یہ چند سطور سپردِ قرطاس کر نے کا محرک ۳؍ما رچ ۲۰۱۷ ء کا ’’گریٹر کشمیر‘‘ اخبا ر بنا ۔ اخبار کے پہلے صفحہ پر پیلٹ متاثرہ انشاء ، اُس کے والد محمد مقبول اور اس کی ماں کی پژمردہ تصویریں شائع ہوئی ہیں جو بزبان حال بہت کچھ سنادیتی ہے۔ انشاء کی آنکھو ں پر کا لی عینک چڑھی ہے کیونکہ اب اس کے پاس بینائی کی نعمت نہیں رہی ہے ۔ وقت کے غاصب ہاتھوں نے اسے انتقاماً بینائی سے محروم کرڈالا۔ تصویر میں یہ معصومہ ، جسے دل پر پتھر رکھ نابینا لکھ رہاہوں ، بے بسی اور بے کسی کی مو رت بنی اپنے دائیں جانب کھڑے والدین (جن کی لا چاری اور کسمپرسی دیدنی ہے ) کے تئیں ہمہ تن گو ش نظر آتی ہے۔ اخباری رپورٹ سے مترشح ہو تا ہے کہ گرین لینڈ اسکو ل کی 2016ء کی دسویں جماعت کی طا لبہ انشاء مقبول نے جو نہی سنا کہ یکم مارچ ۲۰۱۷ء کو گزشتہ سال کی عومی احتجاجی تحریک کے بعد اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں، وہ بے چینی سے اس دن کا انتظار کر نے لگی جب وہ کتابوں کا بستہ لئے اپنے اسکول کی جانب گامزن ہو ۔ اس نے جب اپنے والدین سے کہا کہ وہ خوشی خوشی اسکو ل جا نا چا ہتی ہے، تو ماں باپ پر اندر ہی اندر کیا گزری ہوگی ،میرا قلم اس کی عکاسی کر نے سے معذور ہے ۔گزشتہ سال یکم ما رچ کی انشاء مقبول اسکو لی وردی میں ملبو س کتابوں کا بستہ اُٹھائے گھر والوں سے دعائیں لے کر اپنی سہیلوں کے ساتھ اسکول گئی مگر وہ ا س وقت انشاء کے نینابیناتھے مگر آج جب وہ والدین سے اسکو ل جا نے کی خو اہش کا اظہار کرتی ہے اس کے نینوںمیں پڑھائی لکھائی کے خواب ہی نہیں بلکہ چھروں کا درد بھی ہے اور نابینائی کا کرب بھی۔ اپنی معصوم خو اہش کو اوالدین کی رضا مندی اور ان کے مدد کے بغیر پورا کر نے سے اب وہ کلی طور قاصر ہے۔ والدین نے جوں توں معصوم انشاء کی معصوم خواہش کا ٹال مٹول کیا لیکن دوسری مارچ کو وہ اپنی چچا زاد بہن بسما ء کے ہا تھوں میں ہاتھ ڈال کر اسکو ل بس میں چڑھ گئی۔ اس دل فگار اور اعصاب شکن منظرکو دیکھ کر انشاء کی ہمسائیگی میںتمام ما ئیں اور بہنیں آنکھوں میں آنسو ؤںکا سیلاب لئے ہو ئے مضطرب تھیں انشاء کی غیر معمولی ہمت کی داددیں یا قسمت کی گردش پر آنسو بہائیں ۔ با لآخر گرین لینڈ اسکول پہنچ گئی۔اسکول کے پرنسپل جو انشاء کے اسکول آنے کی معصوم خو اہش سے پہلے ہی آگاہ تھے، کا کہنا تھا کہ ’’ انشاء کو مدت مدید کے بعد اسکول حا ضر ہو نے کا منظر انتہائی مشکل تھا ۔ مشکل کیو ں؟عیاں راچہ بیاں۔ یہ ما ضی کی انشاء اور حال کی انشاء میںا تنا فرق دیکھ کر ہر ایک کا دل وجگر پاش پاش ہورہا تھا۔ پندرہ سالہ انشاء کے تحت الشعور میں پیلٹ متاثرہ ہونے سے قبل اپنی ہم جما عت سہیلیوں کے ساتھ کلاس روم سے لے کر وقفہ نماز اور ظہرانہ جیسی مصروفیات، سہیلیوں کے ساتھ ہنسی مذاق، اسکول کے صحن میں اچھلنے کو د نے کے دلآویز مناظر کی جھلکیاںضرور موجود ہوں گی۔افسوس !صد افسوس! کہ وردی پوش سورما اپنے لاؤ لشکر کو خون خواری کو افسپا کے منہ زور سواری پر چڑھا کر قوم کا شمیر کی بہت ساری معصوم انشاؤں پر پیلٹ وار سے بینا ئی چھین کر اپنی سب سے بڑی جمہو ریت کا دعویٰ سچ کر دکھارہے ہیں ۔ آج کی مفاد پرست اور مسلم کش اندھی بہری دنیا خواتین کے حقوق کا دھو م دھام کے ساتھ چرچا کرتی ہے اور ہمارے سروں پر مسلط بڑ بولے خو اتین کے حقوق کوہر صورت تحفظ دینے کی دھواںدھار تقریریں کر تے ہیں مگر کشمیر کے گلی کوچے ، گاؤں قصبے ، دشت وجبل گواہ ان کی تردید کرتے ہیں اور اعلان کر تے ہیں کہ ان کے ہاتھوں انشائیں صرف دکھ اور تکلیفیں اٹھاتی رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر معصوم انشاء کی بینا ئی کس گناہ کی پادش میں چھین لی گئی؟اس کا کیا قصور تھا؟ بات ذرا وسیع تر تناظر میں کریں تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا بھارت کی کشمیر پالیسی کیا یہی ہے کہ یہاں کے نئی پود کو یہی کڑی سزائیں دی جائیں کی وہ جیتے جی مرجائے؟ کشمیر کا ہر فرد بشر بجز اقتداری سیاست کے دیوانوں کو پتہ ہے کہ انڈیا کی کشمیر پالیسی انہی ہاتھوں سے بنتی اور نافذ ہوتی ہے جو معصوم انشائکی آنکھوں کو ٹارگٹ بنا کر اس کی بینا ئی چھین گئے۔ ایسا کرتے ہوئے قوم کا شمیر کے معصوم بیٹوں اور بیٹیوں کے تئیں حکومت ہند کی پالیسی دو اور دو چارکی طرح مبرہن ہوکر بتاتی ہے کہ بھارت کو کشمیر کے قدرتی وسائل اور حسین منا ظر سے پیار ہے اور یہاں انسانی کی آبادی سے بیر ہے۔ فو جی سربراہ کا کشمیری مظاہرین کے نام دھمکی(کشمیر عظمیٰ،۱۶فروری۲۱۰۷) ، نہتے کشمیریوں کو زیر کر نے کے لئے پانچ ہزار پیلٹ گنوں کی خریداری( کشمیر عظمیٰ،۳ ما رچ۲۱۰۷) اسی پالیسی کے اجزاء ہیں۔ دوعملی یہ کہ گزشتہ سال عوامی تحریک کے دوران بھارتی وزیر دا خلہ راجناتھ سنگھ نے سرینگر کی پریس کا نفرنس میں پیلٹ گنوں کے استعما ل پر پا بند ی کا اعلان کیا تھا مگر سب زبانی جمع خرچ ثابت ہوا۔ نہتے کشمیر یوں کے تئیں بھا رت کیا سوچ رکھتاہے ،اس پر بھاجپا لیڈر اور سابق وزیر خا رجہ یشونت سنہا نے بھی کئی بار اظہار افسوس کیا (گریٹرکشمیر،۵ مارچ۲۱۰۷)۔ اس مظلوم قوم کے تئیں انڈین پالیسی نے ماضی میں آسیہ اور نیلو فر کی مہیب داستان کی شکل اختیار کرلی اور اب بشمول انشاء ہمارے نو نہال اور کم سن بچوں کی بینائیاں چھین لی جارہی ہیں۔ شہر خاص سری نگر کی ایک اور بیٹی اقراء بشیر بھی حال میں اسی قہرانگیز پالیسی کی بھینٹ چڑھ کر زخم زخم ہوگئی۔ بہر کیف حا لات کا فوری تقاضا یہ ہے کہ بھارتی اکابرین کشمیر میں نو شتہ ٔدیوار بغور پڑھ کر نئی پود کے خلاف جنگ بند کر کے فوراً سے پیشتر کشمیر حل کے لئے کمر ہمت کس لے تاکہ انسانی جانوں کی بے حرمتی اور امن و امان کی غارت گری سے خطہ ٔ کشمیر کو نجات ملے اور برصغیر میں بقائے باہم اور محبت و انسانیت کے چراغ جل کر ماں بہن بیٹی کو جینے کی راہ بھی ملے اور چاہ بھی۔