مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
موت کے قانون سے کوئی بھی ذی روح شے مستثنیٰ نہیں ہے ، اس عالم رنگ و بو میں جس نے بھی جنم لیا ، وقت مقررہ پر وہ سب چلے گئے ، اورسبھی کو جانا ہے ، لیکن ان جانے والوں میں کچھ ایسے بندگان خدا بھی ہوتے ہیں ، کہ زندگی جن کے نقش پا سے راستہ تلاش کرتی ہے ، مؤرخہ 22 جون 2019 ء حضرت مولانا محمد شریف صاحب نعمانی زندگی کی 73 بہاریں بزم عالم میں تابدار انداز میں بتا کر اس طرح اٹھ گئے کہ اہل علم و اہل تعلق کو ان کی اچانک رحلت کا یقین کرنا مشکل ہوگیا ، دم بھر میں یہ کیا ہوگیا بہرکیف جو ہونا تھا وہ ہوا ، مشیت ایزدی میں کسی کے لیے صبر و شکر کے سوا چارہ کار ہی کیا ہے ، مولانائے مرحوم کا شمار ریاست جموں و کشمیر کی قدیم دانش گاہ جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے قدیم محسنوں میں ہوتا تھا ، جس کا تذکرہ تحفہ سالہ میں بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی قاسمی کشمیری مدظلہ العالی ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس موقع پر ان حضرات کا ذکر نہ کیا جائے جو دل و جان سے جامعہ کے ابتدائی دور میں ساتھ رہے اور جس سے جس نوعیت اور جس قدر بھی تعاون و ہمدردی ہوسکی اس میں دریغ نہ کیا اس طویل فہرست میں سب سے پہلا نام حضرت مولانا محمد شریف صاحب نعمانی کا لکھا ہے ، آپ کے انتقال کے موقع پر تعزیتی پیغام میں مولانا سعید احمد صاحب حبیب نائب مہتمم جامعہ ہذا فرماتے ہیں ، کہ تیرا فراق حادثہ ہی نہیں سانحہ عظیم ہے مولانا محمد شریف صاحب نعمانی کا سانحہ وفات جامعہ ضیاء العلوم اور اراکین جامعہ کے لیے ایک ایسا درد ناک و المناک سانحہ ہے ، جو دیر تک ہمارے دل و دماغ کے گوشوں کو درد و کرب میں ڈبوئے رکھے گا ، جن کی باتیں اور یادیں ہمیں اشکبار کرتی رہیں گی ، وہ مرد ذہن کہ جس نے ,, ضیاء العلوم ،، کے مشکل حالات میں وہ وہ درد جھیلے اور مصائب دیکھے جو خود ایک تاریخ کا حصہ ہیں ،، یہ اور اس قسم کے دیگر تحریری شہ پارے تاریخ کے اوراق پر دھمکتے رہیں گے ، آج جامعہ ضیاء العلوم اپنی عمر کی ۵۴ ویں بہار کی دہلیز پر قدم رکھنے جا رہا تھا ، اور گزشتہ رات سے ہی قدیم و جدید تشنگان علوم کی جوق در جوق جامعہ میں آمد جاری تھی ، سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ یہ خبر کان کی سماعت سے گزرنی شروع ہوئی ، کہ حضرت مولانا محمد شریف صاحب نعمانی علیل ہیں ، چنانچہ صبح دس بجے جامع مسجد بگیالاں کے میناروں سے آپ کے انتقال کا اعلان کر دیا گیا ، جسے سنتے ہی ہر آنکھ اشکبار ہوگئی ، جامعہ میں مکمل سکوت طاری ہو گیا ، ہر ایک مغموم و حزیں ہوگیا ، مولانائے مرحوم جامعہ ہذا کے رکن شوری اور صاحب الرائے شخصیت تھے ، جامعہ کے قیام کے روز اول سے ہی جامعہ سے وابستہ ہوگئے تھے ، ہزار آندھیاں آئیں مگر یہ تعلق تا دم حیات قائم رہا ، مولانائے مرحوم میں بہت سی خوبیاں تھیں ، آپ بڑے خوش مذاق ، زندہ دل اور کشادہ نفس تھے ، تعصب کی آلاش سے پاک در آبدار ، ان کے احباب ان کے مزاج کی شگفتگی سے ہمیشہ ان کے گرویدہ رہے ، آپ دینی دانش گاہوں اور ان کے فضلا اور ان کے علمی آثار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، بلکہ ارباب علم و فضل سے خصوصی تعلق رکھتے تھے ، اہل علم ، مدارس اور خدام دین کی دل سے قدر کرتے تھے ، صاحب کمال کے کمال اور صاحب فضیلت کی فضیلت کے برملا اعتراف و فضیلت کے اظہار میں کبھی بخل سے کام نہ لیا ، چاہے وہ عمر میں چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں ، عاجز کو کئی ایسے علم دوست احباب نے بتایا کہ ہماری چھوٹی بڑی علمی کاوشوں کو ہمارے اساتذہ کرام سے بھی زیادہ نعمانی صاحب نے سراہا اور مجمع عام کے سامنے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی ، کاتب الحروف کے ساتھ بھی اس نوع کے متعدد واقعات پیش آئے ، چند سال قبل ایک بین الاقوامی مقابلہ سیرت نگاری میں حصہ لینے کی سعادت مقدر ہوگئی تھی ، جس میں ہمارا مقالہ بنام : داعی اسلام پیغمبرانقلاب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت سپہ سالار ،، مرحلہ انتخاب میں مہر ثریا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ، اپنی اس کاوش کو اضافے کے ساتھ کتابی صورت دینے کا کام چل رہا تھا ، کہ اسی دوران ایک روز نعمانی صاحب کے گھر دعوت میں جانے کا اتفاق ہو گیا ، مولانائے محترم نے مقالے کا مسودہ سرسری دیکھا اور بہت خوش ہوئے فرمایا کہ یہ نہایت ہی اہم کام قدرت نے آپ سے لیا ہے ، جس پر سب سے پہلے تو میری طرف سے دلی مبارک باد قبول فرمائیں ، اور فرمایا کہ اس کی طباعت میں ، میں بھی حصہ لوں گا ، ضرور انفارم کیجئے گا ، خیر جب کتاب چھپ کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی تو ایک نسخہ ان کی خدمت میں پیش کیا بہت خوش ہوئے ، اپنے حلقہ احباب میں متعدد نسخے تقسیم کروائے ، اور فرمایا کہ تالیف و تصنیف کا یہ مبارک کام چھوٹنے نہ پائے ، عموما آپ سے ملاقات جامعہ کی انجمنوں کے سالانہ انعامی پروگراموں میں ہو جایا کرتی تھی ، آپ سے ایک ملاقات جموں میں تب ہوئی تھی ، جب آپ کے بیٹے ارشد نعمانی صاحب کا KAS کا فائنل انٹرویو ہونے والا تھا ، وہ ضیاء العلوم میں میرے رفیق درس رہے تھے ، اس لئے نعمانی صاحب بڑی خوشی سے ملے ، اور بطور خاص اپنے بیٹے ارشد نعمانی صاحب کی کامیابی کے لئے دعا کے لیے فرمایا ، الحمدللہ ! وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے ، واپسی پر پھر ملاقات ہوئی اب کی بار تفصیلی ملاقات رہی کچھ عنایات بھی رہیں ، مولانا محمد شریف صاحب نعمانی کی ہر ملاقات میں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا کرتا تھا ، آپ کی گفتگو میں فکری استقلال تھا ، نعمانی صاحب کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ نوجوان فضلا کی بے پناہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے ، ان کو کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے ، نعمانی صاحب سے مل کر ہم جیسوں کو بھی یہ گمان ہونے لگتا تھا کہ ہم بھی کچھ کر رہے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن صاحب قاسمی کے بعد نعمانی صاحب کی رحلت سے سب سے زیادہ اس عاجز کا نقصان ہوا ہے ، حالات کا نشیب و فراز ہر انسان کے ساتھ رہتا ہی ہے یہ عاجز بھی حالات سے دوچار ہوا ، جس کا علم ان دونوں کو ہوا تو بڑی فکر لاحق ہوئی ، چنانچہ ان کی راہنمائی نے حالات کو ٹال دیا ، ان کے چلے جانے سے احسانات یاد آکر آنکھیں چھلک پڑیں ، حق تعالٰی اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے ایسی بہت سے ملاقاتیں اور ان کی کرم فرمائیاں میرے حافظے میں موجود ہیں ، جو اس وقت رہ رہ کر یاد آ رہی ہیں ، جنہیں اگر شمار کرنا چاہوں تو ایک دفتر تیار ہو جائے ، بہرحال آپ کے شناساؤں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ، یقینا وہ بھی آپ کی خوبیاں لکھیں گے ، یہ وقتی طور پر جو دو چار باتیں یاد آگئیں اور وہ زیب قرطاس ہوگئیں ہیں ، اہل مدارس اس حقیقت واقعہ سے بخوبی واقف ہیں ، کہ ماہ شوال المکرم اپنے جلو میں مصروفیات کا ایک ہنگام بلاخیز لیے وارد ہوتا ہے ، قلت وقت اور کثرت امور سر اٹھا کر دوسری طرف دیکھنے کی فرصت نہیں دیتے اسی وقت ہنگام میں آپ کا سانحہ ارتحال پیش آگیا ، اہم بات یہ کہ مولانا محمد شریف نعمانی علیہ الرحمہ کی خاص و عام میں مقبولیت کا راز یہ تھا کہ آپ کا مایہ امتیاز مثبت انداز تھا ، جس نے ہر موڑ پر آپ کو سرخ رو رکھنے کے ساتھ ہر طبقے میں تمغہ مقبولیت عطا کیا تھا ، اس سے ہم جیسوں کے لیے بڑا سبق یہ ہے کہ انسان کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مثبت سوچ اور تعمیری افکار و خیالات ہی انسان کے لئے کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں۔آخری بات : کاتب الحروف مولانا محمد شریف صاحب نعمانی علیہ الرحمہ کے اہل خاندان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے ، حق تعالٰی مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ، مقام قرب سے نوازے ، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور باقیات و صالحات کو صدقہ جاریہ بنا دے۔آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
E.mail [email protected]