عذابوں کی اس بستی میں صبح کیا ہوگا اور شام کو کیا، اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرے خاندان کے ساتھ ہوا۔عبداللہ کی خیالی دنیا نے اُس کو ایسا جھٹکا دیا کہ جس اخبار سے وہ خبریں پڑھ رہا تھا وہ اک دم اُس کے ہاتھ سے پھسل کر نیچھے گر گیا۔ وہ پسینے سے آب آب ماتھا صاف کرنے والا ہی تھا کہ وارڈ سے نرس نکلی اورعبداللہ کو کاغذکی پرچی تھما کر کہا کہ مریض کے لئے یہ دوائیاں خرید کر لائیے۔ عبداللہ نے کاغذ کی پرچی ہاتھ میں لے کر پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنے پرانے اسکوٹر کی چابی نکالی اور وارڈ کے اندر جاکر پہلے اپنے بیٹے احمد کی خبر لی ۔احمد کچھ دن پہلے ایک حادثے کا شکار ہوا تھا ۔
عبداللہ جب احمد کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا تو اُس نے احمد کے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ۔میرا پیارا بیٹا ٹھیک ہے نا ،اچھا سنو میں باہر جارہا ہوں تمہارے لئے دوائیاں لانے ،اگر روز کی طرح اسپتال کے باہر نہیں ملیں تو میں بازار جاوں گا،تب تک تم آرام کرو اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی امی کو آواز دینا۔عبداللہ دروازے سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ احمد نے دھیمی آواز میں کہا ابامیں اسپتال میں لیٹے لیٹے تنگ آگیا ہوں ،اسلئے بازار سے کوئی اسلامی ناول لانا۔احمد ہونہار لڑکا تھا۔کتابیں خاص کر، تاریخ اور ناول، پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا اورعبداللہ مہنے کی آخری تاریخ کے دن احمد کے لئے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور لاتا تھا۔اسی لئے تو بیٹے کی یہ بات سن کر عبداللہ، ٹھیک ہے!، کہہ کر ہونٹوں پہ تبسم بکھر کے باہر نکلا۔
جب وہ اسپتال کی سامنے والی دوکانوں پہ پہنچاتو اسکوٹر روک کر دوائیاں طلب کیں لیکن روز کی طرح یہاں دوائیاں نہ ملیں تو بازار جانے کے لئے پھر سے اسکوٹر اسٹاٹ کیا،لیکن اسکوٹر اسٹاٹ ہوتے ہی رُک گیا ۔آخر دو چار کوششوں کے بعد اسکوٹر اسٹاٹ ہو ہی گیا۔احمداس اسکوٹر کو اپنا جڑواں بھائی کہتا تھا وہ اسلئے کہ عبداللہ نے یہ اسکوٹر اُسی دن لایا تھا جب پانچ بہنوں کے بعد آخر کافی دعاوں کی بدولت عبداللہ کے یہاں بیٹا پیدا ہوا تھا ۔ریٹائرمنٹ سے پہلے عبداللہ روز اسی اسکوٹر پر ڈیوٹی جاتا تھا۔
عبداللہ بازار میں اُس د وکان کی طرف۔ جہاں سے وہ دوائیاں خریدتا تھا،بڑھ ہی رہا تھا کہ اُس کی نظر دیوار پہ لگے بورڈ پر پڑی۔ یہ ایک بُک سینٹر کا بورڈ تھا، جس پہ رکھا تھا کہ ’’یہاں ہر طبقے کے علما ء کی کتابوں کے ساتھ ساتھ تاریخی ناول ۲۰ سے ۳۰ فیصد کی رعایت پر دستیاب ہیں‘‘۔عبداللہ نے اسکوٹر وہیں روک کر ایک طرف رکھا اور احمد کے لئے ایک نہیںدو بلکہ کتابیں خرید لیں۔
بک سنٹر سے نکلتے ہی عبداللہ پیدل ادویات کی دوکان کی اور چل پڑا۔ وہ ابھی دوکان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ بازار میں اچانک افراتفری مچ گئی۔ دوا فروش کے ساتھ ساتھ سبھوں نے اپنی دوکانیں بند کردیں ۔عبداللہ ادویات کی غرض سے دوافروش کوروکنے ہی والا تھا کہ وہ گاڑی اسٹاٹ کر کے چلا گیا۔عبداللہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھاکہ یہ کیا ہورہاہے ،اسلئے تو وہ سوچنے لگا نہ کوئی دھمکا نہ ہی کچھ اور ہوا، پھر کیوں وہ بازار، جس میں ابھی چہل پہل تھی ، اچانک ویران ہو گیا۔عبداللہ شکستہ قدموں سے دھیرے دھیرے اسکوٹرکی طرف جا ہی رہا تھا کہ راہ چلتے کسی مسافر نے ہانپتے کا نپتے کہا ’’چاچا بھاگو یہاں سے، آپ کو پتہ نہیں انٹرنیٹ بند ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
رابطہ:کشمیر یونیورسٹی سرینگر ،[email protected]