عارف بلوچ
اننت ناگ// وادی کشمیر کی پہاڑی بستیوں میں باغبانی کرنے والے کسانوں کے لئے سیب کے ڈبے ڈھلوانوں سے سڑک تک پہنچانا ہمیشہ سے ایک کٹھن مرحلہ رہا ہے۔یہ کام صرف مزوروں کی طاقت پر منحصر تھا لیکن کہر بل مٹن سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ اویس احمد خان نے اس صدیوں پرانے کٹھن مسئلے کا انوکھا حل تلاش کیا ۔ انہوں نے اپنے سیب کے باغ ‘لیپرڈ ہل آرچرڈ’تک ایک روپ وے تعمیر کی ہے ، جو آج ان کے لئے مزدوری کے اخراجات کم کرنے اور وقت بچانے کا ذریعہ بن چکی ہے ۔اویس احمدنے فقط پانچویں جماعت تک پڑھا ہے ، بچپن سے ہی باغبانی سے لگاؤ رکھتے تھے ۔ ان کے 33 کنال پر پھیلے وسیع و عریض باغ تک پہنچنا آسان نہیں تھا کیونکہ یہ سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے اور گھر سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دوری پر واقع ہے ۔اویس نے کہا’’کٹائی کے دنوں میں مجھے پانچ مزدور رکھنے پڑتے تھے ۔ یہ مزدور دن بھر کی کڑی مشقت کے باوجود بمشکل 100 بکسے سڑک تک پہنچا پاتے تھے ۔ اس پر روزانہ تقریباً پانچ ہزار روپے مزدوری دینی پڑتی تھی۔یہ مزدوروں کے لئے بھی کٹھن مرحلہ تھا اور ہمارے لئے بھی بھاری خرچ کا مسئلہ تھا‘‘۔گزشتہ برس اکتوبر میں جب انہوں نے مزدوروں کو کھڑی چڑھائی پر پسینے میں شرابور ہوتے دیکھا تو ان کے ذہن میں رسی راہ بنانے کا خیال آیا۔ تین ماہ تک انہوں نے کوشش کی لیکن ناکامی ہاتھ لگی تاہم اس برس زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ بغیر کسی انجینئر یا ماہر کی مدد کے وہ کامیاب ہوئے ۔انہوں نے کہا: ‘میں نے اپنی اختراع کے لئے نایاب وسائل کا سہارا لیا، پرانی گاڑیوں کے پرزے کباڑیوں سے خرید کر اس رسی راہ کو ترتیب دیا’۔ان کا کہنا تھا: ‘میں نے اس روپ وے کو بنانے کے لئے وین کا انجن، تویرا کا ایکسل اور ماروتی کی بریک کا استعمال کیا۔ اس روپ وے کو بھی گاڑی کی طرح چابی سے اسٹارٹ کیا جاتا ہے اور یہ اسٹیل کور والی رسی پر چلتا ہے جو کافی مضبوط ہے ‘۔موصوف نے کہا: ‘ یہ رسی راہ تقریباً 500 میٹر لمبی ہے اور ایک بار میں 2.6 کوئنٹل یعنی آٹھ ڈبے اور 60کلو سامان اٹھا سکتی ہے ‘۔انہوں نے کہا’’گھوڑے بھی یہ ڈھلوان نہیں چڑھ سکتے تھے ، لیکن یہ مشین بخوبی کام کر رہی ہے ‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ رسی راہ صرف سیب کے ڈبے ہی نہیں بلکہ گھاس، مزدوروں کا کھانا اور دیگر سامان بھی لاتی لے جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کا انجن 800 سی سی اومنی وین کا ہے اور ایندھن کی کھپت بھی انتہائی کم ہے ۔200ڈبوں کے لئے صرف آدھا لیٹر پٹرول خرچ ہوتا ہے ۔اس ہونہار نوجوان نے کہا کہ یہ منصوبہ آسان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا: ‘پرزوں کو جوڑنے میں کئی بار رکاوٹیں آئیں، انجن ٹھیک سے فٹ نہیں ہو رہا تھا، رسی کا تناسب بیٹھ نہیں رہا تھا،یہ واقعی مشکل تھا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ آخرکار یہ رسی راہ کامیابی سے چلنے لگی’۔اویس نے بتایا کہ اس روپ وے کی تیاری پر ساڑھے چار لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے اور اس کو مکمل کرنے میں انہیں تین ماہ کا وقت لگا۔