محمد امین اللہ
دنیا کا ہر انسان چاہے وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو یا لا مذہب ہو ۔ خدا پرست ہو یا خدا کے وجود کا انکاری وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسے ایک مقررہ وقت پر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے ۔ جو بے خدا ہیں وہ تو سدا جوان رہنے اور اپنی عمر بڑھانے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔ مذہب پرست انسان بالخصوص مسلمانوں کا ایمان ہے کہ وہ مقررہ وقت پر اس دنیا سے جانا ہے وہ ایک سکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں جی سکتے ۔ مسلمانوں کو یہ بھی یقین ہے کہ تقدیر میں موت جیسے اور جہاں لکھی ہے اسی طرح واقع ہوگی اور تقدیر میں لکھی ہوئی جگہ ہی دفن ہوگا ۔اس کا ایمان ہے کہ ’کل نفس ذائقہ الموت‘ ۔ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اس کا یہ بھی ایمان ہے کہ اللہ کی ذاتِ کے سوا ہر ذی روح کو فنا کی گھاٹ اترنا ہے اور یہ دنیا بھی قیامت کے دن فنا ہو جائے گی ۔ قیامت کے برپا ہونے اور دنیا کے فنا ہو جائے پر تو ملحد سائنس دانوں کو بھی یقین ہے ۔ اگر یقین نہیں ہے تو اس بات پر کہ مر کر دوبار زندہ ہوں گے اور دنیا میں گذاری ہوئی زندگی کا حساب دینا ہوگا اور نیکی و بدی کی بنیاد پر اللہ کی بخشش اور خوشنودی کے بعد جنت اور جہنم میں ڈالے جائیں گے جو ابدی قیام گاہ ہوگی ۔ عقیدہ آخرت کا ناقص تصور اور انکار انسان کی غفلت کا سبب ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں اپنے نفس کا بندہ ہوکر جو جی میں آتا ہے وہ کرتاہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ جتنے مذاہب کے ماننے والے ہیں ان کا عقیدہ آخرت ناقص ہو چکا ہے ،لہٰذا وہ دنیا کی زندگی میں اس کی فکر نہیں کرتے اور اپنی نفسانی خواہشات کے تابع زندگی گزارتے ہیں ۔ لیکن تمام دیگر مذاہب کے ماننے والے یا لا مذہب لوگوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن مجید ، احادیث نبویؐ اور تعلیمات اسلامی اور شریعت مکمل طور پر محفوظ ہیں اور شاید ہی کوئی مسلمان چاہے وہ جتنا بھی بے عمل ہوگا ،وہ عقیدہ آخرت سے انکار نہیں کر سکتا ۔ قبر اور حشر کے مرحلے کا منکر ہو ہی نہیں سکتا، اسے معلوم ہے کہ جیسے ہی وہ عقیدہ آخرت کا منکر ہوگا یا اس پر ذرا سا بھی شک و شبہ کرے گا، دائرے اسلام سے خارج ہو جائے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود آج مسلمانوں کی اکثریت دین سے بے زار کیوں ہے اور آخرت کی پکڑ سے غفلت میں مبتلا کیوں ہے ،یہی اس تحریر کا موضوع ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو بڑا پُرکشش بنایا ہے اور انسانی نفس کی کمزوری یہ ہے کہ یہ اپنی ضروریات زندگی سے ہٹ کر اس دنیا کی ہر پُرکشش چیز کو پانے کی آرزو رکھتا ہے ۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا،انسان کو اگر ایک سونے کا پہاڑ مل جائے تو وہ دوسرے کی خواہش کرتا ہے اور دوسرا مل جائے تو تیسرے کی ،انسان کی خواہشات تو قبر کی مٹی سے ہی بھریں گی ۔ علامہ اقبال نے فرمایا ؎
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الہ الااللہ
’’یہ مال اور بیٹے دنیا کی زینت ہیں ،باقی رہنے والے اللہ کے نزدیک نیک اعمال ہیں اور ثواب کی امید ہیں ۔‘‘( الکہف 46.)سورہ آل عمران آیت 14 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چیدہ گھوڑے ،مویشی ، زرعی زمینیں یہ سب چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، لوٹنے کا اچھا ٹھکانہ تو اللہ کے پاس ہے ۔
غفلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سب کچھ جانتے ہوئے اور دن رات دنیا بھر کے نامور اور دولت مند لوگوں کے انجام کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی اس لئے نفس کا بندہ ہوکر رہ جاتا ہے کہ وہ آخرت پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے ۔ حالانکہ وہ شہنشاہوں کے مقبروں کی سیاحت بھی کرتا ہے، اس نے اہرام مصر کا نظارہ بھی کر لیا اور اب تو خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون کی لاش بھی نشان عبرت کے لئے عجائب گھر میں موجود ہے۔ انسان کی زندگی دھوپ چھاؤں کی طرح ہے کبھی دُکھ کبھی سُکھ ۔ کبھی تندرستی تو کبھی بیماری کبھی غربت تو کبھی فراخی ۔ اس لئے فرمایا گیا کہ جو لوگ مصیبت میں صبر اور فراخی میں شکر ادا کرتے ہیں اللہ ان سے خوش ہوتا ۔
Life is a journey from birth to death. It has many events some are horrible and some are pleasant. Never be disheartened face the challenges of your life with a smile.
ہر شخص کی کم و بیش یہی کہانی ہے مگر آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں خود غرضیوں نے ایسا معاشرتی ڈھانچہ تیار کر دیا ہے کہ پرندوں کے پر نکلے ، والدین اکیلے رہ گئے ۔
امریکہ ، یورپ اور نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں کوئی شخص اپنے بوڑھے والدین کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا بلکہ اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیتا ہے، ہفتہ وار یا مہینے میں ملاقات کر لے تو بڑی بات ہے ۔ لہٰذا وہ شخص بڑا بد نصیب ہوگا جو اپنی اولاد کے لئے اپنی آخرت کھوٹی کر لے ۔
انسان کی زندگی محدود مگر نا معلوم ہے مگر آخرت کی زندگی لا محدود اور معلوم ہے ۔ بچے ، جوان اور بوڑھے روڑانہ مرتے ہیں اگلے لمحے ہمارے ساتھ کیا ہوگا ہمیں نہیں معلوم مگر موت کے بعد قبر اور حشر میں جو کچھ ہوگا ہمیں بتایا جا چکا ہے جس کا دار و مدار دنیاوی اعمال سے منسوب ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، نیک لوگوں کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دی جاتی ہے اور گناہ گاروں کی قبر جہنم کے گڑھے میں سے ایک گڑھا ۔ یہ آخرت کی پہلی منزل ہے جو یہاں کامیاب ہوا وہ میدان حشر میں بھی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ۔شاہ و گدا سب کا انجام لٹھے کا کفن اور دو گز زمین بس !ساٹھ پینسٹھ برس بس ۔ علامہ اقبال نے زندگی کی حقیقت اور بے ثباتی اچھوتے انداز میں پیش کی ہے ۔ہم روزانہ کسی نہ کسی کو اپنے کاندھوں پر لے جا کر کسی نامعلوم قبر میں دفن کرتے ہیں مگر ہمارے کاندھوں پر جانے والا یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ تم بھی ایک دن اس انجام سے دوچار ہونے والے ہو۔زندگی کی بے ثباتی کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان اس لئے غفلت میں پڑا رہتا ہے کہ اس کو آخرت کی فکر نہیں ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’اے لوگو !کس چیز نے تم کو اپنے رب سے غفلت میں ڈال رکھا ہے جس نے تم کو نک سک کے ساتھ جیسا چاہا پیدا کیا، در اصل تم آخرت کو جھٹلاتے ہو ۔‘‘( سورہ انفطار )
جس دن ہمیں اپنی زندگی کی بے ثباتی کا احساس ہو جائے گا ہم ہنسنا بھول جائیں گے ۔