سائرہ اُلفت
فہمیدہ Fahmeeda ایک چھوٹے سے گاؤں کی 17 سالہ لڑکی ہے ,جو ہر وقت خوف زدہ , سہمی ہوئی, مایوس لاچار اور بیمار سی بنی رہتی ہے- مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب ہم بھی اسکول میں پڑھتے تھے تو وہ ہم سے بہت چھوٹی تھی لیکن اس کا ذہن اس قدر تیز تھا کہ وہ ہمیشہ اوّل درجہ حاصل کر تی تھی- انتہائی ذہین کابل ایکسٹرا آرڈنری طالبعلم تھی- جب ہم seniors بیٹھا کرتے تھے تو ہم ضرور اس کو اپنی محفل میں شامل کرتے تھے- وہ تو اپنی کلاس کی طالبات سے بھی چھوٹی عمر کی تھی لیکن اس کا نقط نظر ،انداز بیان، عقل و شعور ،عزت و احترام سیرت و صورت ہم سب سے کئی درجہ اعلیٰ تھے- ہم سب کو یقین تھا کہ آنے والے وقت میں فہمیدہ کا بہت اثر ہوگا اور وہ ضرور اپنی لیڈرشپ کوالٹی سے معروف و مقبول ہوگی -ہر کسی استاد کی نظر اس پہ ٹکی تھی لیکن!
کس کو اندازہ تھا کہ یہ چمن کبھی ویران ہو گا اور اس میں پھول نہیں کانٹے اُگیں گے ۔وہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے، جب اسکول میں ہمارا آخری دن تھا اور ہماری رخصتی کی تقریب ہورہی تھی۔ اس وقت سٹیج پر فہمیدہ کے وہ ’’بول‘‘ ،جو بااثر تھے ، ہمیں ہمت دے رہے تھے اور ہمارے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کررہے تھے-لیکن فہمیدہ کو دیکھ کر میں بہت مایوس ہوئی جبکہ وہ 13 سال اور کچھ مہینوں کی تھی اور اس نے 10th کلاس پاس کیا اور 11th جماعت میں داخلہ لیا –
اس کے رویئے میں دن بہ دن ہوتی ہوئی تبدیلی ( behaviour changes)دیکھ کر اس کے گھر والوں نے یہ سمجھا کہ شاید نفسیاتی مریضہ ہے اور پھر اس کو نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔ڈاکٹر نے بھی یہ کہا کہ اس کو(ocd) کا عارضہ لاحق ہوا ہے جسکے لئے کچھ دوائیاں لینی ہیں اور ہر ہفتے کچھ پیسوں کے لئے مسلسل یہ دوائی (durgs )لینی پڑتی تھی !جس کی اُسے ضرورت نہ تھی کیونکہ اس بیماری کی کوئی علامت اس میں پائی نہیں گئی۔ شروعات میں جب فہمیدہ نے یہ دوائی کھانا شروع کی تھی۔ تو اس کے ساتھ کچھ عجیب چیزیں ہونے لگیں۔ پہلے اس کے دل میں بے قراری ہوتی تھی،پھر وہ پوری طرح سانس بھی نہیں لے سکتی تھی جس کی وجہ سے وہ بے دردی سے چیختی تھی اور پھر اپنی حالت پر روتی تھی اور وہ اس وقت اُسے اتنی گرمی محسوس ہوتی تھی کہ وہ اپنے کپڑے تک باہر نکال دیتی تھی۔
دوڑتی ہوئی اندھیرے میں جاتی تھی اور زور زور سے آنسو بہاتی تھی ۔ کچھ وقت کے بعد ہی اس کا جسم اتنا ٹھنڈا پڑتا تھا،جیسے وہ برف میں ہوتی تھی۔
میں اس کی چچازاد بہن بھی تھی اور جب اس کی یہ حالت ہوئی اس کے دوسرے دن بعد ہی ہم اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کے گئے اور سارا مسئلہ سامنے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب مخاطب ہو کر بولے ! کہ یہی اس کی اندر کی بیماری ہیں ,جو اس دوائی کی وجہ سے باہر آ رہی ہے، ڈاکٹر نے یہ مشورہ دیا کہ یہ دوائی تب تک اس کو دیتے رہئے جب تک کہ یہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہوتی ہے۔اس وجہ سے فہیمدہ کی تعلیم بھی رک گئی کیونکہ اس دوائی کااثر اتنا تیز تھا کہ وہ دن رات سویا کرتی تھی اور خاص کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتی تھی۔ اس دوران میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے دوسری سٹیٹ میں گئی اور تین سال کے بعد جب میں گھر آئی تو فہمیدہ کو وہ فہمیدہ نہ پایا ! وہ تن سے یہاں تھی لیکن من اسکا یہاں نہیں تھا۔وہ اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اس کی ہڈیاں تک نظر آتی تھیں۔ وہ اس قدر مایوس رہتی تھی جیسے وہ ایک زندہ لاش ہو ! فہمیدہ کے لئے جو خواب ہم نے بُنے تھے وہ سب چور چور ہو گئے, اور جو خود فہمیدہ نے خواب دیکھے ہوں گے وہ تو اس کو یاد بھی نہ تھے ۔اس کی یاداشت اس قدر کھو گئی تھی کہ وہ مجھے اس وقت پہچان نہ سکی۔چار سال سے وہ دوائی لے رہی ہے اور اگر اب اس کو وقت پر وہ دوائی نہ ملے تو جیسے وہ پاگل ہو جاتی ہے،میرے دل میں جو شک تھا، میں وہ یقین میں بدلنے کے لئے اس ڈاکٹر کے کلینک پہ مریض بن کر گئی اور میں نے صرف کچھ چند الفاظ ان سے کہے جیسے کہ’’ مجھے خیال زیادہ آتے ہیں‘‘ تو ڈاکٹر نے مجھے بھی نفسیاتی مریضہ کا رتبہ دے دیا،لیکن میں جانتی تھی کہ اس ڈاکٹر کی آزمائش میں یہ اپنے کاروبار کے مفاد کے لیے کتنا گر سکتا ہے۔ میں وہاں سے جانے لگی اور میری آنکھیں نم تھیں کہ میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا جو بالکل پاگل ہو چکی تھی۔میں نے اس کی بہن سے پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے! تو انہوں نے کہا کہ اس کو پندرہ سال ہوئے ہے دوائی لیتے ہوئے! لیکن دن بہ دن یہ اپنا ہوش کھوتی جا رہی ہے, اس کی طبیعت خراب ہوتی جارہی ہے۔
جب میں نے پوچھا کہ 15 سال پہلے یہ ایسی ہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں! جب یہاں آئیں تھی تب تو یہ اپنے ہوش میں تھی اور اس وقت میں سمجھ گئی کہ یہ صرف اپنا کاروبار کے لیے لوگوں کو نفسیاتی مریض بناتے ہیں۔ صرف کچھ پیسوں کے لیے اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں ,لیکن فہمیدہ کی حالت کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم بھی ہیں۔ ہم نے ایک غلط فہمی کی وجہ سے ایک ہنستی کھیلتی بچی کی زندگی تباہ کردی ,جو شاید دنیا کو بہت کچھ دے سکتی تھی۔
ہر ایک ماں باپ کے لیے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ بچے میں رویہ تبدیلی کی وجہ سے ایسی حرکت نہ کریں کہ فہمیدہ کی طرح اس کی زندگی تباہ ہو, مہربانی کرکے اپنے بچوں کو وقت دے ان کو سمجھنے کی کوشش کریں ان کا خیال کرے چھوٹی چھوٹی باتوں پر نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس نہ لے جائیں۔ پھر زندگی بھر یہ دوائی ڈرگس ان کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی،تاکہ آپ کو کل فہمیدہ کی فیملی کی طرح یہ دن دیکھنا نہ پڑے.
���
بڈر کوکرناگ،[email protected]