شوپیان// سیدھو شوپیان کی پیلٹ متاثرہ انشاء مشتاق اگرچہ اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکی ہے لیکن اس کا حوصلہ باقی سب متاثرہ لوگوں کے لئے ایک مشعل راہ کی طرح ثابت ہو رہا ہے۔ پندرہ سالہ انشاء ان دنوں اپنے دسویں جماعت کے امتحانات کی تیاری کررہی ہے اور اس کے لئے اس نے دو اساتذہ کی بھی مدد لی ہے اور وہ ہفتہ میں دو روز اسکول بھی جاتی ہے۔ انشاء کے گھر میں دو اساتذہ ہر روز اسے پڑھانے کے لئے آتے ہیں۔ وہ جو بھی سبق پڑھاتے یا سمجھاتے ہیں، انشاء اسے ریکارڑ کرتی ہے اور پھر دن بھر اسے بار بار سن کر زبانی یاد کر کے دوسرے روز اتذہ کو سناتی ہے۔ وہ اساتذہ سے سائنس، اردو ، سوشل سائنس اور انگلش پڑھتی ہے لیکن ابھی ریاضی پڑھنے کے لئے اسے مشکل پیش آتی ہے۔ دو روز اسکول جانے سے اس کی طبیعت میں سدھار بھی آنے لگا ہے۔انشاء کے مطابق اس نے اپنی زندگی کے تمام تر خواب اور امیدیں چھوڑ دی تھیں لیکن پھر اس نے حوصلہ بنا کر دسویں جماعت کے امتحانات کی تیاری کرنے کا ارادہ کیا۔ انشاء نے بتایا کہ اسے ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک لاش بن گئی ہے اور وہ خود کو والدین پر بوجھ محسوس کر رہی تھی۔ انشاء کا کہنا ہے کہ ایک استاد صبح اور دوسرا شام کو گھر آتا ہے اور وہ تمام سبق ایک ٹیبلائٹ جو اسے اتر پردیش کے ڈاکٹروں نے دیا تھا، میں محفوظ کرتی ہے اور دن بھر اور دیر رات تک اسے زبانی یاد کرتی ہے اور وہ امتحانات میں اچھے نمبرات کے ساتھ پاس ہونے کی امید رکھتی ہے ۔ انشاء کے والد مشتاق احمد لون نے انشاء کے اس قدم اور ارادے پر بے حدفخرمحسوس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ وہ دوبارہ تعلیم حاصل کرپائے گی۔ مشتاق احمد نے بتایا کہ انشاء حوصلہ کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس کیاساتذہ بھی بے حد محنت کر رہے ہیں کیوں کہ ایک ایسی بچی، جس کی دونوں آنکھیں بیکار ہو گئی ہیں، کو تعلیم دینا بے حد مشکل کام ہے۔ انشاء کی ماں افروزہ اختر نے بتایا کہ انشاء دن بھر لگاتار موبائیل فون سے سبق یاد کرتی ہے جس سے اس کاذہن مفلوج نہیں ہو رہا ہے بلکہ دن بہ دن سدھار آر ہا ہے۔ انشاء کے ایک استادمظفر احمد نے کشمیر عظمیٰ کوبتایا کہ جب انشاء کے والد نے انہیں انشاء کو پڑھانے کیلئے کہا تو وہ بے حد حیران و پریشان ہوئے لیکن پھر جب انہوں نے یہاں آکر پڑھانا شروع کیا تووہ انشاء کی ذہانت اور لگن دیکھ کر متاثرہوئے نہ رہ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو انشاء اچھی طرح تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ گزشتہ برس جنگجو کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے دوسرے روز سیدھو میں فورسز اور نوجوانوں کے مابین جھڑپ ہوئیں۔ اس وقت انشاء اپنے گھر کے اندربیٹھی تھی لیکن جوں ہی اس نے کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھنا چاہا کہ باہر کیا ہو رہا ہے تو باہر پہلے سے ہی موجود فورسز اہلکاروں نے اس پر پیلٹ چلائے جس سے وہ خون میں لت پت گر پڑی۔ انشاء کے سر اور چہرے پر سینکڑوں پیلٹ لگ گئے جس سے اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ اگرچہ وہ ایس ایم ایچ ایس میں ایک ماہ تک زیر علاج رہی لیکن کچھ سدھار نہیں ہوا۔ جس کے بعد اسے دہلی کے اپالو اسپتال پہنچایا گیا اور یہاں سے ممبئی بھی لے جایا گیا لیکن اس کی بینائی واپس نہ آسکی۔ اگرچہ کئی لوگوں اور انجمنوں نے اس کو آنکھیں دینے کی بھی پیشکش کی لیکن ڈاکٹروں کے مطابق اس کی بینائی واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انشاء ایسی پہلی کم عمر طالبہ ہے جو پیلٹ کا شکار ہوئی۔ ریاستی سرکار نے انشاء کے والد کو ڈرائیور کی نوکری دلائی ہے۔