بالآخرالیکشن کمیشن کے اندھیرے نہاں خانوں میں ادراکِ حقیقت کا سورج طلوع ہوا اور کمیشن کو یہ احساس ہوا کہ اننت ناگ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخابات کے انعقاد کے لئے حالات موزون نہیں ہیں۔ اگر کمیشن صحیح وقت پر حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں کامیاب ہوجاتا تو غالباً وہ تباہ کن صورتحال دیکھنے کو نہیں ملتی ، جس سے کشمیر کا طول و عرض دوچار ہوا ہے اور جو ملک کی انتخابی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکاہے۔ کمیشن نے انتخابی عمل کو منسوخ کرنے کے لئے جن معاملات کو دلائل بنا کرپیش کیاہے وہ اُس وقت بھی موجود تھے، جب 9اپریل کو سرینگر حلقے میں انتخابات کروائے گئے اور جسکے نتیجے میں 8عام شہری گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ میڈیا کے توسط سے سامنے آئے انکشاف کے مطابق مرکزی وزارتِ داخلہ نے وقت پر کمیشن کو کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹ بھیجی تھی جس میں حالات کو انتخابی عمل کے لئے غیر موزون قرار دیا گیا تھا، مگر کمیشن اُس وقت سُنی ہوئی کو اَن سُنی کرکے سرینگر اور اننت ناگ میں بالاترتیب 9اور 12اپریل کو انتخابات کروانے کا فیصلہ کیالیکن پہلے انتخابی مرحلہ کے نتیجے میں پیش آئی خون آشام صورتحال کے بہ سبب اننت ناگ انتخابات مؤخر کرکے 25مئی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ اُس مرحلے پر بیش تر سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے انتخابات منسوخ کرنے پر زور دیا گیا تھا اور بعد ازاں پی ڈی پی اُمیدوار تصدق مفتی نے بھی کمیشن سے اسی عنوان سے گذارش کی تھی، مگر کمیشن کی طرف سے ایسا کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا، جو حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرتا۔ حالانکہ پہلے انتخابی مرحلے پر ووٹنگ کی برائے نام شرح سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آئی اور جسکا اعتراف ملک بھر میں کیا گیا، کہ لوگوں کو انتخابی عمل کے ساتھ فی الوقت کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود کمیشن نے سرینگر نشست پر انتخابات کروائے،جس سے صورتحال کی ابتری میں زبردست شدت پیدا ہوگئی۔ آج الیکشن کمیشن یہ دلیل پیش کررہا ہے کہ اُنہیں الیکشن کروانے کے لئے مناسب تعداد میں سیکورٹی اہلکار بھی میسر نہیں تھے۔ کمیشن کے مطابق مرکز سے 60ہزار نفری کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن مرکزی حکومت صرف 25ہزار اہلکاروں کی خدمات فراہم کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ کمیشن نے آنے والے ایام میں ماہ رمضان، امرناتھ یاترا اور سیاحتی سیزن کو بھی التویٰ کی وجوہات گردانا ہے، جبکہ کمیشن کے مطابق ریاستی حکومت نے مئی کے مہینے میں انتخابات سے عسکریت مخالف آپریشنوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر بھی کیا ہے، لہٰذا حالات معمول پر آنے تک انتظار کو بہتر سمجھا گیا ہے۔ یہ ساری دلیلیں قابل فہم ہیں، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ وجوہات پہلے انتخابی مرحلے کے وقت بھی موجود تھیں، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ کمیشن نے اسکا ادراک نہ کرتے ہوئے یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ اُسے کشمیر کی صورتحال سے زیادہ اپنی حیثیت جتلانے سے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ وگرنہ مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے حالات کی ناسازگاری کے متعلق رپورٹ کے بعد ایسے فیصلے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی کیونکہ موجودہ فیصلہ لیتے وقت بھی ناسازگار حالات اور سیکورٹی کی مجبوریوں کو بنیاد بنایا گیاہے۔ مزید برآں اُن اسکولی عمارات، جہاں پولنگ بوتھ مقرر کئے گئے تھے، کو نذر آتش کرنے کی کارروائیوں کو بھی الیکشن منسوخ کرنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کی شاید ہی گنجائش ہو کہ ایسی اسکولی عمارات کو نذر آتش کرنے کے واقعات انتخابی عمل کے ساتھ ہی شروع ہوئے، لیکن پہلے انتخابی مرحلے پر اس عنوان سے نہیں سوچا گیا۔یہ تمام ایسی باتیں ہیں، جن سے الیکشن کمیشن اپنا دامن نہیں جھاڑ سکتا بلکہ یہ اگر کہا جائے کہ وہ اس حوالے سے ریاستی عوام کے سامنے جواب دہ ہے تو شائد غلط نہ ہوگا۔ غلط وقت پر غلط فیصلے لینے کی حکمت عملی سے غلط نتائج برآمد ہونے کی یہ مثال مستقبل میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کمیشن کے لئے بھی سبق آموز ہونی چاہئے۔