جا ن عالم ترے انداز نے مارا مجھ کو
بن ترے اب تو نہیں زیستِ گوار مجھ کو
زلفیں جُھک جُھک کے یہ کہتی ہیں کسی کو پھانسوں
ابرو اس شوخ کے کرتے ہیں اشارہ مجھ کو
مطلع کیسا ہے اور شعر کس درجہ کا ہے ،ان سوالات کو تو تہہ کرکے رکھئے ۔پہلے یہ پوچھئے کہ کلام ہے کس کا ؟ہوگا لکھنوی رنگ کے کسی ادنی ٰدرجہ کے شاعر کا ۔جی نہیں،کلام ایک ’صاحب بہادر‘کا ہے ۔خاص الخاص یوروپین بھی کون؟آئی سی ایس صوبہ کے ایک کلکٹر ولیم ہوئی کا ،اور کمشنر بھی آج سے پچاس سال قبل کے ،جب ہندوستان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا ’صاحب‘بھی رعایا کی نظر میں ’’لاٹ صاحب‘‘ہی تھا ۔حیرت ،عجب درعجب ! تو کیا ’’صاحبا‘‘نے بھی کبھی ہم غریبوں کی زبان میں کچھ شعر کہے ہیں ؟جی ہاں کہے ہیں اور اسی رنگ ِطرز کے کہے ہیں ۔ ایک آدھا اور سُنئے:
کسی کی بات محبت میں ناگوار نہیں
کسی کی بات ہے ہرگز کچھ انتشار نہیں
مرے لئے تو محبت کٹھن ہے مشکل ہے
مجھے ملے وہ سمندر جو بے کنارنہیں
یہ دو شعر مسٹر آر پی ڈیوھرسٹ صاحب کے ہیں ۔ان ڈیوھرسٹ صاحب کے جاننے والے ابھی بہت سے اس صوبہ میں زندہ سلامت ہوں گے ۔انائو ،رائے ریلی ،وغیرہ میں کلکٹر اور گونڈہ بہرانچ میں سٹیشن جج تھے اور اسے کوئی بہت زمانہ نہیں ہوا ۔۱۹۲۰ ء میں تو پنشن پر گئے ہیں اور جاکر آکسفورڈ میں اردو زبان کے استاد بن گئے۔مبلغ علم کچھ یوں ہی سا تھا ،زعم و پندار کے مرض میںالبتہ مبتلا تھے۔وہ پھسپھے سے شعر اوپر درج ہوئے ۔ایک غزل اور بھی کہی ہے ۔اس کے اشعار اس سے زیادہ بے تکے ،لغو ،مہمل ،بعض مصرعوں کا وزن تک درست نہیں ۔ آکسفورڈ کے اردو طلبا خدا معلوم کیا کہہ کر اپنی قسمت کو روئے ہوں گے ۔
خیر تو یہ کلکٹری ،ججی والے لوگ تھے ،فن کی خامیاں ان میں جتنی بھی ملیں ،زیادہ کچھ حیرت انگیز نہیں ۔ایک صاحب خاص علم و زبان کے ماہر پروفیسر ایڈورڈ ڈپامر ہوئے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ عربی کے منتبی عالم تھے اور خود کیمبرج میں عربی زبان ہی کے استاد تھے۔قرآن مجید کا ترجمہ بھی انگریزی میں کیا ہے ،اردو کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اپنے زمانہ کے مشہور اردو روزنامہ ’’اودھ اخبار ‘‘(لکھنو) میں مضمون نگاری کی ،۱۸۸۲ء میں وفات پائی ۔ایک ہلکی سی جھلک ان کے کلام کی ملاخطہ ہو:
جاں لب پہ آن پہنچی دلدار گھر نہ آیا
ہم جاچکے جہاں سے پروہ ادھر نہ آیا
تب تک نہ باز آیا رونے سے دل ہمارا
آنسو کے ساتھ جب تک خون جگر نہ آیا
بے تابیوں سے عاشق لاکھوں مرے گلی میں
لیکن وہ جور پیشہ بیرون در نہ آیا
اس چشم خون فشاں سے کس دم لہو نہ برسا
سیلاب خون ہم دم کب تا کمر نہ آیا
پامر سا اک نصار ا تھا بے گناہ مارا
اے بت خدا کا تجھ کو ذرہ بھی در نہ آیا
فغاں اس در پہ ٹک تو اے دل انجور مت کیجو
بتوں کے شہر میں عاشق مجھے مشہور مت کیجو
قسم ہے تجھ کو اپنے دین وایماں کی تو اے محرم
ہماری ان کی صحبت کا بھی مذکور مت کیجو
ہزاروں آئینے تو توڑنا پتھر سے ،اے ظالم
پر اک سنگ جفا سے شیشہ ٔ دل چور مت کیجو
متروک لفظوںاور ترکیبوں سے اور پہلی غزل کے غلط اور غلط مقطع سے اگر قطع نظر کرلی جائے تو یہ نمونہ کلام کا کچھ ایسا برا نہیں ،خاص کر یہ آخری شعر (ہزاروں آئینے والا) تو خالص ہندوستانی سانچے میں ڈھلا یا معلوم ہورہا ہے ۔
بعض صاحب لوگوں نے ہندوستان کو اپنا وطن ہی بنالیا تھا ۔ انہوں نے جو شعر کہے ہیں ،ولایتی بن کر نہیں ،قدرتاً اور بے ساختہ ہندیوں کے ہم زبان ہوکر کہے ہیں اور بعض ان میں کے غزل دو غزل کہہ کر ،انگلی میں لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوجانے والے نہیں بلکہ مستقل باقاعدہ صاحب دیوان ،کلیات شاعر ہوئے ہیں اور بعض کے دیوان بھی ایک ایک سے زاید ہیں۔ان کے کلام کو پڑھئے تو سراسر نظر آئے کہ سامنے مصحفی یا اسیر ،ناسخ یا آتش ،داغ یا امیر کے کسی شاگرد رشید کی بیاض کھلی ہوئی ہے اور کسی کسی نے تو یہ کمال کیا ہے کہ تلمیحیں بھی سر بسر مسلمان شعر انہ مدار کے ہاں سے لے لی ہیں۔وہی حمد ،وہی نعت،وہی منقبت،وہی مناجاتیں،غرض شاعر کا مذہب جو کچھ بھی ہو ،شاعری تو ہو بہو مسلمانوں ہی کی تہذیب و معاشرت (کلچر) کی کلمہ گو!
دس بیس شعر اس رنگ کے ملاخطہ میں لے آئے ۔۔۔اناج کے ڈھیر سے آخر بانگی ہی کے کچھ دانوں سے اندازہ کل کا کرلیا جاتا ہے :
مراد یواں سے مشرق آفتاب حمد یزداں کا
طلوع صبح معنی ہے ہر اک مصراع دیواں کا
۔۔۔۔۔۔۔
غیر سے فیصلہ طلب ہے وہ
ہم سے کوئی معاملہ نہ ہوا
دل کو میں خاک میں ملا دیتا
ہائے افسوس ،دوسرا نہ ہوا
حسرتیں کیسی کیسی ہیں ،اے دل
حیف بندو ہوا ،خدا نہ ہوا
۔۔۔۔۔۔
پہچان لیں گے ہم تو نہیں چال ڈھال سے
ناحق ہی تم نے شکل چھپائی نقاب میں
روئے سپید کو وہ کریں گے سیاہ پھر
لو آج شیخ بیٹھے ہیں قصد خضاب میں
پارہ کریں سب اپنے گنہ کے تمسکات
ہووے گا حشر ختم مرے ہی حساب میں
یہ سلیمان شکوہ گارڈ ر ’فنا‘تھے ۔اب ذرا مضطر الہ آبادی کی بھی کچھ سن لیجئے اور یہ ہی سے سن رکھیے کہ نام نامی بجمن ڈیوڈماٹ روز ہے ۔یہ مضطر ’صرف شاعری ہی کی دنیا میں ہے:
بستے ہیں اس میں غم و درد و الم
دل کی بستی بھی عظیم آباد ہے
فرق ہے ،مضطر ،امیر و داغ ہے
ایک شاعر ہے تو اک استاد ہے
ایک غزل میں مسلسل ایک ہی مصرعہ پر بیش مصرعہ لگاتے چلے گئے ہیں۔
دل کو تسلی مگر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرنے جینے کی ،اے شب فرقت
کوئی صورت نظر نہیں آتی
زاہدو کیا دھرا ہے کعبہ میں
کوئی صورت نظر نہیں آتی
تیری سی مہ لقاء حسینوں میں
کوئی صورت نظر نہیں آتی
یہ تو چار ہی شعر نقل ہوئے ،اصل دیوان میں گیارہ سے کم نہیں ہیں ۔صاحب لوگوں کی کوئی بزم میم صاحب کے وجود سے خالی نہیں ہوتی ۔پھر بزم سخن میں یہ کیوں نہ ہوتیں۔ایک مس صاحبہ کی جھلک اسی دریچہ سے دیکھتے چلئے۔اصل نام ایکن کرسچانہ گارڈ ہے ۔شاعری کی دنیا میں ’رقیہ بیگم‘کے برقع میں تشریف لاتی ہیں اور شاید اسی برقع کی لاج ہے کیا کیا ،کہ کلام میں رندی و شوخی کی جگہ بڑی متانت و ثقافت ہے ،معلوم ہوتا ہے کسی صوفی ،صاحب معرفت سے’ دست بیع‘ہوچکی ہیں۔:
خودی نے مجھ پہ کیا ہے ستم ،خدا کی قسم
جو بے خودی ہے تو پھر کس کا غم خدا کی قسم
یہ غیب غیب ہے کہتے ہیں لوگ جس کو شہود
شہود ہی ہے عدم کا عدم ،خدا کی قسم
جو ہونے کا ہے نہ ہونا ،وہی تو ہے عقبیٰ
نہ ہونے کا ہے نہ ہوتا عدم خدا کی قسم
مزے جو دل نے دکھائے وہ دل ہی جانتا ہے
نہیں ہے دل پہ مگر جام جم ،خدا کی قسم
انگریزی کی’ ہسٹری آف اردو لٹریچر ‘اور اس کے اردو ترجمہ ’’تاریخ ادب اردو‘‘سے آج پڑھے لکھوں میں کون جو واقف ہے؟اسی کی زندہ دل ،جواں قلم منصف روئے بہادر رام بابو سکسینہ صاحب (جو اب ڈاکٹر آف لٹریچر بھی ہیں)پر ایک نئی ترنگِ سوار ہوئی ۔اردو میں جتنے فرنگیوں نے بھی اور کہیں کچھ کہا سنا تھا ،ان سب کا کلام جمع کرنے بیٹھنے اور خدا جانے کہاں کہاں سے ریزے اور دانے چُن چُن کر ایک پورا خرمن اور انبار لگا دیا ۔جو بندہ یا بندہ اسی کو کہتے ہیں ۔کہنے کو پہلے ڈپٹی کلکٹر تھے اور اب کلکٹر ہیں لیکن دھن کے پکے اور شوق کے سچے۔دفتر کے مسئلوں اور کچہیری کے فائلوں کے ہجوم میں تو وہ شاعری کے ’’دیوان خانوں‘‘کی بھی لیتے رہے۔کیا جانے کتنے کلیات اور تذکرے ،کتنی بیاضیں اور نوٹ بکیں چھان ڈالیںاور انجام کا ر ایک لمبی چوڑی ،موٹی تازہ کتاب صد ہا صفحوں کی ضخامت کی تیار کردی۔کوئی سوا تین سو صفحے تو انگریزی ہی اصل کتاب کے ہیں اور کوئی چار سو سے اوپر منتخب کلام کے مجموعہ کے ۔۔۔اوپر آپ کے سامنے جو حقیر سا گلدستہ کلیوں اور پھولوں کا ،بعض خوشبو دار اور بعض صرف خوش رنگ پھولوں کا پیش ہوا ،وہ سب اسی چمن سے تیار کیا ہوا ہے ۔یہ تو نہیں کہ ڈاکٹر رام بابو اس میدان کے سب سے پہلے شہسوار ہیں،نہیں اور لوگ بھی کچھ نہ کچھ اپنی بساط کے لائق اس موضوع پر لکھ چکے ہیں لیکن اتنی داد تحقیق دینا انہی کا کام تھا ۔دوسرے آئے اور ایک تفریحی نظر کرتے چلے گئے ۔اتنی گہرائیوں میں اترنا اور اتنی شرح و بسط اور جامعیت کے ساتھ سارے موضوع کو اپنی گرفت میں لے آنا ،یہ بس انہی کا حصہ تھا ۔۔۔۔سیکسینہ صاحب کے نام اور مذہب سے مسلمان ناظرین حیرت میں نہ پڑیں ،اردو شاعروں کا مفصل ترین اور جامع ترین تذکرہ و خم خانہ جاوید آخر کس کے قلم کے شرمندہ احسان ہے ؟کشمیری پنڈت اور کا یستھ ،یہ دو ہندو برادریاں اردو زبان و ادب کی خدمت میں کب اور کس دور میں کسی سے پیچھے رہی ہیں؟
تذکرہ محفل فرنگیوں(بصیغہ مذکور)تک محدود نہیں ۔یہ بحث میں فرنگنین(بصیغہ مئونث)بھی آتی گئی ہیںاور خود لفظ فرنگی کا اطلاق بہت ہی وسیع ہے ۔آرمینیا ،برطانیہ اور دوسرے خاص یوروپی ملکوں کے شاعر تو خیر اس میں شامل ہی ہیں باقی ہندوستان میں پلے اور بڑھے ہیں یا ہندوستانیوںسے میل کھاتے ہوئے بیسیوں شاعر ،جرمنی ،فرانس ،برطانیہ ،اٹلی،پرتگال وغیرہ کے بھی ہوئے ہیں ۔ان سب کو اس حلقہ میں جگہ مل گئی ہے۔کتاب اصلاًاردو شاعری پر ہے لیکن اردو فارسی میں بیگانگی کیسی ،چولی دامن کا ساتھ ہے ۔سیکسینہ صاحب بھی اس رشتہ کو بھولے نہیں ہیں ۔اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری کی بھی پیوندکاری کرتے چلے گئے ہیں۔اس حسن صنعت کے ساتھ کہ طبیعت پر بار نہیں پڑتا ۔کچھ تنوع کی شگفتگی ہی سی پیدا ہوجاتی ہے۔
مصنف صاحب نرے ناقل یا جامع نہیںکہ پڑھا تو بہت سا ہو اور سوچا کچھ بھی نہ ہو۔وہ آنکھ کے ساتھ دماغ بھی رکھتے ہیں۔کلام کو چن لیتے اور جمع کردینے ہی کا سلیقہ نہیں رکھتے موقع محل دیکھ کرجچی تُلی رائے بھی پیش کرتے جاتے ہیں۔انگریز ی خواں اور انگریزی نویس ہندوستانیوں کی زبان جس جس طرح سے پکڑی گئی اور ’بابو انگلش ‘پر جو تمسخیر کے قہقہے اور حقارت کے ٹھٹھے لگائے گئے ان کی گونج شاید آج بھی مردہ نہیں لیکن وہ مشرقہ شرافت سے کام لینا بھی خوب جانتے ہیں اور پتھر کے مقابلے میں پتھر نہیں چلاتے ۔’صاحب ‘کی زبان و محاورہ کی نشست الفاظ کی فاحش اور مضحکہ خیز غلطیاں دیکھتے ہیں اور زیر لب مسکراکر ہلکا سا اشارہ کرکے گذر جاتے ہیں لیکن اتنا بھی بس کہیں کہیں ہے ورنہ عام طور پر تو وہ برابر ان کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی ہی کرتے جاتے ہیں ۔شاعری اور شاعروں کی کتاب میں داد بھی اگر شاعرانہ مبالغانہ کی حد تک پہنچا دی جائے تو یہ تو عین آداب مشاعرہ کی پابندی ہوئی!
کتاب میں جابجا تصویریںہیں شاعروں کی ،خود مصنف کی اور دیباچہ نویس سرتیج بہادر سپروو کی ۔ جا بجا شجرے اور نسب نامے ہیں،شاعروں کے اور ان کے خاندانوں کے۔فہرست مضامین ہے،کئی کئی ضمیمے ہیںاور ایک حصہ انگریزی کے آخر میں مفصل انڈیکس ہے ۔چھپائی ،کاغذ،جلد بندی سب ہندوستان کی چھپی ہوئی کتابوں کے معیار سے بہت غنیمت ہے ۔غرض ادبی ،علمی لطافتوں کے ساتھ ظاہری خوبیوں کا بھی یہ ایک پُر بہار مجموعہ ہے۔قیمت دس روپے ،لے دے کر زیادہ ہی کہی جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔گراں کاغذ اور چھپائی کی موجودہ شرح کے لحاظ سے نہیں۔بلکہ گراں صرف اس اعتبار سے کہ اس قیمت کے ساتھ کتاب عوام کے ہاتھوں تک نہ پہنچ سکے گی ،نہ پہنچے ۔ادبی ،علمی،تاریخی تنقیدیں عوام کے کام کی ہوئی ہی کب ہیں۔کتاب خواص کے لئے ہیںاور ان کے لئے قیمت گراں نہیں۔