اپنے جس دشمن کو آپ پہچانتے ہیں اور اس کی تدبیروں سے با خبر ہو جاتے ہیں،اس کے شر و فتن سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے آپ کچھ نہ کچھ صورتیں اورطریقے بھی آزما لیتے ہیںلیکن اگر دشمن چھپا ہوا ہو اور اس کی خفیہ تدبیروں کا آپ کو پتہ نہ چلے تو آپ کے لئے زیادہ نقصان اُٹھانے کا اندیشہ رہتا ہے۔یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے کیونکہ یہ ہماری زندگی کو برباد کرنے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اگر شیطان ہمیشہ رہنے والا شرپسند اور فتنہ پرور ہے توپھر یہی دشمن کیوںہماری نظروں سے چھپا ہوا بھی ہے اور اس کی تدبیروں کا علم اور اس کو ہرانے کی فکر مندی بھی ہمیں کم ہی ہو تی ہے۔ روئے زمین کے تمام انسان کا سب سے بڑامسئلہ اسی دشمن کی زد سے اپنے آپ کو بچا نا ہے۔یہ مسئلہ کئی وجوہات سے انتہائی اہم ترین ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر انسان اپنی نادانی ، غفلت اور اپنے نفس کی اندھی خواہشات سے مجبور ہو کر اپنے اس سب سے بڑے دشمن کو مات دینے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتاہے،کیونکہ یہ کھلا دشمن اس کی بربادی کے لئے جو صورتیں اور بہانے تجویز کرتاہے ان میں انسان کے لئے وقتی طور بڑی لذّات ہوتی ہیں۔انسان کا نفس چاہتا ہے کہ نفس امارہ کو ہر طرح سے چھوٹ ملے کہ وہ جو چاہے کر گزرے ، کوئی اسے روکے ٹوکے نہیں ۔اسی لئے انسان ہر وقت اپنی اخلاقی اور اصلاحی ذمہ داریوں اور فرائض سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے شیطان کے بہکاوے میں آکراپنا حال ومستقبل سنوارنے کا دھیان رہتا ہے اور نہ اپنے کرموں کے انجام پر غور کر نا اُسے پسند ہوتاہے ۔چناںچہ ہمارا سب سے بڑا دشمن ابلیس ہماری تباہی وبربادی کے لئے جو صورتیں اور ذارئع اختیار کرتا ہے ان میں نفس کی تمام خواہشات کی تکمیل بہت میٹھی لگتی ہے اور اس طرح سے یہ دشمن پورے اطمینان سے اور بغیر کسی اڑچن کے اپنا منفی کام کرتا رہتا ہے۔ہمارے مشترکہ دشمن شیطان کا حال حضر ت آدمؑ تاایں دم ایسا ہی ہے۔یہ ہمارا لافانی دشمن ہے جس کی چالیں ور مکر وفریب اور جعل سازیاںبڑی مزے دار ہوتی ہیں اور اس کے بدخواہانہ مشوروں میں ہمارے نفس کے لئے لذتیں ہی لذتیں پنہاں ہیں ۔
اللہ نے ہمیں قبل ا زوقت شیطان کی تمام چالوں اور دھوکہ بازیوں سے خبردار کر دیا ہے ۔ اس سلسلے میں رب کریم نے ہمارے نفع او رنقصان کے تمام پہلوؤں کو ہمارے سامنے کھول کررکھ دیا ہے ۔ البتہ دنای کی آزمائش گاہ میں اللہ نے ہمیں آزاد چھوڑا ہے کہ ہم اللہ کی مانیں یا ابلیس لعین کے پیچھے چلیں ۔ فیصلہ ہمارا ہے :دل یا شکم ۔ اللہ کی مشیت سے اب یہ ہماراکام ہے کہ ہم عقل سے کام لیں اور اپنے اس دشمن کی چالوںکو کامیاب نہ ہونے دیں۔یوں تو شیطان کی چالیں بے شمار ہیں اور لاکھوں کروڑوںطریقوں سے وہ انسان کی بربادی کا انتظام بصدشوق کرنے کے لئے بنی نوع انسان کو ہر زمان ومکاں میں طرح طرح کی ترغیبات دے کرورغلاتا رہاہے لیکن اگر ہم اس کی مکروہ چالوں کو موٹے زمروں میں تقسیم کرنا چاہیں تو اُس کی چھ (6 ) قسمیں سمجھ میںآسکتی ہیں۔ شیطان کا تعارف ان چھ کی چھ شکلوں میں حاصل ہو نے سے یہ انمول فائدہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے شر وفتنہ سے محفوظ رہنے کہ مخلصانہ اور ہمہ وقت کوششوں میں کامیاب رہ سکتے ہیں۔شیطان کے شر کی پہلی صورت تو کفر اور شرک اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے بتائے اصولوں اور احکامات کی نافرمانی ہے۔جب شیطان کسی بندے کو اس بدترین شر میںمبتلاکر دینے میں کامیاب رہے تو اُس کی مسّرت کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ۔یہی وہ چیز ہے جس کا وہ سب سے زیادہ خواہشمند ہوتا ہے ۔ اپنی اس آرزو کی تکمیل کے لئے ابلیس مردود مُسلسل اپنی کوشش جاری رکھتا ہے ۔ اس کوشش میں کامیاب ر ہنے کا مطلب ہے کہ ابلیس پھر اُس کو تاہ نصیب کافر و مشرک کو بلاتامل اپنی فوج میں شامل کرلیتا ہے ۔اب یہ شخص خود ہی شیطان کے پکے نمائندے کا کام کرتا جاتا ہے اور ہمیشہ سچ کی مخالفت سے ابلیس کا بہترین مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔اگر بالفرض شیطان اپنی اس کوشش میں ناکام رہے اور بندہ ٔخدا کفر وشرک سے اپنا دامن بچائے تو تب بھی شیطان ہارنہیں مانتا، وہ اسے اب اپنے دوسرے شر ور میں مبتلا کرنے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ شیطان کادوسرا شر عبادت نمابدعت ہوتاہے یعنی دین میں کسی ایسی نئی بات کا من چاہااضافہ جو اللہ اور اُس کے رسولؐ نے نہ بتایاہو ، نہ قرآن وسنت اور طریقۂ صحابہ ؓ میں اس کی سند موجود ہو۔ شیطان کی نظر میں یہ بدعت ہر قسم کے گناہ اور بد کاری سے زیادہ عزیز ہوتی ہے کیونکہ بدعت کا نقصان براہ راست بندے کے دین کو پہنچتا ہے ۔ یادرکھیں یہ ایک ایسا روگ ہے جس کی چھوت ایک دوسر ے کو لگتی ہے۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ بدعت میں مبتلا بھولا بھا لاشخص بظاہر خداپرستی کا دم بھرتا ہے ، اس لئے بسا اوقات بدعت پر عمل ایک ایسا گناہ ہے جس سے توبہ کرنے کی توفیق کم ہی نصیب ہوتی ہے،کیونکہ انسان اس گنا ہ کو کار ثواب سمجھ کر کرتا رہتا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ بدعت دراصل کفراورشرک کا درواز ہ ہوتاہے، جب کوئی شخص یہاں تک خراماں خراماں پہنچ جائے تو وہ بھی الل ٹپ شیطان کے مدد گاروں میں شامل ہوکر رہ جاتا ہے، الا یہ کہ اللہ اسے ہدایت کی توفیق دے ۔ اگر شیطان اس کوشش میں بھی ناکام رہے تو پھر وہ بندے کو ایک تیسرے درجہ کے شر میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تیسرادرجہ گنا ہ کبیر ہے جس کی بے شمار قسمیں ہیں ۔ شیطان کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بندہ ان میں سے کسی ایک میں یا سب میںمبتلا ہو جائے، خاص طورپراگر وہ بندہ عالم ہو اور لوگ اُس کے کہنے پر چلتے ہوں تو وہ انتہائی کوشش کرتا ہے کہ ایسے شخص کو گناہ کبیرہ میں مبتلا کرے تاکہ جن لوگوں کو اس کی بدولت ہدایت کی دولت مل رہی ہو ،وہ اس سے نفرت کرکے اس سے دور بھاگیں ۔ اگر کسی بندے سے ایسا کبیرہ گناہ سر زد ہو جائے تو پھر شیطان اسے لوگوں میں اچھی طرح بد نام کرنے کی صورتیں پیدا کرتا ہے۔اس کام کے لئے اُسے بہت لوگ مل جاتے ہیںجو بُری باتوں کو اِدھر اُدھر پھیلانے میں لطف اور مزالیتے ہیں ۔اُن لوگوں کو یہ یاد بھی نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے گندی باتوں کو پھیلانے کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ اس کا سب سے بڑ اثمر ہ یہ ہو تا ہے کہ گناہ کا مرتکب فرد پھر ہدایت کی طرف واپس آنے میں پس و پیش کر تا ہے ۔ اگر شیطان کسی بندے کو اس شر میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہی نہ ہو تو پھر وہ چوتھے درجے کے شر میں اُسے مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ صغیرہ گنا ہ کہلاتے ہیں۔ یہ بھی جب آہستہ آہستہ کسی بندے کے نامہ ٔ اعمال میںزیادہ جمع ہو ں تو بندے کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں۔آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا:’’تم لوگ ان گناہوں سے کبھی نہیںبچو گے جنہیں معمولی سمجھا جاتا ہے ‘‘۔اگر کوئی بندہ صغائر سے بچ جائے تو پھر اُسے پانچویں درجے کے شر میں مبتلا کرنے کی کوشش شیاطن جی جان سے کرتا ہے ،یعنی وہ اُسے ایسے جائز کاموں میں پھنسا دیتا ہے جن کے کرنے میں نہ ظاہراًنفع ہے نہ نقصان اور اس طرح ایک حسین انداز میں ابلیس بندے کو ثواب کے کاموں سے محروم کر دیتا ہے۔انسان ان کاموں کے کرنے میں مزہ لیتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ نہ تو اس کام کے کرنے میں ثواب ہے اور نہ ہی گناہ ہے، کای فرق پڑ تا ہے اور ایک حد ایسی آتی ہے کہ وہ گناہِ صغیرہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
آخری درجہ یہ ہے کہ جب شیطان دیکھتا ہے کہ کوئی بندہ انتہائی محتاط اور خدا خوفی کا مظاہرہ کر تا ہے اور وہ کسی غلط راہ پر قدم اُٹھاتاہی نہیں ،تو پھر وہ اُسے نیکی کے ان کاموں میں لگائے رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو ثواب اور اہمیت کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں اور اس طرح نیکی کے اعلیٰ کاموں سے اُسے روک دیتا ہے ۔مثلاً کسی بندے سے نوافل عبادتوں کا اتنا اہتمام اتنا زیادہ کراتا ہے کہ فرائض چھوٹ جاتے ہیں اور اس کو یہ لگتا ہے کہ اسی میں زیادہ ثواب ہے۔اگر ابلیس کسی بندئہ مومن کے بارے میں اپنی ان تدبیروں میں ناکام ہو جاتا ہے تو پھر وہ ایک آخری حربہ استعمال کرتاہے اور وہ یہ کہ اپنی فوج کے بہت سے سپاہیوں کو جو انسان کی شکل وصورت میںہی ہو سکتے ہیں ، اس کام پر لگا دیتا ہے کہ وہ سب اس بندہ ٔ مومن کو طرح طرح ستائیں،اس پر کفر ،گمراہی اور بدعت کے الزام لگائیں ۔اس طرح لوگوں کو اس سے دور رکھیں اور اُس کی اچھی بھلی باتیں نہ سُننے دیں۔ اس طرح بندہ پریشان ہوتا ہے کہ اب میں کیا کروں ؟لوگوں میں بھی بدنام ہوتا ہے ،اس کو فتنوں کا طوفا ن اپنے آگے پیچھے دکھا ئی دیتا ہے۔ ایسے موقع پر ایک سچا مومن اس طوفان سے بچنے کے لئے قرآن وسنت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے اللہ سے لو لگا ئے اور صبروتحمل کی روش اختیار کرے اور مرتے دم تک اسی روش پرقائم رہے تو بچنے کا امکان ہے۔ بس یہی ایک صورت ابلیس کی ناکامی ونامرادی کی ہے۔یہ تفصیلات اگر ہمارے سامنے ہر دم رہیں تو ہم یہ محسوس کریں گے کہ گویا ہم ہر وقت ابلیس کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔یہ بہت زبردست دشمن ہمارے دائیں سے بائیں ،آگے سے پیچھے سے غرض ہر طرح سے ہم پر وار کر رہا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا دروازہ اُسی شخص پر کھلتا ہے جو اس جنگ میں مکمل کامیاب رہے ۔اللہ اور رسولؐ ؐنے شیطان کی اس جنگ میں کامیاب ہونے کے لئے کچھ تدبیریں بتائی ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں ایسے موثر دفاعی ہتھیار تھما دئے ہیں کہ اگر ہم اُن سے کام لیتے رہیں تو انشااللہ اس جنگ میںہماری جیت ضرور ہو گی۔ان میں سے کچھ تدبیریں اس طرح ہیں:۔
سب سے اہم تدبیر تو یہ ہے کہ انسان ہر وقت شعور کی گہرائی سے شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جب کبھی تمہیں شیطان کسی بُرے کام پر اُکسائے تو تم اللہ کی پنا ہ مانگو ، یقیناًوہ سننے والا ہے اور جاننے والا ہے‘‘۔اس قسم کی ہدایت قرآن مجید میں کئی جگہ آئی ہیں۔رسول اللہ ؐ نے بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔دوسری تدبیر ہے کہ انسان کو ابلیس فہمی آئے اور شیطان کے حملے کے ہر موقعے پر قرآن کے کچھ مخصوص حصہ سوچ سمجھ کر تلاوت کرے اور ان مفہوم بھی سمجھنے کی کوشش کر ے ۔اس بارے میںچہار قلپڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے معوزتین سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔آنحضرتؐ نے صبح اور شام سورہ اخلاص تین تین بار پڑھنے کی بھی ہدایت فرمائی ہے ۔اس مقصد کے لئے آیَتَہ الکُرسی پڑھنا یا سورہ بقرہ کا آخری رکو پڑھنا یا سورہ مومن کی ابتدائی آیتیں ’’ و اِلَیہِ اِلمُصِیر‘‘ تک پڑھنا بھی مفید فرمایا گیا ہے ،اسے اگرآدمی روزانہ پڑھے تو شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا۔شیطان کے شر سے بچنے کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندہ کثرت سے اللہ تعا لیٰ کا ذکر کرتا رہے جو دل اللہ کے ذکر سے خالی رہتا ہے اس میں شیطانی وسوسے آسکتے ہیں۔نماز،عبادت وغیرہ سب اس کے لئے بہت ہی کارگر ہے ۔اپنی آنکھوں اوراپنی زبان کی سخت نگرانی کرے اور صحبت صالح اختیار کر ے ۔(آمین)