سرینگر // وادی میں مسلسل 10دن تک انٹرنیٹ پر پابندی عائید کئے نتیجے میں ہزاروں نوجوان جو اس شعوبہ کے ساتھ منسلک ہیںان کا کاروباری اورپیشہ وارانہ سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوگئیں ہیں۔ بلکہ ڈاکٹر عالمی سطح پر نئی تحقیق اورپروفیسر نئی جانکاری لینے اور سینکڑوں طلاب آن لائن فارم بھرنے اور مختلف محکمہ جات کی جانب سے فراہم کی گئی نوٹیفکیشنوں سے متعلق آگاہی حاصل کرنے سے بھی محروم ہیں یہی نہیں بلکہ شہر میں بیشتر میڈیا ، کارپوریٹ اور سرکاری دفاتربھی انٹرنیٹ پر پابندی کے نتیجے میں سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔معلوم رہے کہ وادی کشمیر میں کاروبار، رابطے، اشتہارات، بینکاری، معلومات یا پھرمختلف اشیاء کا فروغ تمام معاملات میں انٹرنیٹ کا استعمال کیا جارہا ہے لوگ روزانہ لاکھوں روپے کا کاروبار انٹرنیٹ کی بدولت کر رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے تمام معروف سماجی ویب سائٹوں بشمول فیس بک، وٹس اپ، ٹویٹر اور یوٹیوب پر 1ماہ کی مدت کیلئے پابندی لگائے جانے سے یہ لوگ بیروز گار ہو چکے ہیں ۔مقامی مبصرین کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں اس وقت قریب ہزاروں نوجوان انٹر نیٹ کے ساتھ جڑ کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں ایسے نوجوانوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جن کے پاس براڈ بینڈ انٹر نیٹ سہولیات نہیں اور انہوں نے ہزاروں روپے خرچ کر کے 3جی اور 4جی کے ڈونگل نجی کمپنی ائرٹیل ، جیو ، اور واحد سرکاری کمپنی بی ایس این ایل سے حاصل کئے ہیں ۔ان نوجوانوں کا کاروبار انٹر نیٹ کے ساتھ ہی منسلک ہے ۔اسی طرح آن لائن ہوائی یا پھر ریل ٹکٹ نکالنے کا کئی ایک جگہوں پر کام بھی ہوتا تھا تاہم پچھلے 9روز سے یہ کام بھی بند پڑا ہے ۔ تنور احمد نامی ایک ٹیور اینڈ ٹراول ایجنسی کے مالک کا کہنا ہے کہ اُس کا کام انٹر نیٹ پر ہی منحصر ہوتا ہے لیکن جب انتظامیہ انٹرنیٹ پر قدغن لگاتی ہے تو نہ صرف مالی لحاظ سے ہمارا نقصان ہوا بلکہ ہماری ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے ۔ سروس بند ہونے سے نہ صرف اس سے جڑے لوگ پریشان ہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بیماریوں کے حوالے سے عالمی سطح پر نئے تحقیق کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے سے محروم ہیں جبکہ اساتذہ اور پروفیسر صاحبان بھی نیٹ کے بند ہونے سے نئی کسی چیز کا مطالہ نہیں کر پاتے ہیں۔معلوم رہے کہ انٹر نیٹ پر سرکاری پابندی عا ئید ہونے سے ہزاروں نوجوان جو وادی میں رہ کر ملک کی دیگر ریاستوں اور بیرون ممالک کی کمپنیوں کیساتھ کام کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں لیکن انٹرنیٹ پر پابندی کے بعد ان میں سے بیشتر نوجوان اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔