ہلال بخاری
مغربی دنیا خود کو ہمیشہ جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کا محافظ قرار دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے فورمز سے لے کر بین الاقوامی میڈیا تک، مغربی رہنما بارہا عدل، امن اور اخلاقیات کا راگ الاپتے ہیں۔ وہ مشرقی ممالک پر آمریت، شدت پسندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگاتے ہیں اور پابندیاں عائد کرتے ہیں۔لیکن جب بات اسرائیل کی ہو تو یہی اصول کہیں نظر نہیں آتے۔
اسرائیل کو گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے، چاہے وہ بین الاقوامی قوانین کی کتنی ہی خلاف ورزی کرے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی ایک ایسی مذہبی قوم پرستی پر رکھی گئی تھی جسے مغرب بظاہر شدت پسندی سمجھ کر مسترد کرتا ہے۔ مگر یہی مغربی ممالک اسرائیل کی ہر کارروائی کو ’’حقِ دفاع‘‘ کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں۔
1948ء میں قیام کے بعد سے اسرائیل مسلسل اپنے ہمسایہ ممالک سے برسرِ پیکار رہا ہے۔ چاہے مصر ہو، شام، لبنان یا اب ایران — اسرائیل کا جارحانہ رویہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں اس نے شام، لبنان اور ایران پر حملے کیے، جنہیں یک طرفہ دفاعی کارروائیاں کہا گیا۔ایران پر اسرائیلی حملے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ایران ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، حالانکہ ایران این پی ٹی (NPT) پر دستخط کر چکا ہے، جبکہ خود اسرائیل نے کبھی اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جو ملک خود ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے، وہ کس اخلاقی یا قانونی بنیاد پر کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے؟اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیاں فلسطینیوں پر بھاری پڑی ہیں۔ غزہ میں پورے کے پورے علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ خوراک، ادویات، پانی اور تعلیم سے محروم ہیں۔ اسے ’’دفاع ‘‘کہنا ظلم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
عالمی ادارے بھی اب خاموش نہیں رہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ لیکن امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہو کر اس عدالتی اقدام کو رد کر دیا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک جو کھلے عام جنگی جرائم کا ارتکاب کریں، واقعی مہذب کہلانے کا حق دار ہیں؟ کیا وہ ریاست جو لاکھوں انسانوں کو بھوکا رکھ کر اپنی حفاظت کا دعویٰ کرے، مہذب قوموں کے زمرے میں آ سکتی ہے؟
اس مضمون کا مقصد اسرائیل کے وجود سے انکار نہیں، بلکہ اس کی پالیسیوں پر سوال اٹھانا ہے۔ ہر ملک کو دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن دفاع کے نام پر انسانیت کا خون بہانا کسی طور بھی جائز نہیں ہو سکتا۔اگر مغربی دنیا واقعی انسانی حقوق اور انصاف کی علمبردار ہے، تو پھر اسے ہر ریاست کو ایک ہی معیار پر پرکھنا ہوگا۔ اسرائیل کو بے لگام چھوڑ دینا دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔جب تک مغرب اپنی دوہری پالیسی ترک نہیں کرتا، تب تک ایک منصفانہ اور پرامن دنیا کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔