آج تک مسلم عوام نے کئی مر تبہ مطالبہ کیا کہ اوقاف اسلامیہ میں ایسے لوگوں کو ممبران بنایا جائے جنہیں ادارے کے بارے میں معلومات حاصل ہوں اور جو لوگ دفترمیں بیٹھ کر چائے نوشی کے علاوہ کچھ اور نہ جانتے ہوں،ایسے لوگوں کوچٹھااورچاٹا میں فرق کر نانہ آئے تو ایسے لوگوں کو ادارے کاممبر نہیںہوناچاہیے ۔ آپ جموں میں سرینگر، پونچھ ،راجوری، ڈوڈہ،بھدرواہ سے ممبرسفارشوں پر بناکراوقاف اسلامیہ کا بیڑاغرق کررہے ہیں۔ ویسے بھی حکمرانوں نے ہمیشہ اوقاف اسلامیہ جموں کوسیاسی دوکان بنا کے رکھا ۔ لوگ مانگ کر تے رہے ہیں کہ اوقاف اسلامیہ جموں کا پربندھک کمیٹی کی طرز پر بورڈبناکر الیکشن کرا ئے جائیں اورجوبھی نمائندے چن کر آئیں، وہ خودہی ادارے کا نظام چلائیں گے ، ضروری سدھارلائیں گے، لیکن بعض لوگ کبھی بھی ایسانہیں چاہیں گے، وہ اوقاف اسلامیہ جموں کااستعمال کرکے اسے اُبھرنے ہی نہ دیں گے۔یہ عناصر صوبہ جموں خاص طورپرجموں ، سانبہ ، کٹھوعہ، ریاسی، اودھم پور ، رام بن اوقاف میں بہتری نہیں چاہتے ۔یہی وجہ ہے کہ جموں ضلع 3؍ فیصدپرہی اوقاف اسلامیہ ہے،باقی نہ ہی کہیں ان کامقام ہے نہ کوئی دفتر۔ اس لئے ہرجگہ اوقاف اسلامیہ کی املاک پردیگرلوگ قابض ہیں، لوٹ کھسوٹ ہورہی ہے، قبرستان پر غیروں نے تعمیری کام سرعام جاری رکھے ہوئے ہیں، کروڑوں کی املاک، جائیدادیں زیارات،قبرستان آسانی سے ہتھیالئے گئے ہیں۔ چنانچہ جموں صوبہ میں اوقاف کی املاک رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں ۔ شہیدی چوک دفترکواوقاف کہناہی سب کچھ ٹھیک نہیں ۔ رہاڑی ، سروال قبرستان 128 کنال سے بھی زیادہ تھا، عدم توجہی کے سبب فوج اوردیگرلوگوں نے اسے ہتھیایاہواہے۔ کنجوانی چوک 370 کنال تھا،اب 50 کنال سے بھی کم ہے۔ آنے والے وقت میں مسلمانوں کودفنانے کیلئے قبرستان کیسے نصب ہوں گے؟ مضافات میں جموں کے دیہاتوں میں قبرستانوں پرجنگلات، جے ڈی اے،محکمہ مال قبضے کررہے ہیں، اندراج وغیرہ ختم کیاجارہاہے لیکن اس بابت کوئی دھیان کیسے ہوگی؟کون کرے گا ایسا؟ اوقاف اسلامیہ محکمہ مال کے عہدے داروں کی نظرمیں ایک آنکھ نہیں بھارہا۔باغ جوگیاں بستی بشناہ کی مثال سامنے ہے۔سرکاری عہدے دارخودقبرستانوں پردنگل کراتے ہیں، وہ اندراج کومانتے ہی نہیں ، لیکن اکیلاایڈمنسٹراوقاف یہ جنگ کیسے جیت پائے گا ؟ اس بارے میں Div.Com ، ڈی سی دفترمیں توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ چھنی ہمت جہاں1947 ء میں گوجروں، ڈھنگربلیداروں کی آبادی تھی اور یہ لوگ ہلاک کئے گئے ،اب ان کے قبرستانوں پرقابض دیگرلوگ قابض ہوگئے ہیں۔اگرکہیں چندکنال قبرستان رہ گیا ہے تو وہاں مسلمانوں کودفنانے ہی نہیں دیتے ہیں۔ڈھنگربہت بڑی قبرستان تھا،بائی پاس چھنی میں 57 کنال قبرستان پر فوج نے قبضہ کیاہواہے۔ نگروٹہ بائی پاس 66 کنال قبرستان فوج کے پاس ہے، جو تاریں بھی نہیں لگانے دیتی۔ کنجوانی ۔370 کنال تھی ،اب مشکل سے 50 کنال ہی بچی ہوئی ہے۔ لوکل لوگوں اورفوج نے قبضہ کیاہواہے۔ ستواری چوک میں بھی 99 کنال تھی، اب مشکل سے 10 کنال ہے۔ گول گجرال 120 کنال کے قریب تھی۔ 1947 میں تالاب تلو۔سب شیخوں وراہوں کی ملکیت تھی ،اب سکھ زبردستی قابض ہیں۔پونچھ ہائوس اورآگے چڑی ،یہ تمام ایریاء مسلمانوں کاتھا۔اس علاقے میں 150 قبرستان تھے لیکن محکمہ مال نے سب خردبرد کرڈالاگیاہے ، جموں میں محض 3 فیصد اوقاف اسلامیہ کی املاک ہیں، جس پرحکمران ٹولہ تمام دولت لوٹ کھسوٹ کرکے گھر لے جاتے ہیں۔جموں میں صرف شہیدی چوک اوقاف املاک کودفتر کہناکونسی حقیقت پسندی ا ورعقلمندی ہے؟گول مارکیٹ چوک میں 10 کنال اراضی گوجروں نے بچاکے رکھی ہوئی لیکن اوقاف اسلامیہ بجائے سمجھوتہ کے 40 سالوں سے دبابنائے ہوئے ہے ۔بٹھنڈی میں اگر گوجرمسجدکے ساتھ دوکانیں بناتے ہیں، اوقاف کاایک روپیہ بھی لگتاہے ؟ مسلمانوں کودباتا جائے گا توپھر اوقاف اسلامیہ کاساتھ کون دے گا؟ مسلمانوں پرہی سختی کرنابندنہیں کیاتواوقاف اسلامیہ ختم ہوکررہ جائے گا۔ شیخ محمدعبداللہ نے کسٹوڈین سے ادھارلے کر ریذیڈنسی رڈو وگاندھی نگر اوقاف مارکیٹ تعمیرنہ کی ہوتی تواوقاف محکمہ کب کاختم ہوگیاہوتا۔حج ہائوس میں مددنہ کی ہوتی تو یہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ محکمہ مال میں اوقاف کی اپروچ نہیں ہے، پولیس بھی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ میونسپلٹی والے پل پاراوقاف املاک پرہورڈنگ اشتہارلگنے نہیں دیتے۔ کنجوانی اوقاف املاک پر بھی بورڈ نہیں لگانے دیتے۔ شکتی نگر یادیگرمضافات امپھلا نگروٹہ میں بھی ایساہی ہوتاہے۔ شرپسند عناصراوقاف کے خلاف مسلمانوں پردبائو ڈالتے ہیں تو اوقاف کیسے چلے گا؟ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں۔ اوقاف کا وزیر کس لئے بنایاجاتاہے ، اسمبلی میں املاک ِاوقاف کے بارے میںیہ مدعے کیوں نہیں اٹھائے جاتے؟ جائیداد اوقاف کی اورمناپلی میونسپلٹی کی ۔۔۔ ایساکیوں؟۔ اگر یہی انصاف ہے توپھریہ تھوڑا سا اوقاف بھی میونسپلٹی کوہی سونپ کر اوقاف کوختم ہی کردیں۔ مسلمانوں کودفنانے کے لئے آگے قبرستان بھی نصیب نہ ہوں تو آپ کا کیا بگڑے؟ جے ڈی اے ۔ہائوسنگ والے لینڈایکوائر کرتے ہیں،چھنی ہمت ،چھنی راماں، ترکٹانگر ،کنجوانی ، سینک کالونی ،ستواری،رنگوڑہ۔،سدھرا ،نگروٹہ، پلوڑہ ، چنور،تالاب تلو، ریہاڑی،شکتی نگر، گول گجرال، وغیرہ قبرستانوں کوبھی انہیں چھوڑرہے ہیں۔ دوسال قبل مجہین سدھڑامیں ایساہی واقعہ ہواہے۔ کیا سرکاریہ نہیں کہہ سکتی کہ قبرستان پر قبضہ چھوڑیں۔ افسوس کامقام ہے کہ وزیر اوقاف اپنی کرسی بچانے کے چکرمیں خاموشی اختیار کیے ہوئے گونگے بہرے ہوجاتے ہیں جیسے جموں کسی بیرون ممالک میں واقع ہو۔ سابقہ سرکارکے وزیر اوقاف نے کے سی پلازہ کے سامنے پریمئرنٹ راج کی ہوٹل بلڈنگ محض 1600 روپے ؍سالانہ پردی ہوئی ہے ، جو کسی کانگریس وزیر کے پاس ہے، جب کہ اس پر سالانہ 50 لاکھ کرایہ آسکتاہے۔ 69 سالوں سے اوقاف کے وزیر جموں میں اوقاف کو دو دو ہاتھوں لوٹتے رہے ہیں ۔یہ ظلم و ستم چلتارہاتو اوقاف اسلامیہ جموں میں آئندہ تاریخ کی دھول میں دفن ہو کررہ جائے گا۔ کاغذوں میں اوقاف اسلامیہ مسلمانوں کیلئے ہے لیکن پریمئر کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعدادمیں املاک غیروں کے قبضے میں ہیںاوریہ سب کچھ اوقاف اسلامیہ کے کرتا دھرتاکرتے رہے ہیں۔
1947 سے قبل اکبراسلامیہ اسکول اہمیت کاحامل تھا لیکن مفت میں اب ہری سنگھ ہائی سکول کے نام سے چل رہاہے۔ عرصۂ درازسے اوقاف اسلامیہ کوکرایہ ہی ادانہیں کیاجارہاہے ۔ کیاہی اچھاہوتااگراوقاف اسلامیہ دوبارہ جہاں اکبر اسلامیہ اسکول ہی بحال کرے؟ نیزاس اراضی پرانجینئرنگ ومیڈیکل کالج چلایاجائے، لیکن سنجیدگی سے متوجہ کون ہو گا ؟ اُدھراوقاف وزیر کادمدادارفون بجتاہے ، ادھرایڈمنسٹراوقاف بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سمادھیاں میں آ پ کے پاس 4 کنال اراضی ہے ، اس پرکانگریسی سیاست دان کی لیزختم کریں اورجہاں کالج اوقاف بنایاجاتاہے ، کرایہ پربلڈنگ لینے کی کیاضرورت ہے؟ اوقاف اسلامیہ سیاست دانوں کی زرخریدلونڈی ہے لیکن اب اس اسکول میں بھی اوقاف اسلامیہ اپنے رشتہ داروں کودیگرضلعوں سے لاکر ملازمت میں رکھیں گے جیسے آج تک ہوتاآیاہے۔ سنتالیس میں حالات کی مار جموں، سانبہ، کٹھوعہ ، ریاسی، اودھم پور ، رام بن ، سندربنی، نوشہرہ میں پڑی، لہٰذااگرایمانداری کی بات کریں تو جموں کے ہی امیداواروں کوملازم لگاناچاہیے، وہ بھی خالص میرٹ پر۔چونکہ 1947 ء میں جن مسلمانوں کے حصے میں ساری تباہی آئی، آج تک کسی نے بھی ان کی کوئی مددنہیں کی ہے۔مشکل سے 20 سال سے مسلمانوں نے تعلیم کاسلسلہ شروع کیاہے،مفلسی وفاقہ کشی ، تنگ دستی کے دوران اگرہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں توآگے مشکلات کے دورسے گذرتے ہیں کیونکہ ان کی کوئی سفارش اور رسائی نہیں ہے ۔لہٰذاجموں کے طلباء کوہی جموں کے اس اسکول میں رکھاجانا لازمی ہے۔ ویسے بھی اسلام میںغریب وبے سہارا پچھڑے طبقہ کواوپراٹھانے کیلئے اس کی مدد کر نے کی تعلیم دی گئی ہے ، نہ کہ افسران اور بارسوخ لوگ اپنے رشتہ داروں کوباہرسے لاکر مصیبت زدہ جموں مسلمانوں کی حق تلفی کریں ۔
یہاںکے لوگوں نے ہمیشہ ہی مانگ کی ہے کہ اوقاف اسلامیہ جموں کی آمدن سے اسکول ، کالج، انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج چلائے تاکہ جموں کے مسلمانوں کے بچے ملت کے سرمائے سے تعلیم حاصل کرسکیں اور اچھی ملازمتیںپاکر خودکفیل بن سکیںاوران بیوہ عورتوں کوبھی ملازمت پر لگایاجائے تاکہ اَن پڑھ یاکم پڑھی لکھی بچیاں فورتھ کلاس ہی سہی اپناروزگارکماسکیں اور اس سے غربت زدہ، بے سہارا ،مصائب کے مارے طلباء وطالبات کوتعلیم حاصل کرنے میں بھی نمایاں کامیابی ہوسکے گی۔ نیزاوقاف اسلامیہ اپناحق ادا کرسکے گا۔ آگے اور چل کر اوقاف کے زیر انتظام ہسپتال بھی کھولاجایا چاہیے، جہاں غریب مسلمانوں کو بر وقت سستاعلاج میسرہوسکے۔لیکن یہ سب تبھی ممکن ہوسکے گاجب اوقاف کے اوپرسیاست دانوں ،مفادپرستانہ اثر ورسوخ رکھنے والے سفارشی ممبران سے چھٹکاراحاصل کیاجاسکے،اس ادارے کااستحصال بندکیاجائے، اجارہ داری ختم ہو، اورناجائز قبضہ جات چھڑائے جائیں ، اس کے لئے تمام مسلمانوں کو ہروقت کندھے سے کندھا ملاکر چلنا ہوگا اور حالات کا دلیرانہ مقابلہ کرنا ہوگا۔ فرض شناسی کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اور اوقاف اسلامیہ کو مسلم قوم کی پراپرٹی تسلیم کر ناہوگا۔ قاعدہ یہ بنایا جائے کہ ا وقاف کی کسی الاٹ منٹ کرتے وقت مستفدین سے حلف نامے پردستخط لیاجائے کہ ہم املاک اگرغیروں کوفروخت کریں توالاٹمنٹ ختم اورازسرنو جائداداوقاف ہی الاٹمنٹ کرسکتاہے ۔ اصول یہ بھی ہوناچاہئے کہ جموں کے غریب و مجبور پڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کے لئے ہر تعمیرمیں چنددوکانیں مخصوص رکھی جائیں،شرط یہ ہو کہ انہیں خود دکان باقاعدگی سے چلانی ہوگی ۔اگراوقاف اسلامیہ جموںان نکات کی جانب توجہ نہیں دے گی تو اس دارے کا تحفظ بھی ہوگا ، افادیت بھی بڑھے گی اورجموں کے مسلمان اپنے پائوں پراٹھ کھڑے ہونے کاموقعہ پائیں گے ۔
موبائل9906112871