رفیق احمد قادری
اولاد خدا قدوس کی عظیم نعمتوں میں سے ایک بیش بہا نعمت ہے۔بیٹا ہو یا بیٹی یہ سب خدا کی دین ہے۔ خدا کا اپنا فیصلہ ہے۔ نر و مادے کا فیصلہ خدا کرتا ہے۔ اس میں عورت کا کوئی دخل نہیں۔ نہ اس میں عورت کا کوئی جرم ہے۔ وہ جیسے چاہیے لڑکا عطا کریں وہ جیسے چاہیے بیٹی نوازیں۔ خود قرآن کہتا ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرے۔جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں ملا دے اور جسے چاہے بانجھ کردے،بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔(شوریٰ۔49-50)
قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ اللہ جسے چاہے لڑکا دے اور جسے چاہے لڑکی۔ اب ہم ہمارے سماج کا جائزہ لیا جائے کہ سماج میں بیٹا بیٹی کے سلسلے میں کیا تصور ہے؟ جب کسی کے گھر میں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو گھر والے خوشیوں سے جھوم اُٹھتے ہیں،مٹھائیاں بانٹتے ہیں،نذرونیاز کرتے ہیں مگر جب اسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو پورے خاندان میں خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور سب کے ماتھے پر شکن پڑ جاتی ہے۔ کئی خاندان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس معاملے پر رشتے توڑتے ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اس سب کا قصور وار اپنی ہی بیوی کو گردانتا ہے۔ یہ در حقیقت جاہلانہ تصور ہے۔ یہ تصور سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تھا، جس کی عکاسی کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے۔ اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے، لو گوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس بشارت کی بُرائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا، ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں (نحل۔58 – 59)
ان مذکورہ بالا آیات کریمہ سے یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے، فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے مائوں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے۔ حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،’’جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اسکے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئےکہتے ہیں ’’ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ (معجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ: احمد، ص۰۳، الجزء الاول) بیٹیوں کی پرورش وپرداخت کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ احادیث نبویہ میں اس کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں ،ان میں چند آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو کتنا عزت و وقار عطا کیا ہے۔ محسن انسانیتؐ نے فرمایا’’جو شخص لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے یعنی اس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے، انہیں بوجھ نہ سمجھے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔‘‘(مشکوۃ شریف) تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آن پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاو کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے رُکاوٹ بن جائیں گی۔‘‘ (مسلم)
اللہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس کی تین بیٹیاں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے۔عرض کی گئی: اور دو ہوں تو؟ فرمایا: دو ہوں تب بھی۔ عرض کی گئی: اگر ایک ہو تو؟ فرمایا:’’اگر ایک ہو توبھی۔‘‘ (معجم الاوسط طبرانی) پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔‘‘ (مسند اِمام احمد)
اسلام نے عورت کو ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھاکر عزت وعظمت کے اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ جنت کو بھی اس کے قدموں میں لاکر سمودیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بیٹیاں خدا کی رحمت ہیں۔ بیٹیاں گھر کی زینت ہیں۔ بیٹیاں سماج کے لیے عزت ووقار کے عظیم نشان ہیں۔ بیٹیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق کا دم بھرنے والے اگر بیٹیوں سے نفرت کرتے ہیں تو سمجھ جائیں کہ وہ محبت نہیں بلکہ ڈھونگ ہے۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر حقیقی معنوں محبت ہو تو وہ ہرگز بیٹیوں سے نفرت نہیں کریگا ،نہ انہیں بوجھ گردانے گا۔بلکہ انہیں رحمت وبرکت سمجھ کر ان سے خوب پیار کریگا اور بیٹیوں کا باپ کہلانے میں فخر محسوس کریگا۔ سوئے قسمت سے آج جو سماج میں بیٹیوں کے بارے میں تصور پیدا ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شادی بیاہ کی مہنگائی اور سماجی ناسور جہیز ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ اگر شادی بیاہ کو آسان اور سستے کردیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ جاہلانہ تصور ختم ہو جائیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ شادی سے جڑے ہوئے ناجائز رسومات بھی ختم کردیئے جائیں اور سنت رسولؐ کے مطابق شادی بیاہ کئے جائیں تو کبھی کوئی باپ بیٹی کو بوجھ نہیں سمجھے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور بیٹیوں سے محبت و پیار کرنے اور انہیں اسلامی تعلیمات ونبوی ارشادات کے عین مطابق پرورش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[email protected]>