طویل تاریخ میں ہمیں امریکا کی سیاست اور حکومت کی ایک ایسی بدترین مثال نظر آتی ہے کہ جو زبان سے تو انسانیت اور انسانی حقوق کا واویلا کرتی ہے لیکن عملی طور پر امریکی سیاست و حکومت دنیا کی اقوام کےلیے نہ صرف ایک بدی اور برائی کے طور پر ثابت ہوئی ہے بلکہ اقوام عالم کی بدترین دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔امریکی سیاست کا ہمیشہ سے وتیرہ یہی رہا ہے کہ امریکی مفادات کا (یعنی امریکا کے چند ایک سیاستدان جو بذات خود اب صہیونیوں کے زیر اثر ہیں، ان کے مفادات کا) تحفظ یقینی بنانے کےلیے دنیا کے کسی بھی گوشے میں کتنا ہی قتل عام کیوں نہ کرنا ہو، کرتے رہو چاہے نت نئے دہشت گرد گروہ ہی کیوں نہ بنانے پڑیں، چاہے اسرائیل جیسی خونخوار جعلی ریاست کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دے کر نہتے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے مشرق وسطیٰ میں امریکی اسلحے کی کھیپ کی کھیپ موروثی حکمرانوں کو پہنچا کر نہتے عوام کا قتل عام اور ان پر زندگی تنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے اہل کشمیر کے خون کا کاروبار کر نا پڑے ،چاہے عراق و افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا جنازہ اٹھوانا پڑے، واشنگٹن کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی لئے تاریخ کی اشک بار آنکھوں نے دیکھا کہ اس نے ویت نام میں انسانیت کی دھجیاں اڑایں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے ، افغانستان اور عراق کی انیٹ سے اینٹ بجائی، دنیا کے کئی دیگر ممالک بالخصوص پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے اور کبھی ازخود دہشت گرد گروہوں کا قیام عمل میں لا کر ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے ہزاروں پاکستانیوں کو موت کی نیند سلادیا، فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دی ، لسانیت کے نام پر تعصب اور منافرت کی آندھیاں برپا کیں۔نامی گرامی دہشت گرد تنظیموں کی وقتاًفوقتاً حمایت کی ،انہیں اسلحہ پہنچانا، انہیں ہدف دئے، اپنے حریف ملکوںپر معاشی شکنجہ لگائے، خاص کر ایران و ترکی جیسے ممالک حالیہ دنوں امریکا کی معاشی دہشت گردی کےشکار ہیں، اپنے مفادات کے صنم خانے کی پوچا میںامریکا یہ سب کرتا چلاآیا ہے۔ اس عنوان سے امریکا کی ایک سو سالہ تاریخ دہشت گردی کے سیاہ ترین ابواب سے تاریک تر ہوچکی ہے۔
فی زماننا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی سیاست کا دارومدار صرف اور صرف غاصب صہیونیوں کے تحفظ کی خاطر دنیا کے امن کو داؤ پر لگانے میں ہے۔ یہ وہ غاصب صہیونی ہیں جنہوں نے پہلے امریکا و برطانیہ کی مدد سے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا اور ایک جعلی خون خوار ریاست اسرائیل کو وجود میں لائے اور پھر فلسطینیوں کا ستر برس سے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے ہیں۔ اسی طرح پوری دنیا میں ان صہیونیوں کے مفادات کی خاطر انسانیت کے ساتھ عجب مذاق کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں عرب وعجم تک مظلوم انسان اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیے جارہے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید قتل عام جاری رہے گا؟رواں ماہ امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ دراصل اقوام متحدہ کے کردار پر بھی ایک تفصیلی بحث کی جاسکتی ہے کہ آج تک اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام کیوں رہا ہے؟ مزید یہ کہ اس ناکامی کے ساتھ ساتھ عالمی دہشت گرد حکومتوں اور قاتلوں کو بھی اس ادارے کی خاموش حمایت کیوں حاصل رہی ہے؟ اقوام متحدہ کے رواں اجلاس میں دنیا کے متعدد ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں سمیت وزرائے خارجہ نے خطاب کیا اور اگر ان سب کے خطابات کا خلاصہ کیا جائے تو افریقہ و یورپ سمیت ایشیا و آسٹریلیا اور لاطینی امریکی ممالک تک، تمام کی تمام اقوام امریکی ظلم و ستم کو براہ راست یا بالواسطہ بیان کرتی رہی ہیں۔چین کی بات کریں تو بیجنگ نے بھی امریکی شیطانی سیاست پر سخت اعتراض کیا۔ افغانستان، عراق اور شام تو پہلے ہی امریکہ اوراس کے حلیفوں کی ناپاک سازشوں کے زیریلے اثرات بھگت رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی نے بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایران نے بھی امریکا کو دوٹوک الفاظ میں اس کی شیطانی سیاست پر آئینہ دکھایا، ترکی نے بھی کھری کھری سنا دی۔ اسی طرح لاطینی امریکا کے ایک چھوٹے سے ملک بولیویا نے بھی امریکی سازشوں اور دہشت گردانہ سیاست کو مسترد کیا۔ وینزویلا، شمالی کوریا، روس، پاکستان سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں نے امریکا کی غلط اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں امریکی سیاست و حکومت کے سیاہ کارناموں پر جس طرح سے دنیا بھر کی اقوام کے نمائندوں نے اظہار خیال کیا ہے، وہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ امریکا اور اس کی سیاست، اقوامِ عالم کی بدترین دشمن ہیں۔ سو سالہ تاریخ میں امریکا کے ہاتھوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہوں کا خون ہے۔خلاصۂ بحث یہ کہ امریکا کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنی قدر کھوچکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں امریکی حکومت کی ایسی ناپاک پالیسیوں کی، جن کے تحت امریکہ ہر دہشت گردی کے اقدام کی کھلم کھلا یا درپردہ معاونت کرتا ہے، سخت مخالف کررہے ہیں۔ مثلاً فلسطین، یمن، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا، پاکستان، برما و دیگر ممالک میں، جہاں جہاں مسلم کش دہشت گردی جاری ہے، یہ سب امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے مرہون منت ہیں۔حد تو یہ ہے کہ اب امریکی حکومت کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر کی انتھک کوششوں کے باوجود ایران کے خلاف کسی بھی ایک ملک نے ووٹ نہیں دیا اور امریکی صدر کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جو بجائے خود امریکی سیاست اور حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مداخلت کے باعث آج ہر ذی شعور یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ امریکا دنیا کی واحد حکومت ہے جو دنیا بھر کی اقوام کی بدترین دشمن ہے۔
����