رواں سال کی دس جنوری اب سے ریاست کی تاریخ میں سیاہ دن کی حیثیت سے یاد کی جائے گی۔اس روز صوبہ جموں کے ضلع کٹھوعہ کی گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ آصفہ نامی بچی پر اسرار حالات میںگھر سے غائب ہوتی ہے اور افسوس صد افسوس چند روز بعداس ننھی کلی کی جگر سوختہ لاش بر آمد ہوتی ہے۔ لاش کا طبی معائنہ کر نے سے پتہ چلتا ہے کہ اس بچی کی عصمت تارتار کر نے کے بعد اسے ظالم درندوں نے ابدی نیند سلادیا تھا۔ اس د ل سوز المیہ پر پوری ریاست خون کے آنسومیں نہا جاتی ہے۔ انسانی دل چھلنی کرنے والا یہ المیہ پوری انسانی تہذیب وشرافت پر سیاہی پوت دیتاہے۔ آصفہ کی اس ناقابل بیان دُرگت پرا طراف واکناف میںکہرام مچ گیا، لوگوں نے سینہ کوبیا ں کیں، گجر بکروال برادری نے کمزور ہی سہی لیکن اپنااحتجاج درج کرایا ، جب کہ سماجی رابطے کی سائٹس سمیت مقامی میڈیا نے اس شرم ناک سانحے پر اپنے غم وغصہ کا برملااظہار کیا ۔ ریاست کے ہرمحب وطن اور انسان دوست انسان کا واحد مطالبہ یہ تھا اور اب بھی ہے کہ انسانیت کے مجرم کو ( جو اب اپنے شریک گناہ کئی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ جیل میں ہے ) کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ چوک چوراہوں اور بستیوں بازاروں سے لے کر ریاستی اسمبلی تک میں جب اس اشتعال انگیزسانحہ پربہت شور شرابہ ہوا تو پولیس نے FIRدرج کرکے رسمی طور تفتیش کاکام شروع کردیا۔ ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن نے اس ننگ انسانیت واقعے پر ریاستی حکومت کی نکیل کس دی تو معاملے کی تفتیش کے لئے پہلے پولیس کی ایک خصوصی ٹیم مقرر کی گئی اور آگے معاملہ کرائم برانچ کے سپرد کیا گیا ۔ پولیس کا یہ مخصوص صیغہ بہت جلد اصل ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کو پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی برمحل تفتیش سے پتہ چلا کہ معصومہ آصفہ کی عصمت تار تار کرنے والا محکمہ پولیس کا SPOدیپک کمار کھجوریہ نامی شخص ہی ہے۔ بتا یا جاتاہے کہ اس انسان نما درندے نے معصومہ آصفہ کی عصمت کو کئی بارتار تار کرنے کے بعد اسے بے دردی سے قتل کرڈالا اور پھر اس کی بے گور وکفن لاش انسانیت کو خون کے آنسو رُلانے کے لئے سرراہ چھوڑ دی۔ پولیس کرائم برانچ نے مختصر وقت میں اصل مجرم کو پکڑکر اسے سلاخوں کے پیچھے کردیا لیکن ملزم کی گرفتاری کے بعد حالات نے عجیب وغریب کروٹ لے لی۔ ہو ایوں کہ ہندو برادری کے ایک مخصوص حصہ نے اس درندہ صفت ملزم کو بے گناہ قرار دینے کے لئے جلسے جلوس کا اہتمام کیا جن میں انڈیا کا قومی پرچم لہراکر اس المیے کو ایک اور ہی رنگ میں پیش کیا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جلوس کو’’ تحفظ ‘‘ دینے( یا اس کا وزن بڑھانے) میں پولیس اس کے آگے آگے رہی ۔ تعجب اس بات پر ہورہا ہے کہ کیا پولیس جلسے جلوس کااہتمام کر نے والوں کا منشاء نہیںجانتی تھی؟ حسرت تو اس بات کی بھی ہے کہ اُدھر وزیر اعظم ہند بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ بلند کر نے اور مسلم خواتین کو بقول ان کے انصاف دلانے کیلئے سہ طلاق کو قانوناً ممنوعہ قرار دینے میں کوشاں ہیں ،اِدھر ایک معصومہ اس ناگفتہ بہ سفاکیت وبربریت کا شکار کی جاتی ہے اور پھر قومی پرچم کے سائے میں ملزم کو قانو ن کی گرفت سے بچانے کے لئے ہندو ایکتا منچ سامنے آتا ہے ۔ یہ منچ سینہ زوری سے دھن دھنائے ملزم کو عدالتی کارروائی سے پہلے ہی معصوم عن الخطاء جتلاتاہے ۔ اس انوکھے طرز عمل سے ہندوستانی جمہوریت پر انگلیاں اٹھنا لازمی ہے جس سے ملک کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ۔ لوگ حیرت سے دانتوں تلے انگلی د با کر ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ بجائے شرمساری محسوس کرنے کے جلسے جلوس والوں نے کس ڈھٹائی سے جرم کی حمایت میں اپناوزن ڈالا۔اگر مجرموں کی حمایت میں عوام کے کسی طبقے کا آگے آنا کوئی شریفانہ طرز عمل قرار پاتا ہے تو پولیس اور عدالت کا کیا کام ہے ؟ تھانے ا ور جیلیں کیا مقصد رکھتی ہیں؟ اس قصہ طولانی میںیہ بھی ایک قابل غورسوال ہے کہ ملزم دیپک کھجوریہ کی حمایت میں دھڑلے سے قومی پرچم کو بیچ میں لانا کیا اس کی توہین نہیں؟ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے جس کا قانون کے رکھوالوں اور آئین کی بالا دستی تسلیم کر نے والوں کو نوٹس لینا چاہیے ۔
بہر کیف بات آصفہ پر ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ دیکھا جائے تو یہ خطہ ارضی جس کی کوکھ سے پیروں فقیروں صوفیوں نے جنم لیا کہ جنہوں نے اپنی تابنا کیوں سے قرنوں کو روشن کیااور جو عالمی افق پر اصلاح کار بن کرجلوافروز ہوئے ، جس سرزمین کا ذرہ ذرہ امیرکبیرسید علی ہمدانی علیہ الرحمہ جیسی قلندانہ ومبلغانہ شخصیت کا تاقیامت مرہون ِمنت رہے گا،افسوس آج وہی سرزمین آدم خور ہوس پرستوں کی درندگی کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ کنن پوش پورہ سے لے کر کٹھوعہ تک نہ جانے کتنی مسلم بچیاں اوربیبیاں ایسی ہیں جو نہایت ہی شرمناک، المناک اور انسانیت سوز مظالم کی بھینٹ چڑھائی جا چکی ہیں ۔ تاسف وتعجب کی بات یہ ہے کہ جانتے بوجھتے ایک بار بھی انسانیت کے ان کھلے مجرموں ، ظالموں ،قاتلوں، بدقماشوں اور عصمت کے لٹیروں کو سزا دی گئی نہ ان کاکوئی مواخذہ ہوا ۔اس گھمبیرصورت حال نے ریاست کو واقعی جہنم زاربنادیا ہے۔ بلاشبہ آصفہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہو ، اُسے کوئی بھی باضمیرانسان اور ماں بہن بیٹی کی عزت آدر کرنے والا کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا ۔ ریاست کے انسان دوست لوگوں کا غم وغصہ اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہوسکتا ہے جب تک انسانیت کا جگر پاش پاش کر نے والے اس جرم کے تمام مرتکبین کو ایک ایک کر کے قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا ، انہیں عبرت آموز سزا نہیں دی جاتی۔اس وقت تک نہ متاثرہ گھرانہ راحت کی سانس لے گا ، نہ حق وانصاف کے متوالے لوگ چین سے بیٹھیں گے اور نہ قانون کی حکمرانی کا ریاست میں ڈنکا بجے گا۔ اس لئے بہرتی اور برتری اسی میں مضمر ہے کہ موثر عدالتی کارروائی کے بعد جن لوگوں پر آصفہ کے ساتھ جبر وزیادتی کا جرم ثابت ہوتا ہے ،ا نہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ دعا ہے کہ خدائے تعالیٰ پوری امت کی بہو بیٹیوں کی عزت آبرو اورعفت عصمت کی حفاظت فرماتے ہوئے ملت کے ہر پیر وجوان کی زندگی زمنی بلاؤں اورآسمانی آفات سے محفوظ رکھے۔(آمین(
رابطہ نمبر 9596664228
E-mail.- [email protected]