاتی رَوّیے سے یہ بات ہویدا تھی۔ وہ پہلے سے زیادہ میرا خیال رکھنے لگی مگرکبھی کبھاراُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجاتی تھی جس کی اُس سے قطعی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔کبھی وہ پانی کا خالی جگ لے کر آتی یا چائے میں نمک یا چینی کی مقدارمیں تفاوت ہوتا ۔کبھی کوئی برتن ہاتھ میں لیے دیر تک دروازے پر اداس نظروں سے اِدھراُدھر دیکھتی رہتی۔ مجھے اُس کی اِس ذہنی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ اُس کی میری خاطر بے انتہا چاہت اور میری سنگدلی اوربے توجہی کاردِ عمل تھا۔وہ جوانی کی دہلیز پر کھڑی تھی جہاں چاہنے اورچاہے جانے کا جذبہ اوج کمال پر ہوتا ہے جب کہ میںبھرپور جوانی کی راہ پر محو سفرتھا۔ میرے سامنے ایک طرف تاحدنظر آگ کاٹھاٹھیں مارتا ہواسمندراوردوسری جانب مہکتاہواگلستان تھا جومیری ’ہاں‘ اور ’نا‘ کی کلید کا محتاج تھا ۔ میںنجمہ کی چاہت، محبت اورخدمت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اُس کے باپ کی بے پناہ مہربانیوں کارہین منت ہوکردودھاری تلوار پر گامزن ہوکراعتماد اورخیانت کی ادھیڑ بُن میں مبتلا تھا۔ میں کسی سے ہمدردی اورمحبت تو کرسکتا تھا مگراُسے اپنے وقتی خواہشات اورجذبات کی بھینٹ چڑھا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی کسی کو ہمیشہ کے لیے اپنا سکتا تھا ۔اتنا ہی نہیںمیںاپنے محسن کے اعتماد اوربھروسے کو نظر انداز کرکے اس سے خیانت بھی نہیںکر سکتا تھا۔
آج کالج میں تعطیلات کا اعلان ہوچکا تھا،مجھے کل شہر جاناتھااس لیے کالج سے نکلنے اوربازار سے کچھ خریداری کرنے کی وجہ سے اپنے ڈیرے پہنچنے میں ذرا دیر ہوگئی۔گھر میں داخل ہوتے میں نے نجمہ کو ہاتھ میں چھری لیے ہوئے آنگن میں کوئی ترکاری کاٹتے ہوئے دیکھا۔میں نے دل میں سوچا کہ میرے دیر سے آنے کی وجہ سے نجمہ نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا ہوگا ۔وہ جب میرے لیے کھانا پروسنے لگی تو میں نے اُس سے کہا کہ آج میں رسوئی میں ہی کھاناکھائوں گا۔میں نے اُسے یہ بھی کہا کہ شاید تم نے بھی ابھی کھانا نہیں کھایا ہوگا اس لیے تم بھی ا پنے لیے کھانا پروسو دونوں ساتھ کھائیں گے مگراس نے میری بات نہیں مانی ۔اس نے حسبِ معمول انتہائی محبت آمیزانداز سے مجھے کھانا کھلایا۔میںکھانے سے فارغ ہوکر واش بیسن پرہاتھ دھونے لگا تب تک نجمہ نے برتن اٹھائے اوردستر خوان سمیٹا۔میںہاتھ دھو کر جونہی واش بیسن سے مڑا تو میں نے نجمہ کو ترکاری کاٹنے والی چھری ہاتھ میں لیے بالکل اپنے سامنے کھڑا دیکھا۔اس سے قبل کہ میں اُس سے کچھ کہتا اُس نے نہ جانے کس ارادے سے یک بارگی چھری ہوامیں لہرائی ۔اس سے پہلے کہ وہ چھری سے کچھ کرتی، میں نے اپنی پوری طاقت سے اُس کے ہاتھ سے چھری چھین لی جس کی وجہ سے میرا ہاتھ کافی زخمی ہوا اورخون بھی بہنے لگا۔
نجمہ نے جب میراہاتھ لہولہان دیکھا تو اُس کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی اورپھر پھرتی سے اپنے سر سے اوڑھنی اُتارکر پھاڑی اورروتے ہوئے لرزتے ہاتھوں سے وہ میرے ہاتھ کی مرہم پٹی کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اور گھر کے آنگن میں لوگ حیرت وحسرت سے ایک دوسرے کوتکنے لگے۔
���
سنجواں جموں،موبائل نمبر؛9419194261