عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی// وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بدھ کے روز آٹھویں ہندوستان جاپان انڈو پیسفک فورم سے خطاب کیا اور ہندوستان و جاپان کے درمیان گہری ہوتی شراکت داری کو اجاگر کیا۔جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان اور جاپان کے درمیان شراکت داری انڈو پیسفک خطے میں اسٹریٹجک استحکام کو فروغ دینے اور عالمی اقتصادی ترقی میں تعاون فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’دو بڑی جمہوریتوں اور بحری ممالک کے طور پر ہندوستان اور جاپان کی انڈو پیسفک کے تئیں بڑی ذمہ داری ہے۔ انڈو پیسفک اوشینز انیشی ایٹو جس میں جاپان میری ٹائم ٹریڈ، ٹرانسپورٹ اور کنیکٹیویٹی کے ستون کی قیادت کرتا ہے، ہمارے تعاون کو مزید آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہماری شراکت داری بہت زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور آج اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ شراکت داری انڈو پیسفک میں اسٹریٹجک استحکام بڑھانے اور عالمی سطح پر معیشت میں تعاون دینے کا باعث ہے۔ آزاد اور کھلے انڈو پیسفک کو برقرار رکھنا اب پہلے سے زیادہ ضروری مگر پیچیدہ چیلنج ہے۔‘‘جے شنکر نے ہندوستان اور جاپان کے تعلقات کی ترقی کی کئی مثالیں پیش کیں جن میں نیکسٹ جنریشن موبیلٹی پارٹنرشپ، اکنامک سیکیورٹی انیشی ایٹو، جوائنٹ کریڈٹنگ میکنزم، کلین ہائیڈروجن و امونیا پر مشترکہ اعلامیہ اور معدنی وسائل کے میدان میں مفاہمتی یادداشت شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے دو طرفہ تعلقات عالمی منظرنامے کی تبدیلی کے مطابق ہیں اور مختلف شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم تاکائچی کے درمیان ان کے عہدہ سنبھالتے ہی ہونے والی بات چیت اس تعلق کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگست میں وزیر اعظم مودی کا جاپان کا دورہ آئندہ دہائی کے لیے مشترکہ وژن طے کرنے میں اہم رہا۔ اس میں آٹھ ترجیحی ستون اور اگلے دس سال میں 10 ٹریلین ین کی سرمایہ کاری کا ہدف ہمارے عزائم کا پیمانہ ہے۔ سیکیورٹی تعاون پر مشترکہ اعلامیہ نے دفاعی و سلامتی کے میدان میں ہماری امیدوں کو نئی بلندی دی ہے۔‘‘جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان اور جاپان کی شراکت داری اعتماد پر مبنی ہے اور پچھلی دہائی میں مزید مضبوط ہوئی ہے۔ دونوں ممالک انڈو پیسفک خطے میں استحکام، اقتصادی تعاون اور پائیدار ترقی کے لیے پرعزم ہیں۔جے شنکر نے تعاون کے اہم شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں ہندوستان جاپان شراکت داری کو مصنوعی ذہانت، سیمی کنڈکٹرز، اہم معدنیات، صاف توانائی اور خلائی تحقیق کے شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔