اِکز اقبال
کسی نے سچ کہا تھا:’’رشتہ اگر حساب مانگنے لگے تو سمجھ لو کہ وہ مر گیا ہے۔‘‘ہم سب شاید ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان سانس تو لے رہا ہے، مگر سانس لینا جینے کی دلیل نہیں رہا۔ ہم روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں — مگر ان موتوں کا کوئی جنازہ نہیں، کوئی قل نہیں، کوئی ماتم نہیں۔
سب سے پہلی موت تب آتی ہے جب دو بھائی ایک دیوار کے پیچھے الگ ہو جاتے ہیں، مکان کے بیچ میں اینٹیں چن لی جاتی ہیں اور دلوں کے بیچ وہ دراڑیں آ جاتی ہیں، جن کو کوئی پل نہیں پا سکتا۔ وہ جو ایک تھالی میں کھاتے تھے، اب ایک دوسرے کے برتن تک گن رہے ہیں۔ وہ جو ایک چادر میں بچپن گزارا کرتے تھے، اب وراثت کے کاغذوں پر دستخط نہ ہونے پر دشمن بنے بیٹھے ہیں۔یہ وہ ’’زندہ لاشیں‘‘ ہیں جن کے چہروں پر مسکراہٹیں بھی ہوتی ہیں، آنکھوں میں نمی بھی، لیکن دل و دماغ میں خالی پن — ،وہ خلا جو تب پیدا ہوتا ہے جب اپنوں سے پردے پڑنے لگیں۔
پہلے لوگ رشتہ رکھتے تھے، اب حساب رکھتے ہیں۔پہلے بھائی بھائی کے لئے قربان ہوتا تھا، اب بھائی بھائی سے کہتا ہ ہے،’’دس روپے کم کیوں دیے؟‘‘پہلے بچے ایک ساتھ کھیلتے تھے، اب والدین پہلے طے کرتے ہیں کہ بچوں کا کھیل کتنے مربع فٹ میں ہوگا۔یہ زوال ہے یا ترقی؟یہ شعور ہے یا انا؟یہ تہذیب ہے یا تباہی؟
ہمارے گھروں میں جو دیواریں اٹھتی جا رہی ہیں، وہ صرف اینٹ اور سیمنٹ کی نہیں ہیں، — وہ بے اعتمادی کی دیواریں ہیں، حرص و حسد کی دیواریں، خود غرضی اور مفاد پرستی کی دیواریں۔ یہ دیواریں مکان کو تو تقسیم کرتی ہی ہیں، لیکن اصل میں یہ دیواریں خاندان کو، محبت کو، خون کے رشتوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہیں۔یہ وہ وقت ہے جب بھائی کو بھائی پر یقین نہیں، باپ کو بیٹے پر اعتماد نہیں اور ماں اپنے جگر گوشے سے خوف زدہ ہے کہ کل کو کہیں وہی میری جگہ نہ بیچ دے۔ہم نے رشتے ختم نہیں کیے، ہم نے رشتوں کو کاروبار بنا دیا ہےاور کاروبار میں دل نہیں لگتا، وہاں صرف نفع و نقصان دیکھا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب باپ کا جوتا بیٹا چپ چاپ اپنے ہاتھ سے پالش کرتا تھا۔ اب بیٹا باپ کی زمین کے کاغذات میں دستخط تلاش کرتا ہے۔ایک وقت تھا جب بہن بھائی کے کمرے میں یوں گھس آتی تھی جیسے سانس میں ہوا۔ اب دروازے پر دستک بھی اجازت کی محتاج ہے۔ہماری روایات، ہمارا پیار، ہمارا اشتراک — سب ’’قانونی نوٹس‘‘ کے نیچے دب کر رہ گئے ہیںاور المیہ یہ ہے کہ ہم ان سب تبدیلیوں کو ترقی کا نام دیتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ’’خود مختاری‘‘ ضروری ہے، ’’اپنی جگہ‘‘ہونی چاہیے، ’’پرائیویسی ‘‘کا حق ہے۔
کیا یہ خودمختاری ہمیں خود سے بھی دور نہیں کر رہی؟کیا یہ پرائیویسی ہمیں تنہائی کی قبر میں نہیں اتار رہی؟
رشتے اب لفظوں کے محتاج ہو گئے ہیں — ’’محترم بھائی جان‘‘، ’’عزیز بہن‘‘، ’’پیارے ماموں‘‘ — یہ سب اب صرف دعوت ناموں میں نظر آتے ہیں، حقیقت میں نہیں۔جو چہرے کبھی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، اب فون کی کانٹیکٹ لسٹ میں بھی بلاک ہو چکے ہیں۔جو بازو کبھی سایہ ہوا کرتے تھے، اب وہی بازو گھر کے نقشے میں دیواریں کھینچ رہے ہیں۔یہ جو سانس چل رہی ہے، یہ تو بس رسمی سی ہچکی ہے۔اصل موت تو تب آ گئی تھی جب ہم نے رشتہ داری کو ’ڈیل‘ بنا دیا۔جب ہم نے ہر تعلق کو ’’کیا فائدہ ہے؟‘‘ کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا۔اور پھر ہم سمجھتے ہیں کہ موت صرف اس لمحے آتی ہے جب سانس رُک جائے —۔نہیں!موت تب آتی ہے جب بھائی بھائی سے کترانے لگے،موت تب آتی ہے جب ماں کی بات پر وکیل مشورہ دینے لگے،موت تب آتی ہے جب بہن کی شادی میں دل سے زیادہ حساب کتاب رکھا جائے،موت تب آتی ہے جب آنکھ میں آنسو نہ رہیں اور زبان پر صرف الزامات ہوں۔
رشتے نبھانے کے لیے ظرف چاہیے ہوتا ہے، برداشت چاہیے ہوتی ہے، اور سب سے بڑھ کر ایک ’’انسان‘‘ چاہیے ہوتا ہے۔ہم نے انسان رہنا چھوڑ دیا ہے۔
ہم صرف ’’عہدے‘‘ رہ گئے ہیں، ’’علاقے‘‘رہ گئے ہیں، ’’مالی حیثیت‘‘ رہ گئی ہے۔ہم جو کل کو اپنے بچوں کو بھائی چارے، محبت، ایثار، قربانی اور رواداری کا درس دینا چاہتے ہیں، وہ آج خود بھائی سے منہ موڑے کھڑے ہیں۔ہم کیا سکھائیں گے انہیں؟
’’بیٹا، چچا سے دور رہنا، وہ زمین کا کیس کر بیٹھے ہیں؟‘‘’’بیٹی، پھوپھی سے بات نہ کرنا، انہوں نے جہیز میں اعتراض کیا تھا؟‘‘کیا یہی وراثت دے رہے ہو تم اپنی نسل کو؟
جب آخری سانس آئے گی تو سب کچھ پیچھے رہ جائے گا۔ — زمین، مکان، زیور، فریج، اے سی، صوفے اور وہ تمام دیواریں جو تم نے پیار پر کھینچی تھیں۔لیکن وہ دعائیں جو تمہارے اپنوں کے دل سے نکلتی تھیں، — وہی تمہارا آخری زادِ راہ ہو سکتی تھیں، — وہ تم نے پہلے ہی کھو دیں۔تو اگر ابھی بھی تم زندہ ہو،تو جیو — مگر اس طرح کہ تمہاری سانس زندگی بن جائے۔رشتوں کو کاروبار نہ بناؤ۔محبت کو پیسوں میں نہ تولواور بھائی کو بھائی رہنے دو — وکیل نہ بناؤ۔یاد رکھو —!مکان بانٹنے سے وراثت ملتی ہے،لیکن دل بانٹنے سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔
آخری بات: ہم سانس کے رکنے کو موت سمجھتے ہیں، لیکن اصل موت تو وہ لمحہ ہے جب بھائی پر اعتبار ختم ہو جائے، جب رشتے رسید بن جائیں اور جب دلوں کے بیچ دیواریں اٹھنے لگیں۔اس سے پہلے کہ ہمارا وجود قانون کے کاغذوں، فٹوں کی پیمائش اور اَنّا کے پتھروں تلے دفن ہو جائے —۔
آئیے!کسی بھائی کو سینے سے لگا لیں،کسی رشتے کا بوجھ نہ تولیں،کسی محبت کو تقسیم نہ کریں۔کیونکہمحبت بانٹی جاتی ہے، ناپی نہیں جاتی۔رشتہ نبھایا جاتا ہے، گنا نہیں جاتااور زندگی جیتی جاتی ہے، خریدی نہیں جاتی۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورہ قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283