’’ لفظ انشاء‘ ‘ ۔۔۔کے ساتھ وابستہ تحریر اور اندازِ نگارش کا محدود اور تکنیکی مفہوم فارسی میںموجود تخلیقی ادب کے زیرِ اثر ابتداہی سے وسعت آ شنا ہو کر عبارت آ رائی اورحسنِ بیان کے معنوں میں استعمال ہو نے لگا تھا۔انشاپر دازی اسلوبِ بیان کی ایک مخصوص خوبی شمار کی جاتی رہی ہے۔‘‘
’انشائیہ کافن ‘ کے باب میں انہوں نے ڈاکٹر وزیر آ غا ،مشکور حسین یاد اور ڈاکٹر سلیم احمد کے نظر یات کے علاوہ رابرٹ لِنڈ کاحوالہ بھی دیا ہے اور اختلافی نکات نشان زد کر نے کے بعد اپنا موقف حسبِ ذیل پیش کیا ہے :ایک انشائیہ اور غزل کے ایک شعر میں ہمیں گہری مماثلت محسوس ہوتی ہے اس کی وجہ دونوں میں فنکار کا وہ شخصی اظہار ہے جس کے توسط سے وہ اپنے دل کی بات اور منفرد احساسات ہم تک پہنچانا چاہتا ہے اوراس کا وہ تپیدہ جذبہاظہار کی سعی میںغنائیت کی سر حدوں کو چھوکر دیگر اصناف سے ممتاز پیرایہ اختیار کر لیتا ہے ۔انشائیہ میں ہمیں اسی منفرد زبان و اسلوب کے نقوش ملتے ہیں۔‘
محمد اسد اللہ نے انشائیے کے مباحث کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نے ہر اختلافی نکتے پر اپنے پیش رئووں کے خیالات اقتباس کئے ہیں اور بے جا تنقید سے گریز کرتے ہو ئے دلیل کی اساس پر اپنا نقطہ نظر ابھا را ہے ۔وہ اکثر مقامات پر ڈاکٹر سلیم اختر اور مشکور حسین یاد سے متفق نظر نہیں آ تے اور بعض نکات پر انہوں نے وزیر آ غا سے بھی اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کا انداز شائستہ اور نکتہ آ رائی شگفتہ ہے ۔وہ تنقید میں تہذیب کے مدار کو قائم رکھتے ہیں ۔میری ناچیز رائے میں یہ باب اس کتاب کا اہم ترین باب ہے اور محمد اسد اللہ کی تنقیدی نظرکی وسعت کو آ شکار کر تا ہے ۔
کتاب کا دوسرا باب مغرب میں انشائیہ کی روایت کے تاریخی مطالعہ کامظہر ہے ۔ انہوں نے مغربی ادب کے قدیم نسخوں میں بکھرے ہوئے انشائیہ کے نقوش تلاش کرنے کے بجائے ہائوسٹن پیٹر،کے قولِ فیصل کو قبول کیا ہے ۔۱۵۸۰ میں جب مونتین نے اپنے تاثرات اور آ راء پر مبنی پہلی دو کتابیں شائع کیں تو انشائیہ (Essay) کی اصطلاح کو پہلی دفعہ مخصوص معانی میں استعمال کیا گیا ۔محمداسد اللہ نے مونتین،بیکن ، ابراہم کاولے ، رچرڈ سٹیل ،جوزف ایڈیسن ،ولیم ہزلٹ ،ڈاکٹر جانسن ،جوناتھن سوفٹ ، چارلس لیمب،گولڈ اسمتھ،آ ر ایل اسٹیون سن ،جی کے چسٹرسن ،ای وی لوکس،رابرٹ لِنڈ اور ایلفا آف دی پلو،کے انشائیہ کے تخلیقی سفر کو جو سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک پھیلا ہوا ہے مناسب کفایتِ لفظی سے پیش کر دیا ہے ۔یہ باب محمد اسد اللہ کے وسیع مطالعہ اور مطالب و معانی کی گرہ کشائی کا آ ئینہ دار ہے ۔
اگلے دو ابواب کا موضوع مشرق میں انشائیہ کا فروغ و ارتقاء ہے ۔محمد اسداللہ کے مطابق انشائیہ کے ابتدائی نقوش ملاوجہی کی نثر کی کتاب ’ سب رس ‘ میں ملتے ہیں جو ۱۶۳۵ کی تصنیف ہے ۔اس کتاب کی اساس پر ہی ڈاکٹرجاوید و ششٹ نے انشائیہ کو مغرب کے بجائے خالص مشرق کی صنفِ ادب قرار دیا تھا۔محمد اسد اللہ نے بھی وجہی کی ۶۱ تحریروں کو انشائیے میں شمار کیا ہے اور انہوں نے ڈاکٹر جاوید وششٹ کی تحقیقی ہی کی تائید کی ہے ۔تاہم انہوں نے انشائیہ کے فروغ کو اٹھارویں صدی میں مرزا اسد اللہ خان غالبؔ اور ماسٹر رام چندر کے بعد سر سید ،محمد حسین آ زاد ، الطاف حسین حالی اور دیگر نومور نثر نگاروں کی تحریروں میں بازیافت کیا ہے ۔یہ دو ابواب انشائیہ نگاروں کی طویل فہرستوں پر مشتمل ہیں تاہم ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی کی رائے میںمیر محمد حسین عطا خان تحسین،رجب علی بیگ سرور،فقیر محمد گویا،مولانا غلام امام شہید ،خواجہ غلام غوث بے خبر اور عبدالغفور شہباز کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا تھا کہ ان کی نثری تحریروں میں انشائی عناصر موجود ہیں ۔میری رائے میں تخلیقی نثر لکھنے والے ہر ادیب کے باطن میں ایک انشائیہ پر داز اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہو تا ہے جس کی نمود لاشعوری طور پر ہو تی رہتی ہے اور وہ اپنے الہامی جملوںسے اپنی تحریروں کو لطافت آ شنا کرتا رہتا ہے چنانچہ انشائی نقوش ہر نثری صنف میں تلاش کئے جا سکتے ہیں اور مشکور حسین یاد شاید اس دلیل پر ہی انشائیہ کوام الاصناف کہتے ہیں ۔ محمد اسد اللہ نے لکھا ہے کہ ’بیسویں صدی کی انشائیہ نگاری شعور اور فن کی گہرائیوں کو سمیٹے ہوئے نطر آ تی ہے ۔‘اور ’گزشتہ صدی کی بہ نسبت اس دور میں انشاپر دازوں کا ایک قابلِ لحاظ طبقہ اپنی فطری صلاحیتوں کو اس صنف میں بروئے کار لایا جس کے نتیجے میں متنوع اسالیب اور انشائی تحریروں کے نت نئے نمونے اردو نثر کے دامن کی زینت بنے ۔‘اس باب میں انہوں نے میر ناصر علی ،نیاز فتح پوری،ٔٔخلیقی دہلوی ،مہدی افادی سجاد انصاری ،فلک پیما ،حسن نظامی ،فرحت اللہ بیگ اور رشید صدیقی جیسے بلند پایہ انشاپردازوں کی نثر کی انفرادی رعنائیوںاور موضوعات کے تنوع کو اجاگر کیا ہے ۔اور ان کی عطا کا اعتراف کیا ہے ۔
عصری انشائیہ کا باب ڈاکٹر وزیر آ غا سے شروع ہوتا ہے جن کی امتیازی حیثیت کو محمد اسد اللہ نے ان الفاظ میں خراجِ تحسین ادا کیا ہے : ’ وزیر آ غاکی شخصیت میں مضمر تخلیقی توانائی اور تنقیدی صلابت نے اردو انشائیہ کو ایک منفرد صنفِ ادب کی حیثیت سے مستحکم بنیادیں فراہم کر دیں ۔وزیر آ غا نے نہ صرف مغربی اصولِ انشائیہ نگاری جو اردو میں متعارف کر ایا بلکہ تخلیقی سطح پر بھی اس صنف میں قدرِ اول کے انشائیے تحریر کئے۔‘انشائیہ کی تحریک کے سلسلے میں انہوںنے وزیر آ غا کی خدمات کے تذکرہ میں لکھا ہے: ’ وزیر آ غا کی ادارت میں شائع ہونے والاادبی جریدہ’ اوراق ،لاہور ، انشائیہ کے فروغ میں پیش پیش رہا۔اسرسالے کے توسط سے نئے انشائیہ نگار اردو ادب میں متعارف ہوئے اور اردو انشائیہ نگاروں کی ایک نئی نسل وجود میں آ ئی ۔ وزیر آ غا اس نسل کے سالار ِ کارواں خیال کئے جاتے ہیں۔‘
مزید بر آ ں محمد اسد اللہ نے وزیر آ غا کے چند انشائیوںکا تجزیہ بھی کیاہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے :وزیر آ غا انشائیہ کے موضوع کو تہذیب و تمدن کے وسیع پس منظر میں رکھ کر ایک وسیع تناظر میں پیش کر تے ہیں ۔ان کے ہاں اظہار، ذات بالواسطہ طور پر اسی حوالے سے ہو تا ہے ۔ ان کے شعور کی جڑیں جس گہرائی تک اپنے تہذیبی ورثہ میں پیوست ہیں ان کی نمی سے انشائی شگوفے برگ و بار لاتے ہیں ۔ان کے انشائیوں میں اظہارِ دانش اور شخصی تاثرات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔۔۔اشیاء اور مظاہر کے علاوہ انشائیہ نگارکی اپنی ذات نت نئے انکشافات کا ذریعہ بنتی ہے ۔‘اس باب میںمحترم مصنف نے غلام جیلانی اصغر ،جمیل آذر، مشتاق قمر ،سلیم آ غا قزلباش ، اکبر حمیدی ،جان کاشمیری ،کامل القادری ،ناصر عباس نیر ،بشیر سیفی اور انور سدید وغیرہ کی انشائیہ نگاری پر تنقیدی و تجزیاتی نظر ڈالی ہے اور ہر ایک کے بارے میں اپنا فنی فیصلہ بھی صادر کیا ہے۔چند انشائیہ نگاروں کے بارے میں ان کے فیصلے ملاحظہ کیجئے جو ان کے مطالعہ کا حاصل ہے ۔
’ شہزاد احمد کا انشائیہ ایک ایسا ریسیور ہے جو کائنات کی قلب کی گہرائیوں سے ابھرتی ہو ئی آوازیں وصول کر کے نشرکر رہا ہے ۔سلیم آ غا قزلباش کے انشائیوںمیں اشیاء کے حوالے سے رویوں تک پہنچنے کا رجحان غالب ہے اس طرح و ہ اشیاء کے بطن میں پوشیدہ ایک غیر مرئی کائنات کی دریافت کا عمل انجام دیتے ہیں ۔‘محمد اسد اللہ نے اس کتاب میں انشائیہ کے فن پر سیر حاصل بحث کی ہے اور مخالفین کی اڑائی ہوئی گرد کو شائستہ تہذیبی انداز میں صاف کر دیا ہے ۔ نظریاتی اعتبار سے یہ اس موضوع پر ایک جامع کتاب ہے جو بھارتی یو نی ور سٹیوں میں نصاب میں شامل ہو نی چاہئے ، تاہم عملی تنقید وتحقیق کے ضمن میں اس کا زمانی مدار ۱۹۹۰ تک کے۳۲ انشائیہ نگاروں تک محدود ہے جب کہ دسمبر۲۰۱۵ کے آ خری دنوں میں اردو انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں یہ سطور لکھی جا رہی تو اردو انشائیہ اپنا مزید تخلیقی سفرطے کر چکا ہے اور متعدد تازہ فکر اور خوش خیال انشائیہ نگار اس لطیف صنفِ ادب کے افق پر نمایاں ہو چکے ہیں ۔توقع کر نی چاہئے کہ محمد اسد اللہ نئے ایڈیشن میں اس کتاب کے پورے زمانی تناظر پر نظر ڈالیں گئے۔
بھارت کے ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے اس کتاب کا خیال انگیز مقدمہ لکھا ہے اور سرِ ورق کی پشت پر ڈاکٹر شرف الدین ساحل کی رائے درج ہے کہ محمد اسد اللہ کی تحقیق کا معیار بلند ہے اور اسے حلقہ ادب میں مقبولیت ملے گی ۔ میری ناچیز رائے میں انشائیہ کی تحقیق و تنقید پر انشائی اسلوب میں یہ کتاب بھارت میں انشائیہ کی تحریک کو فروغ دینے میں معاونت کرے گی ۔اس کامطالعہ اس صنفِ لطیف کے بارے میں افقِ خیال کو روشن کر تا ہے ۔
(ختم شد )