ہر سو ماتم تھا ،فضا سہم گئی تھی ،زمین لرز اٹھی تھی اور آسمان بھی تھرا گیا تھا ۔ہر چہرہ افسردہ اور اور ہر آنکھ نم تھی ۔عورتیں زار و قطار رو رہی تھیں ،نوحہ کر رہی تھیں اور اپنے کھوئے ہوئے جگرکے ٹکڑوں کو ندائیں دے رہی تھیں ۔مردوں کی حالت بھی کچھ عجیب تھی ۔غصہ تھا ،بے بسی تھی اورسانسیں رکی ہوئی تھیں۔ہر ایک پر سکتہ طاری تھا۔لوگوں کاٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر تھااور اس سمندر کے بیچ نو سالہ فیضان کی لاش ڈوبنے کے بجائے تنکے کی مانند کاندھوں پر اچھل اچھل رہی تھی ۔جس کے چھوٹے سے سینے پر لگی ہوئی گولی نے بڑا سوراخ کیا تھا ۔تڑپ کر مرنے اور ہاتھ پاؤں رگڑنے سے سارے جسم پر خراشیں آگئی تھیں ۔خون اتنا بہہ رہا تھا گویا کہ جہلم کا سوتا اس کے سینے سے ملا ہو ۔سفید کفن کارنگ بدل کر لال ہوگیا تھا ۔کفن میں لپٹی ہوئی لاش اور کھلا مرجایا ہوا چہرا ہرایک کو اپنی مظلومیت اوراپنی معصومیت کی داستان سنا رہاتھا۔یہ منظر دیکھکر پتھروں کے دل بھی پسیجے جارہے تھے ۔بہرحال ایڈوکیٹ جلال الدین تو ایک انسان ہی تھے ۔آج اس کے چہرے پربھی افسردگی اور اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھے گئے ۔شاید اس نے پہلی بار اپنے ضمیر کی آوازسنی اور آج زندگی میں پہلی بار کسی مسئلے کو پیسوں کے ترازو میں نہیں تولابلکہ انسانیت کی نظر سے دیکھا ۔وہ لوگوں کے بیچ کھڑے ہوئے اور گرج دار آواز میں اپنی تقریر شروع کی۔وہ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ فیضان ہم سے پوچھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔
’’میرا قصور کیا تھا ‘‘
’’میں نے کون سا جرم کیا تھا‘‘
’’میرے ہاتھ میں نہ بندوق تھی اورنہ کوئی پتھر‘‘
’’میں تو بس اپنی کتابوں کا بستہ لئے پڑھنے جارہاتھا ۔‘‘
ایڈوکیٹ جلال الدین اپنے جلال میں آکر کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔’’ کیا اس ظالم نے گولی داغتے ہوئے اس معصوم کی لرزتی ہوئی ٹانگوں اورپتھرائی ہوئی آنکھوںکو نہیں دیکھا ؟۔کیا اس ظالم کو تھرتھراتے ہوئے جسم اور سوکھی ہوئی زبان پر ترس نہیں آیا؟ ۔کیا اس نازک مردہ جسم کو گھسیٹے ہوئے انہیں اپنے بچے یاد نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
وکیل صاحب اپنی تقریرمیںلوگوں سے وعدہ کر گئے کہ وہ قاتلوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائیںگے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ہم پر اس قانون کا نفاذ ہے جس کے ہوتے ہوئے ہم کسی مجرم کابال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔اس کے سامنے وہ سارے واقعات اور مثالیں موجود تھیں جن میں قاتلوں کو تو پہچانا گیامگر سزا کسی کو نہ ملی ۔صرف لوگوںکا غصہ دور کرنے کے لئے اور اپنی ساکھ بچانے کے لئے حکومت وقت کی طرف سے جوڈیشل انکوائری کا جھانسہ دیا گیا اور متاثرین کو انصاف دلانے کے کھوکھلے وعدے کئے گئے ۔اس لئے وکیل صاحب نے سب سے پہلے اسی قانون کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا جو انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔
ایڈوکیٹ جلال الدین یہاں کے جانے مانے وکلاءمیں شمار ہوتے تھے ۔انہوں نے پیسے بھی کمائے اور شہرت بھی خوب حاصل مگر سکون کا دور دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔ نیند بھی آنکھوں سے غائب رہتی تھی ۔فیضان کی موت نے اُن کی ساری دنیا بدل دی اور پُر تعیش زندگی کا سارامزہ کرکرا کردیا ۔اب اس کے اندر ہمدردی کا جذبہ اور مہذبانہ انداز آگیا تھا۔جس سے وہ سکون قلب اور مسرت روح کا مزہ بھی لے رہے تھے۔ راتوں کی نیند بھی اب اُن کی آنکھوں سے پیار کرنے لگ گئی تھی۔وہ اب اپنی زندگی سے مطمئن نظر آرہے تھے۔
وکیل صاحب نے جب سے فیضان کا کیس ہاتھ میں لیا تھا اس کے ارد گرد نیوز رپوٹرز،این جی اوزاور سماجی کارکنوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔وہ دن بہ دن مزاحمت کی علامت اور مظلوموں کی آوازبنتے جارہے تھے۔
وہ ہر فورم میں اس جنگل کے قانون کے خلاف آوازبلند کر رہے تھے اور فیضان کے قاتلوںکو مجرموں کے کٹہرے میں لانے کی مانگ کر رہے تھے ۔اُنہیں اب یقین ہونے لگا تھا کہ ان کی جدو جہد رنگ لائے گی اور وہ مظلومین کو انصاف دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انہوں نے عدالت میں سرکاری وکیل کے دانت کھٹے کئے تھے اور اپنی دلیل سے اسے چاروں شانے چت کیا تھا ۔انہوں نے اپنی ساری قابلیت اور توانائی اس کیس میںصرف کردی تھی۔
آج ایڈوکیٹ جلال الدین بڑی جاہ و حشمت کے ساتھ اپنے کیس کی پیروی کرنے کیلئے جارہے تھے۔ اُنہیں پورا یقین تھا کہ آج اُن کے حق میں فیصلہ ہو گا اور وہ اس پوزیشن میں آئیں گے کہ فیضان کے قاتلوں کو جرم کی سزا دلاسکیں گے اور لوگوں سے کئے گئے وعدے کو پورا کرسکیں گے ۔وہ اپنی گاڑی میں جارہے تھے ۔کیس کی سماعت میں وقت بہت کم رہ گیا تھا اس لئے اپنی گاڑی کوتیز تیز بھگا رہے تھے۔ شومئی قسمت ! راستہ بند تھا ۔گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔اس کے مخالف سمت سے آنے والی بلٹ پروف گاڑی نے سارا روڑ بلاک کردیا تھا ۔وکیل صاحب نے جھلا کر اس گاڑی کے ڈرائیور سے کچھ کہا تو دونوں کے بیچ میں تو تو میں میںشروع ہوئی۔۔۔۔۔اسی دوران سیاہ چہرہ ،لمبی مونچھوں والا ایک شخص گاڑی سے نمودار ہوا اوروکیل صاحب کی طرف بندوق تان کر اونچی آواز میں ۔۔’’رعب جماتا ہے ۔ہم پہ رعب جماتا ہے ۔۔۔۔۔۔تمہارے باپ کا قانون ہے ۔یہاں ہمارا قانون چلتا ہے ۔ہمارا قانون ۔۔۔۔۔۔۔‘‘کہتے ہوئے وکیل صاحب کے سر میں کچھ گولیاں پیوست کردیں ۔پل ہی پل میں وکیل صاحب کا سرا سٹائیرنگ (stiring)پر اٹک گیا اور اس کے خون کے چھینٹے اس تصویر پہ جا پڑے جو اس نے اپنی گاڑی کے سامنے والے شیشے پہ چپکائی تھی اور جس پر فیضان کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا ’’justice for faizan‘‘۔۔۔(انصاف فیضان کیلئے)۔
رابطہ؛بومئی زینہ گیر سوپور،موبائل نمبر؛9858493074