Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

انصاف کی چو کھٹ افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: January 28, 2024 12:07 am
Mir Ajaz
Share
12 Min Read
SHARE

طارق شبنم

’’ شاہ مالی زوجہ سلام ڈار حاضر ہوووو……‘‘۔
اردلی کی آواز سنتے ہی کچہری کی طرف سے ٹکٹکی باندھے سوچوں میں غلطاں و پیچاں شاہ مالی ایک دم اُٹھ کر تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے کچہری کے اندر داخل ہوگئی۔
عمر رسیدہ شاہ مالی سالہا سال سے پابندی کے ساتھ انصاف کی کچہری کا طواف کر رہی تھی۔ہر پیشی پردہ اپنے زخمی دل میں اُمیدوں کے بے شُمار چراغ سجائے انصاف کی چوکھٹ پر حاضر ہوتی تھی۔لیکن یاس و نااُمید ی جیسے زہریلی ناگن کی طرح پھن پھیلائے ہوتی تھی کہ اس کا ایک بھی چراغ روشن نہیں ہو پایا تھا۔وکیلوں کے لمبے چوڑے بحث مباحثہ کے بعد اس کو حا ضری کے لئے نئی تاریخ مل جاتی تھی اور بس ۔قانون کے دائو پیچ کے آگے وہ بے بس تھی اور لاچاری کے عالم میں سخت بے قراری اور شدت سے نئی پیشی کا انتظار کرتی تھی۔قریب ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد وہ کچہری سے اپنے وکیل کے ساتھ باہر آئی تو اس کے وجود سے احساس محرومی کے پرنالے بہہ رہے تھے۔پائوں من من بھاری تھے،ماتھے پہ بے اطمینانی اور اضطراب کی لکیریں،آنکھیں بجھی بجھی سی اور اُداس چہرے سے نا اُمیدی یاس کے قطروں کی طرح ٹپک رہی تھی۔کچہری کی سیڑھیوں پر کچھ دیر تک وہ وکیل کے ساتھ محو گفتگورہی،وہ لجاجت سے ہاتھ باند ھ کر بے بسی کی حالت میں اُس سے منتیں کرتی رہی جب کہ وکیل بھی بڑی میٹھی زبان سے اس کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔آخر اپنے میلے سے پیر ہن کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس نے کچھ رقم نکالی اور وکیل کے ہاتھ میں تھما کر افسردگی کی حالت میں جانے لگی۔ کچہری کے صد دروازے پر موجود چائے فروش نے مانوس انداز میں آواز دی۔
’’شاہ مالی…ناک کے سیدھ میں کہاں جارہی ہو…چائے پی کرتو جائو۔‘‘
آواز سُن کر وہ چھاپڑی کی طرف بڑھی،خالی جیب ہونے کے باعث مریل سے لہجے میں بولی۔
’’ رجب بھائی……چائے نہیں ایک گلاس پانی پلادے اور …‘‘۔
’’مہنگا پانی… سستی جان…ہا…ہا…ہا…‘‘۔
چھاپڑی کے پاس ہی بیٹھے بوسیدہ لباس میں ملبوس پاگل شخص،جس کے لمبے اُلجھے بال اور بے ترتیب داڑھی تھی،نے اس کی بات کاٹتے ہوئے،اپنے آپ سے ہنستے ہوئے یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔
’’ بہن… ایسا ہوسکتا ہے کہ تم رجب کی چھاپڑی سے بغیر چائے پئے جائوگی؟…ہر گز نہیں‘‘۔
’’ نہیں رجب … وہ کیا ہے کہ میری…‘‘۔
اس نے بہانہ بنانا چاہا حالا نکہ بھوک سے اس کا چہرہ مرجھا یا ہوا تھا۔
’’تیری شامت آئی …بیٹھو بھی‘‘۔
رجب نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مذاق کے انداز میں کہا۔وہ دونوں ایک دوسرے کو عرصہ دراز سے جانتے تھے اس لئے بے تکلفی سے کبھی مذاق بھی کیا کرتے تھے۔
شاہ مالی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی اور پاگل شخص پر نظر دوڑاتے ہوئے رجب سے مخاطب ہوئی۔
’’رجب… سالہاسال سے میں اس شخص کو یہیں اسی حالت میں پڑا دیکھ رہی ہوں۔آخر اس پر ایسی کیا گزری ہے کہ اس کی یہ حالت ہوگئی؟‘‘۔
’’کیا بتائوں بہن… اس کا نام سلطان ہے،نہایت ہی درد بھری کہانی ہے اس بیچارے کی۔اس کی رگ رگ میں ٹیسیں ،انگ انگ میں پھوڑے اور رستے ہوئے زخم ہیں…‘‘۔
اس نے ایک لمبی آہ کھینچ کر اپنی بات جاری رکھی۔
’’سلطان ایک شریف النفس اور با سلیقہ انسان تھا۔ہنستا کھیلتا خوشحال گھرانہ تھا اس کا، زندگی کے دن آرام سے کٹ رہے تھے کہ اچانک اسے حالات کی بے رحم زنجیروں نے زہریلے سانپ بن کر جکڑ لیا… اس کی جوان بیوی ایک سڑک حادثے میں سخت مضروب ہوگئی۔اس کے علاج و معالجے پر کافی رقم خرچ ہونے لگی۔جب گھر میں موجود جمع جھتا ختم ہوا تو بیوی کی زندگی بچانے کیلئے مجبور اً اس نے اپنی کچھ جائیداد بیچنے کی ٹھان لی لیکن اپنے ہی چند خود غرض رشتہ داروں نے اس عمل میں روڑے اٹکائے۔سلطان نے انہیں اپنی روداد سنا کر قائیل کرنے کی سخت کوشش کی لیکن جب اُن کے سنگ و آہن جیسے دل نہیں پگھلے تو اس نے انصاف کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔انصاف حاصل کرنے کیلئے بہت ہاتھ پیر مارے تاکہ اپنی بیوی کی زندگی بچا سکے لیکن بے سود۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’تو کیا پھر اس کو انصاف ملا؟‘‘
’’ ہاں بہن… اس کو انصاف ضرور ملا لیکن تب بہت دیر ہوچکی تھی اور یہ بہت بڑی بے انصافی کا شکار ہوچکا تھا ۔اس کی بیوی تڑ پ تڑپ کر مر چکی تھی اور اپنے سنسار کو اُجڑتے دیکھ کر یہ پاگل ہوچکا تھا۔جب سے یہ اسی طرح صبح سے شام تک انصاف کی اس چوکھٹ پر بیٹھے بیٹھے غم ناک آنکھوں سے انصاف کے اس گھر کو تکتا رہتا ہے‘‘۔
رجب نے چائے کی پیالی شاہ مالی کو تھماتے ہوئے اپنی بات ختم کی اور کچھ سودا لانے کیلئے بازار کی طرف گیا۔
قریب ایک دہائی قبل شاہ مالی کی پُر بہار زندگی میں اس وقت ایک بھیانک طوفان آیا تھا جب اس کی نور نظر پھول سی جوان بیٹی صبح حسب معمول گھر سے کالج کیلئے روانہ ہوگئی لیکن شام کو زخموں سے داغ داغ اس کی لاش گھر پہنچی ۔کالج سے واپسی کے دوران ایک سنسان جگہ پر بڑی بے دردی سے اس کا خون کردیا گیا تھا۔شاہ مالی اور سلام ڈار ،جن کی دنیا اُجر چکی تھی،نے ہمت جٹا کے مظلوم بیٹی کو انصاف دلانے اور اپنے جلتے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے بڑی اُمیدوں سے انصاف کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔چند سال قبل اس پُر خار راستے پر چلتے چلتے سلام ڈار کے قدم ڈگمگائے اور وہ اچانک شاہ مالی کو تنہا چھوڑ کر چلاگیا ،لیکن شاہ مالی نے ہمت نہ ہاری اور یک و تنہا انصاف کے گھر کے چکر کاٹتی رہی مگر قانون کے دائو پیچ دیکھ کر اسے اب بھی دور دور تک انصاف ملنے کے آثار بالکل نہیں دکھائی دے رہے تھے۔سلطان، جو اس کے سامنے ہی بیٹھا تھا، کی کہانی سن کر اس کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے۔
’’…اس کو انصاف ضرور ملا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور یہ بہت بری نا انصافی کا شکار ہوچکا تھا…‘‘۔
رجب کے یہ الفاظ ہتھوڑے بن کر اسکی سماعت پر برس رہے تھے۔
پیالہ خالی ہوتے ہی سوچ و فکر کے اتھاہ سمندر میں غرق شاہ مالی پر غنودگی سی طاری ہوگئی…دفعتاً اس کے سامنے اس کی معصوم بیٹی زویا کھڑی ہو کر فریاد کرنے لگی۔
’’ ماں …آخر کب تک تم اس بے رحم سماج اور اندھے قانون سے انصاف کی بھیک مانگتی پھر وگی …‘‘۔
’’بیٹی … جب تک نہ میں انصاف حاصل کرکے قاتلوں کو سولی پر لٹکتے دیکھوں‘‘۔
نہیں ماں…تمہارے جیتے جی شاید یہ ممکن نہیں ہے … اتنے سالوں سے تم انصاف کی اس چوکھٹ پر بھکارن کی طرح جولی پھیلائے انصاف کی بھیک مانگ رہی ہو… کیا ملاتم کو؟… کچھ بھی تو نہیں۔فقط تاریخ پہ تاریخ۔‘‘
’’ہاں بیٹی… پر اس کے سوادوسرا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے‘‘۔
’’ماں…انصاف کی فراہمی میں تاخیر سب سے بڑی ناانصافی ہے …تمہارا اس طرح بے بسی کی حالت میں حصول انصاف کیلئے ٹھوکریں کھانا اب مجھ سے سہا نہیں جاتا ہے بلکہ اس سے میرے جسم پر لگے ہر گھائو کا درد جاگ اُٹھتا ہے… میری مانو … انصاف کے ان بے پرواہ ایوانوں سے انصاف کی بھیک مانگنا بند کردو۔۔۔۔۔۔خدا کے لئے بند کردوماں… بند کردو …‘‘۔
کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی دھارنکل پڑی اور وہ واپس جانے لگی۔
’’زویا بیٹی… رک جائو… میری بات تو سنو بیٹی… زویا … زویا…‘‘۔
شاہ مالی دیوانہ وار چلّاتے ہوئے کھڑی ہوئی اور پر کٹے پنچھی کی طرح پھڑ پھڑ اتے ہوئے اپنا سینہ پیٹنے لگی۔اس کی آنکھوں سے آنسو تیز تیز قطار در قطار بہنے لگے۔لوگوں کی بھیڑ اس کے ارد گرد جمع ہوگئی۔اتنے میں رجب دوڑتے ہوئے آیا اور اس کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’شاہ مالی کیا بات ہے؟ تم کیوں چلارہی ہو؟‘‘
’’ رجب … وہ… وہ میری بیٹی زویا…‘‘۔
ہوش میں آکر وہ کچھ پل کے لئے سوچوں میں کھوسی گئی۔پھر وہ اس تھیلے،جس میں انصاف کے ایوانوں کے چکر کاٹتے کاٹتے کاغذات کا پلندہ جمع ہوگیا تھا، سے کاغذات نکال کر پھاڑنے لگی۔
’’کیا کرتی ہوشاہ مالی؟… یہ بہت ضروری کاغذات ہیں۔‘‘
رجب اس کو منع کرتا رہا لیکن وہ اس کی طرف توجہ کئے بغیر ہنس ہنس کے کاغذات کو پھاڑنے کے بعد ہوا میں اچھال کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتی رہی ،یہاں تک کہ تھیلا خالی ہوگیا۔
’’ یہ کیاکیا تم نے بہن …سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا‘‘۔
مہنگا پانی…………؟‘‘
سلطان اپنے مخصوص انداز میں تیز تیز ان الفاظ کا طرد کرنے لگا ۔اس کی سرخ ہوئی آنکھوں میں بھی آنسوئوں کے ڈورے تیر نے لگے…یہ الفاظ اُسی کی دماغی اختراع تھے جو وہ اکثر خود کلامی میں بولتا رہتا تھا۔
رجب … میرے بھائی…اپنی مظلوم و معصوم بیٹی کے لئے انصاف حاصل کرنے کے کٹھن اور پر خار راستے پر چلتے چلتے اب میں بہت تھک چکی ہوں…ٹوٹ چکی ہوں ۔اب مجھ میں وہ سکت باقی نہیں ہے کہ میں انصاف کے اس گھر کی اور خاک چھانتی پھروں …چلتی ہوں…‘‘
اس نے تھکن آلود لہجے میں کہتے ہوئے انصاف کے گھر کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور بھاری قدم اُٹھاتے ہوئے گھر کی اور چلنے لگی۔اس کی پژ مردہ آنکھوں میں درد کابیکراں پنہاں تھا۔
���
اجس بانڈی پورہ کشمیر
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
عید کے دن تھنہ منڈی میں صفِ ماتم | المناک سڑک حادثے میں دو نوجوان جاں بحق،1زخمی
پیر پنچال
گورنمنٹ پرائمری سکول اپر سیداں پھاگلہ کی عمارت کھنڈر میں تبدیل بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ،والدین پریشانی میںمبتلا
پیر پنچال
ڈوڈہ کے منو گندوہ میں آتشزدگی کی پراسرار واردات چار منزلہ رہائشی مکان خاکستر ،بھاری مالیت کا سامان جل کر راکھ
خطہ چناب
سانبہ میں زنگ آلود ماٹر شل بر آمد | بم ڈسپوزل سکارڈ نے ناکارہ بنایا
جموں

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?