ریاستی حکومت نے نشہ آور ادویات کے استعمال کی تیزی کے ساتھ پھیلتی ہوئی وباء کے سماج پر اثرات سے نمٹنے کےلئےریاست کے چیف سیکریٹری کی قیادت میں ایک 16رکنی نگرانی و نفاذ کمیٹی قائم کرکے بروقت اقدام کیا ہے۔ کمیٹی میں تمام ہسپتالوں و کشمیر اور جموںصوبوں کے پولیس سربراہان کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سماجی و مذہبی حلقوں کے نمائندگان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ کمیٹی مختلف سمتوں سے اس خوفناک مسئلے کے ضروری پہلوئوں کا تحلیل و تجزیہ کرکے اس کے اثرات سے تحفظ کےلئے راہیں تلاش کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ فی الحقیقت حالیہ ایام میں ریاست کے اندر منشیات کی وبا نے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا جب پولیس کی طرف سے کسی نہ کسی جگہ کسی نہ کسی ایسے شخص کو دھر لیا جاتا ہے جو ذلّت کے اس کاروبار سے منسلک ہو۔ لیکن اس کے باوجود منشیات کے ساتھ منسلک مافیا کی سرگرمیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ چند برس قبل تک کشمیری سماج اس خجالت سے مکمل طور ناآشنا تھااورعصری دور میں استعمال ہونے والی منشیات کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔چینیوں، جنکی شناخت ہی افیم خوری سے عبارت تھی ، کو تودہائیوں قبل اس لت سے نجات مل گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اس دلدل میں پھنستے ہی جارہا ہے اور یہاں ہرگزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کا کاروبار میں فروغ پارہا ہے بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق 16سے 30برس کے درمیانی عمروں کے لوگ اس خباثت کی طرف زیادہ آسانی سے راغب ہوجاتے ہیںاور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق منشیات کے عادیوں میں 11 سے 20برس تک کی عمر کے بچوں کی تعداد دو تہائی ہوتی ہے۔آج کل اکثر جو خبریں آتی ہیں ان میں چرس، گانجے، ہیروین، پوست اور نشیلی ادویات کی ضبطیوں کا ذکر ہوتا ہے اور یہ ضبطیاں لکھن پور سے لیکر اُوڑی تک کی جاتی ہیں۔ اس سے منشیات کے استعمال کی وسعتوں کا اندازہ ہو سکتا ہےکہ ہم کس طوفانِ بدتمیزی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ یہ ایک حیران کن امرہے ایک ایسی ریاست میں جہاں تقریباً40فیصد غذائی اجناس بیرونِ ریاست سے درآمد کئے جاتے ہیں وہاں زرعی اراضی کا ایک بھاری حصہ منشیات کی کاشت کے لئے استعمال ہوتاہے اور یہ سب کارروائی انتظامیہ کی ناک کے نیچے انجام پاتی ہے ۔ منشیات کی کاشت کوئی چند گھنٹوں یا دونوں کے دوران ہیر پھیر کی کارروائی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسی کاشت میں ایک مکمل فصلی موسم درکارہوتاہے اور اس دوران انتظامیہ کے متعلقہ محکمے کہاں خوابِ خرگوش میں پڑے رہتے ہیں،یہ ایک بہت بڑا سوالیہ ہے ۔ وادی میںسماج کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹنے والے اس دھندے کے لئے کتنی مقدار میں زرعی اراضی استعمال ہورہی ہے اس کے متعلق مختلف محکموں کے پاس موجود اعداد وشمار نہ صرف متضاد ہیں بلکہ مشکوک بھی ہیں ۔ محکمہ آبکاری کے ذرائع کا ماننا ہے کہ وادی میں کم ازکم 24ہزار کنال اراضی پر منشیات کی کاشت ہوتی ہے ، جس سے اربوں روپے مالیت کی مختلف منشیات تیار کی جاتی ہیں جبکہ محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق یہ رقبہ نصف سے بھی کم ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟اس بحث میں پڑے بغیر منشیات کے زیرکاشت اراضی کاحجم بذات خود ایک انتہائی تشویشناک امرہے کیونکہ بالآخر اس زمین سے اُگنے والا زہرصرفے کے لئے بالآخر سماج میں ہی راہ پاتاہے ، جس سے نسلوں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں ۔ آج دُنیا بھر میں نئی نسل کے اندر منشیات کے استعمال سے تباہی کی جو خوفناک صورتحال نظر آرہی ہے،اُس سے ساری اقوام متفکر ہیں اور اس کے انسداد کے لئے مختلف سر توڑ کوششیں کررہے ہیں ،لیکن یہ افسوس کا امرہے کہ ہماری ریاست میں اس حوالے سے نہ صرف حکومت بلکہ سماج کے اندر بھی انتہائی سطح پر بے حسی پائی جارہی ہے ۔ جب یہ فصلیں تیار ہوجاتی ہیں تو محکمہ آبکاری اور پولیس کی طرف سے میڈیا کے ذریعہ روزانہ سینکڑوں کنال اراضی پر بھنگ کی فصلیں تباہ کرنے کی تشہیر بڑھ چڑھ کر کرائی جاتی ہے لیکن جن ایام میں یہ فصلیں کاشت کی جاتی ہیں اور ان کی پرورش وپرداخت کیلئے وہی محنت جو کہ ایک حلال فصل کے لئے ضرورت ہوتی ہے ، اُٹھائی جاتی ہے ، اُس دوران ان محکموں کی جانب سے کبھی عوام کو کسی قسم کی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ کیا یہ دانستہ عمل ہے یا پھر انتظامیہ اُسی وقت جاگتی ہے ،جب یہ حرام فصلیں لہلہانے لگتی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے بھی غالباً متعلقہ محکموں سے یہ جواب طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے کہ ایک مکمل فصلی موسم کے دوران اس انسان دشمن کام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ اس وقت غذائی اجناس کے حوالے سے جس قلت کا سامناہے ماہرین کے مطابق اس مذکورہ رقبہ سے اس قدر اجناس حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ یہ تفاوت دس فیصد تک کم ہوسکتاہے ۔ کسی بھی مہذب قوم کے لئے یہ شایان شان نہیں کہ وہ حلال اجناس کی قلت کے ہوتے ہوئے حرام اجناس پیدا کرنے پر اپنی قوتیں صرف کرے، جس سے نہ صرف سماج کی بنیادیں کھوکھلی ہورہی ہیں ، بلکہ نئی نسل تیزی کے ساتھ تباہی کی کگارکی جانب پہنچ رہی ہے۔دوسری جانب ادویات کی خرید و فروخت کے کام سے منسلک شعبۂ کےکچھ بد عنوان عناصربھی مختلف امراض کےلئے استعمال ہونے والی ایسی ادویات ،جو بے خودی یا نیم خوری کےلئے استعمال ہوتی ہیں، بغیر نسخوں اور چھان بین کے انہیں صرف اس لئے فروخت کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مال کما سکیں۔سماج کے اندر پنپنے والی بے شمار بیماریوں کا سبب اسی دھندے سے حاصل ہونے والی غیر قانونی دولت ہے ، جو سماجی کو ایک نئی اور خطرناک طبقاتی کشمکش کی جانب دھکیل رہی ہے ۔ اس خوفناک صورتحال پر فوراً جاگنے کی ضرورت ہے ۔ محکمہ آبکاری، پولیس کے پاس اُن علاقوں کا ریکارڈ موجود ہے ،جہاں منظم طریقے سے منشیات کی فصلیں تیار کی جاتی ہیں ۔اب جب کہ بھنگ کی فصلیں تیار ہورہی ہیں اور آنے والے ایام میں ان سے زہریلا مواد برآمد کرنے کی منظم کارروائیاں شروع ہوں گی تو پولیس اور انتظامیہ پر یہ فرض عائید ہوتاہے کہ وہ فوری ہوش میں آکر اس سماجی ناسور کو جڑ سے اُکھاڑپھینکنے کے لئے حرکت میں آئیں ۔ اس کےساتھ ساتھ صحت عامہ کے محکمہ کو بھی بیدار ہو کر اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ جائز ادویات کس طرح منشیات کے طور پر کھلے بازار میں فروخت کی جاتی ہیں اور جو لوگ ایسے کاروبار میں ملوث ہوں انہیں قرار واقعی سزاء ملنی چاہئے۔ چونکہ حکومت نے اس مہم میں سماجی و دینی حلقوں کو بھی جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا ان حلقوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ مسئلے کا جائزہ لیکر سرکار کو تعاون فراہم کریں۔