سرینگر//بجلی تو بجلی اب سرکاری محکمہ جات پانی کا فیس ادا کرنے میں بھی لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں ۔ایک طرف بجلی وپانی فیس ادائیگی پر سرکار عام صارفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتی لیکن دوسری طرف ان دونوں لازمی خدمات کی فیس ادا کرنے میں سرکاری محکمہ جات ہی ناکامی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔کشمیرعظمیٰ کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ صحت،بجلی،فنی و اعلیٰ تعلیم،پارلیمانی امور،کھیل کود، سیاحت،پھولبانی،مکانات و شہری ترقی،صنعت و حرفت،وقف بورڑ،موسمیات اورمحکمہ مواصلات کے پاس کروڑوں روپے پانی فیس واجب الاداہے،تاہم اس کی ادائیگی کیلئے متعلقہ محکمہ کی کاوشیں ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہو رہی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق33سرکاری و نیم سرکاری محکموں کے پاس گذشتہ مالی کے اخیر تک2,98,98000کروڑ روپے واجب الادا ہے۔دستاویزات کے مطابق محکمہ صحت کے پاس ایک کروڑ3لاکھ31ہزار روپے کی رقم پانی فیس کی صورت میں بقایا ہے۔جن میں سرینگر کے صدر اسپتال کو37لاکھ14ہزار،بچوں کے سے بڑے شفا خانے،جی بی پنتھ اسپتال کو11لاکھ54ہزار،رعناواری اسپتال کو11لاکھ40ہزار،پرنسپل میڈیکل کالج کے دفتر کو11لاکھ اور بون اینڈ جوائنٹ اسپتال برزلہ کو ایک لاکھ88ہزار کے علاوہ وادی میں زچہ بچہ کے سب سے بڑے اسپتال لل دید اسپتال پر30لاکھ ایک ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ اعداد و شمارکے مطابق محکمہ اعلیٰ وفنی تعلیم کے پاس21 لاکھ 97ہزار روپے کی رقم بقایا ہے،جن میں پرنسپل کشمیر گورنمنٹ پالی ٹیکنک کے دفتر کے پاس4لاکھ35ہزار،ایس پی کالج سرینگر کے پاس12لاکھ 72ہزار اور زنانہ کالج کے پاس4لاکھ90ہزار روپئے کی پانی کی فیس بقایا ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ قانون سازی کرنے والے ارکان کو دی جانی والی پانی سہولیات میں بھی متعلقہ محکمہ فیس وصول کرنے میں ناکام ہوا ہے۔اعداد و شمارکے مطابق ممبران اسمبلی کیلئے مخصوص رہائش گاہ(ایم ایل ائے ہوسٹل) کے پاس 61لاکھ24ہزار روپے کی رقم جبکہ جموں کشمیر اسمبلی کمپلکس،جس میں فی الوقت کئی کمیشن کام کر رہے ہیں،پر بھی55ہزار روپے کی فیس واجب الادا ہے۔ ادھر بلدیاتی ادارے بھی پانی کا فیس جمع کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں،اور ان کے پاس18لاکھ56ہزار روپے کی رقم بقایا ہے،جن میں سرینگر مونسپل کارپوریشن کو2لاکھ74ہزار اور سرینگر ڈیولپمنٹ اٹھارٹی(سنگرمال شاپنگ کمپلکس) کے پاس11لاکھ72ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ذرائع کے مطابق محکمہ باغات و پھولبانی 22لاکھ84ہزار روپے کی بقایا فیس جمع کرنے میں ناکام ہوچکا ہے،جبکہ گجر اینڈ بکروال ہوسٹل کے پاس بھی39ہزار روپے کا پانی فیس بقایا ہے۔پانی کافیس ادا کرنے میں محکمہ بجلی بھی ناکام ہوچکا ہے،جس کے پاس10لاکھ72ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے،جن میں الیکٹرک مینٹینس ڈویژن اول کے پاس6لاکھ47ہزار روپئے اور الیکٹرک ڈویژن دوئم کے پاس4لاکھ25ہزار روپے کی رقم بقایا ہے۔مرکزی محکمہ جات بھی پانی کا فیس اداکرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور مجموعی طور پر15لاکھ85ہزار روپے کی رقم بقایا ہے۔دساویزات کے مطابق بی ایس این ایل کے پاس3لاکھ90ہزار،سینٹرل انسٹی چیوٹ آف ٹیمپریٹو ہارٹی کلچر کے پاس4لاکھ83ہزار محکمہ موسمیات کے پاس30ہزار اور اکاونٹس جنرل آفس کے پاس6لاکھ79ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ریسرچ اینڈ پبلسٹی محکمہ و ماس کیمونکیشن کے پاس36ہزار زرعی یونیورسٹی،کے ڈی فارم کے پاس2لاکھ99ہزار،یو این ڈی پی نوشہرہ کے پاس3لاکھ36ہزار اور کشمیر نرسنگ ہوم کے پاس34ہزار روپے کا آبیانہ ابھی تک بقایا ہے۔ریاستی پولیس بھی آبیانہ کی عدم ادائیگی کی فہرست میں شامل ہے،اور پولیس کو3لاکھ70ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ رائیل سپرنگ گالف کورس کو ایک لاکھ85ہزار،جموں کشمیر کرکٹ ایسو سی ایشن کو4لاکھ8ہزار جبکہ بخشی اسٹڈئم کو ایک لاکھ 39ہزار روپے کی رقم بطور آبیانہ باقی ہے۔اس فہرست میں وقف بورڑ بھی شام ہیں،جن کو7لاکھ26ہزار روپے،سلک فیکٹری کو3لاکھ70ہزار روپے اور ریاستی نمائش گاہ کو46ہزار کے علاوہ محکمہ سیاحت کے زیر اثر چلنے والے نگین کلب کو3لاکھ43ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے۔