ڈاکٹر منظور آفاقی
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عضویات نامہ کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرنے اور اعلیٰ تر صفات سے زندگی کے مختلف مدارج ومنازل میں سرفراز کیا ہے۔خالقِ لم یزل کو اگرچہ انسانی وجود کا صرف یہی ایک مقصدکارفرما تھا کہ وہ دنیا میں اس کی کبریائی بیان کی جائے۔لیکن اسی وجود کو زندگی کے آخری مرحلے تک لے جانے کے لیے انسان کو مختلف نشیب وفراز سے گزرنا پڑ تا ہے۔انسان کو اپنی زندگی کے داخلی اور خارجی نشاط انگیزی کے لیے روحانی اور جسمانی غذاؤں کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔جسمانی غذاؤں کی عدم دستیابی سے اس کا جسم کمزور اور لاغر ہوسکتا ہے اور اسی لیے اپنے جسم کی تندرستی کے لیے چائے،پانی اور دیگر خورد و نوش کی چیزوں کا سہارا لے کر اپنے جسم کو سڈول بنائے رکھتا ہے۔لہٰذا ایک انسان کو اپنے وجود کے تئیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔یعنی انسان کو روزمرہ کی زندگی میں اپنے حقیقی محبوب کی حمدوثنا کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کی صحیح نشوونما کے لیے صاف اور فرحت بخش غذاؤں کاانتخاب کرنا بھی ضروری ہے۔کیونکہ انسانی صحت کی صحیح رنگ وآب کو قائم رکھنے کے لیے اچھی،صاف ستھری ،ملٹی وٹامن اور متوازن غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہر آئینہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان جیسے اشرف المخلوقات کو جسم کی تازگی کے لیے قوتِ ہاضمہ عطا کیا ہے ۔ایسے قوتِ ہاضمہ کا عالم یہ ہے کہ وہ بیک وقت سبزی اور گوشت کو منہضم کر تا رہتا ہے۔اگرچہ آج کل دنیا میں کثرت آبادی کا غذا سبزیوں پر ہی مشتمل ہے لیکن ہمارے دین ِ اسلام میں ہمیں مختلف حلال جانوروں کاگوشت استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے،بلکہ ہم بناء کسی دشواری کے حلال شدہ جانوروں کا گوشت استعمال کرکے اپنے جسم کو تروتازہ رکھ سکتے ہیں۔
ان ہی حلال ِطیب جانوروں میں مرغی کا گوشت کھانابھی ایک معمول سا بن گیا ہے۔گویا آج دنیا میں ہر مذہب وملت کے لوگ مرغی کے گوشت کو اپنے خوش ذائقہ کھانوں میں شمار کرتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں برائلر مرغیوں(Broiler Chicken) کا دنیا میں آنا شاید ہمارے لئے ایک بڑا احسان ہے۔کیونکہ دیسی مرغیوں کے کم ہونے اور دنیا کی آبادی بڑھ جانے سے ایسا طریقہ کا ر سرانجام دیا گیا ہے۔انسان کی غذائی ضروریات کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے ان پولٹری فارموں کو وجود میں لایا گیا ہے۔تاکہ دیسی مرغیوں کے مقابلے میں پولٹری کے ان فارموں میں کم سے کم وقت میں بڑی اور تازہ مرغیوں کو بنائے جائے۔ایسے امور انجام دینے سے ایک تو دنیا کی معاشی حالت مضبوط ہو جائے گی اور دوسری جانب روزمرہ کی غذائی ضرورتوں پر بھی قابو پایا جائے۔ہمارے کھانوں میں یہ چکن کاگوشت کہیں بریانی،قورمے یا کسی اور ڈش کے کھانے میں استعمال کی جاتی ہے۔بظاہر اس میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا لیکن یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ چوزہ صرف اور صرف پینتالیس (45)دن میں ہی ایک صحیح وسالم مرغی بن جاتی ہے۔اس کے برعکس اگر دیسی مرغی کی بات کی جائے تو اس کا چوزہ چھ یا اس سے زیادہ وقت کے اندر مکمل ہوتا ہے۔سائنسدانوں کو یہ بات اطمینان بخش لگی کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ صحت مند گوشت حاصل کیا جاسکتا ہے۔دوسرے معنوں میں اگر دیکھا جائے تو ا س قسم کے گوشت میں کولیسٹرول (Cholesterol)یعنی چربی کی مقدار کم ہوتی ہے۔اس کے عوض ڈاکٹروں کی جانب سے بہت سارے مریضوں کو ایسی غذا کھانے کی سفارش کی جاتی ہے۔فی زمانہ اگر ان مرغیوں کا خوراکی یعنی(Diet)کی بات کی جائے،آپ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہو گےکہ ان کی فیڈ (Feed) میں سٹیرائڈز(Steroids)،ہارمونز(Harmone) اورکمیکل(Chemical)جیسے مضر اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ان کی غیر فطری افزائش ہوتی ہے جو حفظانِ صحت کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔اس کے علاوہ ان کی فیڈ (Feed) میں مختلف جانوروں کا خون،انتڑیاں ،چربی اور مردہ جانوروں کا گوشت بھی کھانے کو دیا جاتا ہے۔اس بات کا اندازہ تب لگایا جاسکتا ہے جب ہم کسی پولٹری فارم میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان چوزوں کے اندر چلنے کی صلاحیت بالکل بھی نہیں ہوتی ہے۔بلکہ انھیں صرف اور صرف اس چیز کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ یہ چوزے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ وزن بنائیں۔اس کے مقابلے میں اتنی ہی عمر کے دیسی چوزے کو ایک گھرکے سبھی افراد بھی پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو جائیں گے۔مجھے آج بھی وہ منظر آنکھوں کے سامنے رقص کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ جب ہم بچپن میں اپنے گھر کے چوزے کو پکڑنے کے لیے کافی جدوجہد کرتے رہتے تھے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کل کے مصنوعی آلات سے تیار شدہ مرغیوں میں نہ وہ پھرتی ہوتی ہے اور نہ ان کی نشوونما فطرت کے عینِ مطابق کی جاتی ہے۔ان ہی سٹیرائڈز پر پلنے والے جانوروں کے گوشت کی بات کی جائے تو ان کی کثرتِ استعمال سے ہمارے جسم کے اندر بہت ساری بیماریوں کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے،جو آہستہ آہستہ ایک مہلک بیماری میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مرغیوں کے گوشت سے انسانی جسم کے اندر بہت ساری بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔
۱۔مذکورہ بالا مرغیوں کا گوشت مدافعتِ نظام پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور انسان کی ہڈیوںکا بَربُرا پن ہو جاتا ہے۔
۲۔معاشرے کے اندر بچے اور بچیوں کا قبل ازوقت بالغ ہو جانا ،جس سے معاشرے کے اندر کچھ سنگین عزائم کا پیدا ہونا قرین قیاس سے خالی نہیں ہے۔
۳۔مردوں میں جنسی کمزوری(Sexual Weakness)اور عورتوں کی ماہواری میں بے ترتیبی(Menstrual Disorder)کے مسائل کے خدشات بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔
اس بات کا صحیح اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں ایک تحقیق کے مطابق ایک جریدہ جس کا نام The American Journal Of Medicineمیں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ (Chicken Nuggets)کے استعمال میں انتڑیاں،ہڈیوں کا چورہ اور چربی جیسی چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔آج کل ان (Chicken Nuggets)کا استعمال بچوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اسی تحقیق کے مطابق اس میں پروٹین صرف پندرہ سے بیس فی صدی ہوتا ہے باقی سارا کچرا ہوتا ہے،اور گوشت کے معیاری ہونے میں بھی کوئی جوازپیش نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے ماہرین کے مطابق اس کا شمار مضرِ صحت چیزوں میںہی کیا جاسکتا ہے۔ایسی غذاؤں سے اپنے آپ اور اپنے بچوں کو ہر حال میں دور رکھنا چاہیے۔
مذکورہ تحقیق کی رو سے اس بات کا خدشہ بھی ضرور ہوتا ہے کہ مرغیوں کا فضلہ(Poultry Litter)کو گائے ،بھینس اور دیگر چوپایوںکی (Cattle Feed)میں استعمال ہوتا ہے۔لہٰذا ہمیں معاشرے میں ایسے بُرے اور زہرقاتل چیزوں کے زیادہ استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اگرچہ اب ہم ان چیزوں کے کھانے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ہمیں ان کے وافر مقدار کے استعمال سے اپنے آپ اور معاشرے کو بچانا چاہیے تاکہ ہم اپنی زندگی کو فطرت کے عین مطابق ہی گزاریں۔یہاں اس موضوع کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیںبلکہ اس کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے کہ انسان کو ہمیشہ فطرت کے قریب رہنے میں ہی فائدہ ہے۔جتنا آپ فطرت سے دور ہوتے چلے جائیںگے آپ کے لیے پیچیدگیاں اتنی زیادہ بڑھ جائے گی۔لہٰذا فطرت کو اپنانے میں ہی بہتری اور صحت ہے اور ہمیں ہر حال میں فطرت کے ساتھ رہنا چاہیے تاکہ ہم اپنی روزمرہ زندگی تندرست اور سڈول جسم کے ساتھ گزاریں۔
رابطہ۔6005903959