انور خان کو جب ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو تنہا ایک الگ علاحدہ کمرے میںچار پائی پر لیٹے ہوئے پایا۔ اس کے جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا تھا۔ سانسیں لینے میں گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی اور اس کی پسلی کے قریب درد کی شدید ٹیس اٹھ رہی تھی جو اُسے کسی پل چین نہیں دے رہی تھی۔ وہ کراہنے لگا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے پیٹ پر آرا چلادیا ہو۔
کچھ دیر تک اضطراب کے عالم میں رہنے کے بعد جب اس کے اوسان بحال ہونے لگے تو اس نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں اور جب کوئی شناسا ساچہرہ نظر نہ آیا تو اسکے دل کو ایک جھٹکا سا لگا۔ چہرے پر ایک رنگ آتا اور جاتا رہا اور وہ غم زدہ ہو کر چھت کی جانب تکتا رہ گیا۔
دفعتاً اس کا دھیان پاس کھڑی ایک دبلی پتلی سی خاتون کی طرف گیا۔ اُسے سفید ا پرن میں دیکھ کر وہ ایک ہی نظر میں پہچان گیا کہ نرس ہے ۔ اس نے مایوس ہو کر دکھ بھرے لہجہ میں پوچھا ۔
’’ وہ کہاں ہے اور کہا ں چلا گیا۔؟‘‘
نرس نے اس کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے بڑے ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔
’’ خیریت ہے ۔ کوئی پریشانی ہے کیا؟‘‘
’’ میرا بیٹا اور کون؟ کہاں چلا گیا وہ اور مجھے یہاں اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ … انور خان کچھ توقف کے بعد بے صبری مگر قدرے اونچی آواز میں بولا۔
اس کی اندرونی کیفیت و اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے وہ چند لمحوں کے لئے سوچ میںپڑ گئی اور پھر سوچنے لگی ۔ ہوسکتا کہ یہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا ہو اور اس اُمید میں دروازے کی جانب باربار دیکھے جارہا ہے ۔ اُس نے اس کے کا ندھے پر ہمدردی سے ہاتھ رکھا او راپنی نرم مخروطی انگلیوں سے دبا کر تسلی دیتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
’’ آتے ہوں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ضروری کام سے دیر ہوئی ہو۔‘‘
جواب پا کر کچھ دیر تک پیٹ کا جائزہ لینے کے بعد دفعتاً جب اس کا دھیان دوبارہ پیٹ کی جانب گیا تو اس نے پیٹ پر اپنا ہاتھ پھیرا کر حیرانگی سے سپاٹ لہجہ میں پوچھا۔
’’سسٹر !میں نے سنا ہے کہ ایسے آپریشن میں دو تین Stich آتے ہیں ۔ لیکن اتنا بنڈ یج Bandage باندھنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔‘‘
اس کے سوال پر نرس مخمصے میں پڑ گئی اور تلملا کر رہ گئی ۔ وہ ایک عجیب کشمکش میںمبتلا ہوگئی اور تھوڑی سی بے چین بھی۔ اُسے اس کی یہ بات سمجھ میں نہ آئی۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات اٹھے کہ وہ سچ سچ بتادے یا اپنی زبان پر تالا چڑھا دے۔ اُسے لگا کہ ضرور اس معاملے میں کہیں نہ کہیں بدنیتی اور کھوٹ کا عنصر شامل ہے۔ لیکن بحیثیت ایک ذمہ دار نرس اور پیشے کا تقدس کا خیال آتے ہی اس نے اس بات کا انکشاف کرنا موزون سمجھ لیا۔ وہ اس حقیقت کا پردہ فاش کرنا ہی چاہتی تھی۔ دفعتاً ایک دراز قد عورت اپنے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لے کر کمرے میںداخل ہوئی ۔ سامنے میز پر گلدستہ رکھ کر وہ اطمینان سے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسکا گول بھرابھرا کشمیری سیب جیسا چہرہ، لپ اسٹک سے رنگے ہونٹ ، بادامی آنکھیں اور بھری بھری گوری کلائیاں بڑی جاذب نظر لگتی تھیں۔بیٹھتے ہی وہ انور خان سے پوچھ بیٹھی۔
’’ بھائی صاحب! آپ کیسے ہیں ۔ کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ؟‘‘
’’ تھوڑا سا درد محسوس کر رہے ہیں ۔ میں نے انجکشن لگادیا ہے ۔ جلد ہی اس میں افاقہ ہوگا۔‘‘ … نرس اس کی بات فوراًکاٹتے ہوئے بولی ۔
ادھر کسی اجنبی خاتون کو سامنے دیکھ کر انور خان کاپریشان ہونا لازمی تھا۔یہ پہلا موقعہ تھا جب اس نے کسی اجنبی عورت کو مزاج پرسی کے لئے آتے دیکھا اور پھر جب دونوں کے درمیان کھسر پھسر کے انداز میں باتیں ہوتے دیکھیں تو عجیب سا لگا۔وہ حیران کن نگاہوں سے ان دونوں کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ جانے کیا سوچ کر اس نے فوراً اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ تاکہ اس بہانے سے ان کے درمیان ہور ہی باتیں سن سکے ، لیکن اس نے جیسا سوچا تھا ویسا کچھ نہیں تھا اور پھر سرپیٹ کر رہ گیا۔اُسے اس بات کا بھی پتہ نہ چل سکاکہ وہ اجنبی عورت کب اس کے کمرے سے باہر نکلی ۔ یہ دیکھ کر اس کے دل کو ایک دھچکا سا لگا اور وہ پھٹی پھٹی نظروں سے نرس کو دیکھتا رہ گیا۔ پھر جیسے ہی نیند اس پر غالب ہوئی تو وہ سب کچھ بھول گیا۔ کچھ یاد نہ رہا ۔
ہفتہ بھر پہلے انور خان شہر میں آیا تھا، جہاں اس کا بیٹا ایک مقامی کالج میں زیر تعلیم تھا۔جب وہ بس سے اترا تو شہر کی گہما گہمی کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گیااور پھر جب اس نے اپنے بیٹے کو آس پاس کہیں نہیں دیکھا تو اُسے کچھ حیرانی ہوئی اور کچھ دھچکا سا لگا ۔ وہ اندر ہی اندر تلملا سا گیا ۔ اس کی حیرت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ اور وہ کب آئے گا؟… یہ سوچتے ہی اس کی پیشانی پر پسینے کی بے شمار بوندیں پھوٹ پڑیں اور چہرے پر بے چینی کی عجیب سی لہر دوڑ گئی۔
تمام مسافر بس سے اتر چکے تھے ۔ اب وہ وہاں اکیلا رہ گیاتھا اور مضطرب انتظار میں کھڑا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ سیل فون پر اس کا نمبر ملایا مگر ہر بار جواب میں کسی خاتون کی مانوس آواز میں Not Reachableکا جملہ سنائی دیا یا دیر تک بڑ بڑاہٹ کی آواز باز گشت کرتی رہی ۔
تھک کر وہ چور چور ہو گیا تھا جب کہ سوا نیزے کی بلندی پر ننگی دوپہر کا جھلستا ہوا سورج اس کے سر پر کھڑاتھا۔ دھوپ کی تمازت اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ سارا بدن پسینے سے شرابور ہو چکا تھا اور غصے سے اس کے چہرے کا رنگ لال پیلا ہورہا تھا۔ اس کا غصہ بجا تھا اور پھر اس کا گلا بھی سوکھ چکا تھا۔ اُسے اس کی عقل و ذہانت اور سوچ و فہم پر افسوس بھی ہوا اور تعجب بھی… اول تو خود نہیں آیا۔ دوم یہ کہ صاحبزادے نے اپنے پروگرام کے تعلق سے کوئی فون نہیں کیا۔ وہ دل مسوس رہ کر گیا۔جو امید اس سے لگائی گئی تھی،وہ اس کی غیر حاضری سے معدوم ہوتی نظر آنے لگی۔
بیچارہ ۔! شریف النفس اور ایک ذمہ دار انسان ، بستی کے ایک پرائمری اسکول میں بچوں کو اُردو اور اخلاقیات کا درس دیتا رہا۔ اب پچھلے سال نوکری سے سبکدوش ہوچکا تھا ۔ نفاست پسندی و دیانت داری اور وقت کی پابندی کے لئے مشہور تھا۔ چھوٹے اور بڑے سب اس کی عزت کرتے تھے ۔ ایک ہی لڑکا تھا، جسے شہر کے ایک کالج میں اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجا تھا۔
ادھر ملازمت سے فراغت پاتے ہی اس نے اپنی تمام پونجی اس اُمید کے ساتھ بیٹے پر لگائی تھی ۔تاکہ وہ بڑھاپے میں اس کا سہارا بنے ۔ اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ… مگر اس وقت اس کی امیدوں پر پانی پھرگیا جب وہ دیر تک اُسے دور دور تک نظر نہ آیا۔
پھر جب اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تو اس کے دل کے کسی گوشے میں کہیں سے آواز سنائی دی۔
’’ لڑکا ذی فہم ہے۔ محنتی ہے۔ شریف اور فرماں بردار ہے۔ ضرور کسی اچھے کام میں لگا ہوگا ۔ ورنہ وہ ضرور ننگے پیر دوڑ کر آیا ہوتا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بس کے آنے میں دیر لگ گئی ، وہ اس کے کالج جانے میں رکاوٹ بنی ہو۔
یہ سوچ کر اس نے اپنے ذہن میں اٹھے خیالات کو جھٹک دیا اور پاس کھڑے ایک آٹو رکھشا والے سے کسی اوسط درجے کے ہوٹل میں لے جانے کے لئے کہا۔
ہوٹل پہنچ کر اس نے سب سے پہلے غسل کیا۔ فریش Freshہو کر ہلکا سا ناشتہ کیا۔ کچھ دیر کے بعد دوبارہ موبائل پر لڑکے کا نمبر ملایا۔ اب کے گھنٹی بجی تو اس کے چہرے پر چمک آئی ۔ مگر افسوس یہ کہ کسی نے دوسری طرف سے اٹھایا نہیں اور بند کردیا۔ وہ بوکھلااٹھا ۔غصے میں ایک دو موٹی گالیاں دیتا مگر کس منھ سے اور کس کے نام سے؟ محکمہ مواصلات والوں کو یا اپنے صاحبزادے کو۔
اب وہ اور بھی دکھی ہو گیا تھا۔ یوں سمجھو کہ جیسے اس کی کمر ہی ٹوٹ گئی ہو ۔ گائوں سے کیا سوچ کر آیا تھا اور یہاں کیا دیکھنا پڑا۔
وہ یاد کرنے لگا۔
گائوں میں ڈاکٹر نے اُسے صلاح دی تھی کہ شہر میں ایکسرے ، اور الٹرا سونو گرافی جیسے ٹیسٹ کروانے کے لئے بہت سی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں اور کسی وقت کلنک پر جاکر ٹسٹ کرواسکتے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ گردوں کی بیماری میںمبتلا تھا ۔جس سے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہوگئی تھی اور اب بیٹے کے اس برفیلے رویہ نے اُسے مزید مایوس کردیا تھا۔
کچھ ساعتیں یونہی خاموشی کی نذر ہوگئیں ۔
اس دوران اس نے پانی کی دو بوتلیں حلق میں انڈیل دیں اور کئی بار نمبر ملانے کی کوشش کی۔ مگر ہر بار نا کامی ہوئی اور اب صرف کا لج جانا ہی ایک راستہ رہ گیا تھا تاکہ وہ بچے سے خیرو عافیت پوچھے اور ساتھ ہی نہ آنے کی بھی وجہ ۔
اچانک اس کا فون بج اٹھا ۔ منہ کھولے اور آنکھیںپھیلائے حیرت سے موبائل کی طرف دیکھنے لگا اور اٹھا کر فوراً اس کا بٹن دبایا۔ اس کا اندازہ صحیح نکلا جو تھوڑی دیر پہلے اس نے سوچا تھا۔ فون پر اس کے نگوڑے بیٹے کی آواز آرہی تھی۔
’’ پاپا۔ آپ کیسے ہیں۔ کب یہاں پہنچے …؟
بیٹے کو نان اسٹاپ بولتے ہوئے دیکھ کر وہ من ہی من میں خوش ہوگیا اور سوچنے لگا۔ کتنا لائق اور فرمان بردار بیٹا ہے اور اس کے لئے کتنا فکر مند لگ رہا ہے۔
’’ بھئی ! اب چپ بھی کرو۔ ایک ہی وقت میں کتنے سوالات پوچھو گے۔ اب جانے دو۔ انتظار کرتے کرتے میں تھک گیا ہوں۔‘‘
’’ آئی ۔ ایم سوری پاپا ۔ میں وقت پر پہنچ نہ سکا۔ آپ کہا ںہیں؟… دوسری طرف سے اس کے بیٹے نے پھسپھسی آواز میں معذرت چاہی ۔ ایسالگ رہا تھاجیسے شرمندگی سے نڈھال ہوگیا ہو اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہا ہو۔
’’ اچھا ۔ اچھا ۔ یہ بتائو تم کیسے ہو؟… ہاں میں اس وقت’ ایمپرل ہوٹل ‘میں ٹھہرا ہوا ہوں۔‘‘
’’ پاپا ۔ بات دراصل یہ ہوئی کہ میرے ایک فرینڈ کا ماموں آج صبح ایک ایکسیڈنٹ میں چل بسا۔ موت کی خبر سنتے ہی ہم دو چار ساتھی اس کے گھر تعزیت کے لئے گئے تھے ۔ وہیں پر تھوڑی سی دیر لگی ۔ شام کو ملتا ہوں۔… By-By ۔ خدا حافظ ۔ اپنا خیال رکھنا ‘‘ اس کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا ۔
اچانک شام کو موسم کا مزاج بگڑ گیا۔ویسے بھی موسم او رعورت پر کیا بھروسہ ۔ابھی تولہ ابھی ماشہ اور ابھی آگ کا بگولہ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان بادلوں کی لپیٹ میں آچکا تھا ۔ ایسی بارش ہوئی کہ ہر جانب جل تھل کا سماں تھا۔ ہوا میں اتنی تیزی تھی جس سے مکانوں کی کھڑکیاں کھڑ کھڑا رہی تھیں ۔ مگر اتنا خراب موسم ہونے کے باوجود اس کا بیٹا اُس سے ہوٹل میں ملنے آیا۔ باپ کی شفقت اُسے کھینچ لائی۔ کچھ دیر تک ان کے درمیان باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ ایک کہتا اور دوسرا سنتا رہا۔ جیسے بہت دنوں کے بعد دو بچھڑے ہوئے دوستوں کا ملن ہوگیا ہو۔
دوسرے دن اس کا بیٹا اُسے شہر کے ایک مشہور معالج کے پاس لے کر گیا۔ اس نے بڑی خوش اسلوبی کا مظاہرہ کر کے اس کا معائینہ کیا۔ ٹسٹ کروانے کا مشورہ دیا۔ مریض کی سہولیت کے لئے وہاں ہی کلینک سے جڑی لیبارٹری میں ٹسٹ کرائے گئے ۔ سب سے بڑی بات جو دیکھنے میں آئی ،وہ یہ کہ بیٹے نے کبھی اُسے اکیلا نہیں چھوڑا ۔ ہر جگہ اس کے ساتھ سایہ بن کر رہا اور اس طرح ایک فرماں بردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیا۔
اور جب رپورٹ آئی تو اس سے پتہ چلا کہ اس کا ایک گردہ صحیح سلامت ہے البتہ دوسرے گردے اورگال بلیڈر میں پتھریاں ہیں ۔ اس لئے وقت پر انہیں نہ نکا لا گیا تو بُر ے نتائج نکل سکتے ہیں۔
وہ ہفتہ کا آخری دن تھا۔ اُسے ایک مقامی نرسنگ ہوم میں ایڈمٹ ہونا پڑا، جسے شہر کا کوئی بارسوخ اور صاحب ثروت شخص چلا رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کے آتے ہی احتیاطی تدابیر مدنظر رکھتے ہوئے علاج و معالجہ شروع کیا۔ دوائیں جیسے بے اثر انہیں اور درد بڑھتا گیا۔ جب معاملہ کچھ نازک سا نظر آنے لگا۔ تو انہوں نے معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے فوراً آپریشن کرنے کی صلاح دے دی اور ساتھ ہی بوقت ضرورت ایک دو بوتل خون انتظام کرنے کے لئے بھی کہا۔
تھیٹر کے باہری دروازے کے قریب لوگوں کی ایک چھوٹی سی بھیڑ جمع ہوچکی تھی ۔سامنے دیوار پر ایک چارٹ ٹانگا ہوا تھا۔ جس پر ڈاکٹروں کے مطابق ان مریضوں کے نام و پتہ درج تھے۔ جن کا آج آپریشن ہونا تھا۔ تعداد کے لحاظ سے وہ پانچ تھے۔ جن میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک بچی اور باقی تین سبھی مرد تھے۔ سب مریضوں کے ساتھ لوگ آئے تھے اور ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے۔
پھر جیسے ہی سبھی مریضوں کو آپریشن تھیٹر میں لایا گیا تو ان کے اعزاء و اقارب کی بھیڑ کچھ زیادہ ہوگئی۔ جن میں سے کچھ دیواروں کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے اور کچھ کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں لگ گئے ۔ ہر کسی کو اپنی فکر ستائی جارہی تھی اور ہر کوئی اپنی فکر میں غلطاں تھا کہ اس کے بعد اب کیا ہوگا؟…
باہر شدید گرمی تھی مگر اندر کمروں اور زینے میں ’ اے سی ‘ سے قدرے آرام و راحت انہیں مل رہی تھی ۔ سبھی لوگ اپنے اپنے مریض کا حال جاننے کے لئے بے تاب نظر آرہے تھے اور آنکھیں مانیٹر کی جانب لگائے ہوئے تھے۔
دفعتاً کچھ دیر کے بعد ایک نرس اندر سے کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلی تو اُسے دیکھ کر باپ کی شفقت میں تڑپتے بیٹے کے اندر جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا ۔ وہ بجلی کی مانند اس کی جانب لپکا اور اُس سے بڑی آس نراش مگر دکھ بھرے لہجہ میں پوچھا۔
’’ پاپا کیسے ہیں ؟‘‘
’’ کون ؟‘‘
’’ انور خان‘‘
’’ ٹھیک ہیں۔ بس ان کے لئے خدا سے دعائیں مانگو۔‘‘
’’ ان کا آپریشن کب ہوگا‘‘ اس نے بے چین ہو کر دوبارہ پوچھا
’’ پتہ نہیں ۔ کس کا کب ہوگا ۔ وہ سب ڈاکٹر صاحبان جانتے ہیں ۔ البتہ وہ آپریشن کرنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔‘‘
’’ آپریشن کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے ؟‘‘
اچانک نرس اس کا اگلا بے تکا سوال سن کر چند لمحے کے لئے متحیر ہو کر رہ گئی مگر فوراًکچھ سوچ کر اس نے اس کے چہرے پر ایک بھر پور نظر ڈالی اور دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ یہ نوجوان کتنا عظیم ہے جو اپنے بوڑھے باپ کا اتنا خیال رکھتا ہے ۔ بار بار سوال کرتا ہے کہ اب پاپا کہ طبیعت کیسی ہے اور کس حالت میں ہے ۔ادھر دوسرے لوگوں کا حال بھی اس سے کچھ کم نہ تھا مگر یہ مہاپرش انہیں پوچھنے کا موقع دیتا ۔ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہ آگے بڑھتے ہوئے بولی ۔
’’ کیا پتہ ، اس میں چار اور کبھی پانچ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں اور کبھی اس سے کم بھی ۔‘‘
اسی دوران وہ شکستہ حال آپریشن تھیٹر کے باہر ایک خالی کرسی پر دھم سے بیٹھ گیا اور آپریشن ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ایک کر کے ہر مریض کا آپریشن ہوتا گیااور وہ بڑی بے صبری سے باہر لگے مانیٹر پر نظر یں دوڑاتے رہے۔ جس کے ا سکرین پر ،ڈاکٹر اور مریضوں کے مابین کیا ہورہا ہے، نظر آرہا تھا۔
یہ دیکھتے ہوئے اس کا بدن پسینہ پسینہ ہورہا تھا اور طبیعت پرگرانی محسوس ہونے لگی ۔ سر چکرانے لگا اور تھک بھی گیا تھا ۔ پھر نہ جانے کیا سو چ کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور تیز تیز قدموں سے زینے پھلانگتا ہوا باہر نکل آیا۔
پھر جب کوئی آٹھ گھنٹے تک سارے مریضوں کا آپریشن کیا گیا تو وہ حفاظتی اقدام کے پیش نظر اپنے اپنے کمروںمیں منتقل کئے گئے اس طرح انورخان کو بھی ایک الگ علاحدہ کمرے میں رکھا گیا۔
ہوش میں آتے ہی انور خان کی جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنے دماغ پر زور ڈالنا شروع کردیا اور وہ یاد کرنے لگا جو کچھ وہ بے ہوش ہونے سے قبل دیکھ چکا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں کے سامنے اس اجنبی عورت کی تصویر گھومنے لگی۔ جو ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لے کر اسکے کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ اُسے یاد کرتے ہوئے وہ نرس سے سنجیدہ لہجے میں بولا۔
’’سسٹر ۔ وہ عورت کو ن تھی ۔ میں نے اُسے پہچانا نہیں اور آپ کے ساتھ کیا بات کر رہی تھی ؟‘‘ … انور خان ایسے بجھے بجھے انداز اور شگفتہ لہجے میںکہے جارہا تھا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس کے آنے کا مطلب سمجھ نہ پایا تھا اور نہ ہی حقیقت جانتا تھا ۔یہ دیکھ کر نرس کچھ حیران سی ہوگئی اور تعجب سے دیکھتی رہی ۔ جانے کیا سوچ کر وہ اس کی بے بسی و لاچاری پر ترس کھا گئی ۔ شاید وہ حساس اور نرم دل رکھتی تھی۔ اس سے رہا نہ گیا، جھٹ سے بولی۔’’
خان صاحب! دراصل یہ عورت آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی ۔‘‘
’’ کس بات کے لئے ‘‘؟ وہ کھنکھار کر پوچھ بیٹھا… ’’
آپ نے جو اپنا ایک گردہ پانچ لاکھ کے عوض میں اس کے بیٹے کے لئے بیچ ڈالا، بس اسی کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اور ساتھ ہی آپ کی خیریت بھی جاننا چاہتی تھی ۔
’’ میں نے اپنا ایک گردہ بیج ڈالا ؟‘‘ … یہ سنتے ہی انور خان پر جیسے حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ دیر تک بد بداتا رہا اور بت بنا اس کی جانب دیکھتا رہ گیا…
کچھ توقف کے بعد نرس اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے دوبارہ بول پڑی۔
’’ سنا ہے کہ یہ رقم آپ کے بیٹے نے ایک ایگر یمنٹ کے تحت پہلے ہی لی ہے ۔ کیا اس نے آپ کو بتایا نہیں ؟‘‘…
نرس پھسپھسی سی آواز میں اتنا بول پائی کہ انور خان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا نے لگا …!!!
………٭٭٭………
ٹینگہ پورہ نواب بازار سرینگر
موبائل نمبر؛9858989900