معراج الدین مسکینؔ
انسان کے سامنے جو وسائل ہیں ،اچھے بُرے جیسے بھی حالات ہیں اور اس کے دل میں جیسا عزم و ثبات ہے، اُن ہی کی بنیاد پر وہ اپنے مستقبل کی تعمیر کرسکتا ہے۔ٹال مٹول ،انتظار اور کاہلی کی کوئی گنجائش نہیں،جس سے انسان اپنی زندگی کی تجدید کرسکے۔ایسے طریق کار کو اختیار کرنے میں کسی بھی تاخیر کا مطلب اس کے سِوا کچھ نہیں کہ وہ اُن افسوس ناک حالات کو ابھی باقی رکھنا چاہتا ہے جن سے وہ نجات پانے کا خواہشمند ہوتا ہے،یہ انسان کی شکست خوردگی کی علامت ہے بلکہ اس طرح وہ اور زیادہ نیچے گر سکتا ہے۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ بسا اوقات انسان چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کا نیا صفحہ کھولے مگر اپنی حالت کی بہتری یا اُس میں تبدیلی کے لئے وہ کسی قدرتی کرشمے کا انتظار کرتا رہتا ہے یا کبھی سوچتا ہے کہ کسی خاص وقت پر اپنی زندگی بدل دے گا۔ لیکن اُس کی یہ سوچ، وہم و خیال سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔زندگی میں انقلاب ہر چیز سے پہلے خود اپنے اندر سے پیدا ہوتا ہے ،حالات سے متاثر ہوئے بغیر جو شخص عزم و استقلال اور دور اندیشی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے۔انسان اگر اپنے آپ پر قابو رکھے اور اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے تمام مشکل حالات کو عبور کرتا ہے تو دیگر لوگوں کی مدد کے بغیر بھی بہت کچھ کرسکتا ہے ،وہ اپنے اندر پوشیدہ طاقتوں سے کام لے کر محدود مواقع میں بھی اپنی زندگی کو استوار کرسکتا ہے ۔محض دل میں پیدا ہونے والی تمنائوں کی بنیاد پر زندگی کو معلق نہیں کیا جاسکتا ۔اس طرح کی تمنائوں سے کوئی فائدہ نہیں۔
یہ کتنی بہتر بات ہوگی کہ انسان وقتاً فوقتاً اپنے آپ کی تنظیم نو کرتا رہے اور اپنے مختلف پہلوئوں پر تنقیدی نگاہ ڈالتا رہے تاکہ اپنے نقائص و عیوب سے آگاہ ہوتا رہے اور اُن سے بچنے کے لئے طویل و قلیل مدتی پالیسیاں بناتا رہے۔انسان سب سے زیادہ ضرورت مند اس کا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر نظر ثانی کرتا رہے اور اس کا توازن و اعتدال برقرار رکھے،اگر اُس نے نفس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تو وہ کسی ہار کے موتیوں کی طرح منتشر ہوکر رہ جائے گا۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ نفس کی تنظیم اور اس کی نگرانی کا عمل مسلسل جاری رہے۔اللہ تعالیٰ ہر صبح سے ہر انسان کو یہ شوق دلاتا ہے کہ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی زندگی کی تجدید ِنو کرے،آرام کے ساتھ گذرنے والے کل کی تھکن سے نجات پانے اور نئے دن کے استقبال کی تیاری کرنے کے فیصلہ کُن لمحات میں اِس پر غور کرسکتا ہے کہ اُس نے اب تک کتنی ٹھوکریں کھائیں ،کتنی خود غرضی کا شکار ہوا،کتنی ذلیل چیزوں میں ملوث ہوا اور کس قدر پراگندگی میں مبتلا ہوا اور پھر ان لمحات کی بیداری ،توفیق ِ الٰہی اور اُمید کے شعاعوں کے ساتھ اپنی زندگی کی تجدید ِ نو کرسکتا ہے ۔پتہ نہیں کہ بندے اپنے پروردگار کی طرف خوف و دہشت کے کوڑوں کے ذریعے ہنکائے جانے کے بدلے شوق کے پَروں کے ساتھ پرواز کیوں نہیں کرتے ہیں؟ اس بے حسی یا بیگانگی کا سبب اللہ اور اس کے دین سے ناواقفیت ہوتی ہے جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ شفقت اور رحم کرنے والا کوئی اور مل نہیں سکتا ،اور پھراُس کے رحم و محبت کے ساتھ کوئی غرض بھی وابستہ نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اُس پاک ذات اور اُس کے اعلیٰ کمالات کی علامتیںہیں ۔انسان کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے عزت بخشنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ ذلیل کرنے کے لئے۔اُسے دنیا کی سربراہی کے لئے تخلیق کیا ہے نہ کہ اُس کا مرتبہ گھٹانے کے لئے۔دین کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کے باہمی تعلقات و معاملات کو حق و انصاف کی بنیاد پر منظم کرے تاکہ وہ اس دنیا میں ایسی زندگی گزاریں جس میں ظلم و جہالت نہ ہو ۔انسان کے لئے دین کی وہی حیثیت ہے جو بدن کے لئے غذا کی ،جو وجود و حواس کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا قانون اولادکی سرکشی کے خلاف باپ کا ،ظالم کے جورو ستم کے خلاف مظلوم کا اور ہر اُس شخص کا ساتھ دیتا ہے جس کی جان و مال اور آبرو پر حملہ کیا جائے،تو کیا یہ تعلیمات انسان پر ظلم کا سبب ہیں؟ یا کیا وہ رحمت و بھلائی ہی کی نمائندگی نہیں کرتیں؟ اب اس کے بدلے اگر اللہ تعالیٰ ابن ِ آدم کو چند آسان عبادتوں کا مُکلف بناتا ہے تاکہ وہ اُن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کی نعمتوں کو یادکریں تو کیا ان فرض عبادتوں کی ادائیگی ہی سے لوگوں کو تکلیف محسوس ہوتی ہے؟حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لئے بس آسانی ،عزت اور سر بلندی چاہی لیکن لوگوں نے اللہ کی ہدایتوں کے مطابق چلنے سے انکار کیا،نفسانی خواہشات نے انہیں ہر پستی میں گرا دیا اور دنیا کے خطے اُن کے باہمی مظالم اور نفرتوں سے بھر گئے لیکن اس گمراہی کے باوجود اللہ تعالیٰ ایک مومن کی توبہ اور واپسی پر جتنا خوش ہوتا ہے ،اُسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔یہ واپسی کوئی اچانک لمحہ نہیں ہے کہ اس کے بعد انسان پھر اپنی ذہنی و عملی پراگندگی و انتشار کی طرف واپس لوٹ جائے،نہ کوئی ایسی ناکام کوشش ہوتی ہے جس کے ساتھ سچا عزم ،قوت ِ برداشت اور پامردی اور استقلال نہ ہو،ایسا ہرگز نہیں۔وہ کامیاب واپسی ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے ،وہ کمزوری کے اسباب پر انسان کی فتح ،گناہ اور گراوٹ کے جراثیم کو قابو میں کرنے اور سرکشی اور خواہش ِ نفس کے بندھنوں سے آزاد ہونے پر ایمان و احسان اور ہدایت و پختگی کے اگلے مراحل میں ثابت قدمی کا نام ہے۔یہ ایسی زندگی ہوگی جو بوسیدگی کے بعد پھر سے تازہ دَم ہوجائے اور ایسی فیصلہ کُن واپسی ہوگی جو دل کی دنیا بدل کر رکھ دے۔
زندگی کی تجدید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بُرے اخلاق اور مذموم عادات کے ڈھیر میں ایک آدھ نیک نیتی یا نیکی داخل کردی جائے اور بس۔اس طرح کی ملاوٹ سے نہ انسان کا مستقبل قابل تعریف ہوسکتا ہے اور نہ اس کا طرز عمل،بلکہ ایسے کمال یا کم از کم قابلِ قبول ہونے کی دلیل بھی نہیں سمجھا جاسکتا ،کبھی کبھی تو پتھر جیسے دلوں سے بھی کوئی نیکی چھلک پڑتی ہے یا بند مُٹھیوں سے بھی کوئی سخاوت ہوجاتی ہے،بُرے لوگوں کے ضمیروں پر بھی کبھی کبھی بیداری کی حالت طاری ہوجاتی ہے لیکن وہ پھر اپنی پُرانی حالت پر لوٹ جاتے ہیں،اسے ہدایت نہیں کہا جاسکتا ،ہدایت تو نصیحت بن جانے والی توبہ کے آخری مرحلہ کا نام ہے۔ذہانت ،طاقت ،حسن و جمال اور علم و معرفت کی ساری صلاحیتیں تباہی اور مصائب میں بدل جاتی ہیں اور اُن کی برکت چھِن جاتی ہے جب وہ توفیق ِ الٰہی سے محروم ہوں،اسی لئے اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنے سے دوری اور غفلت و وحشت زدگی کے انجام سے ڈراتا رہتا ہے ۔کہ خبردار! جس نے خدا کی حدود سے باہر قدم رکھا ،اُس نے اپنے ہی اوپر ظلم کیا ،جو انسان گمراہ ہوگیا اس کا نقصان وہ خود اٹھائے گا اورجس نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم ان کو اپنا راستہ بتائیں گے۔جبکہ رسول اللہؐ کا فرمان ہے کہ سب سے اچھا انسان وہ ہےجس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے،جو انسان رحم نہیں کرتا ،اُس پر رحم نہیں کیا جائے گااور وہ انسان بے دین ہے جس میں دیانت داری نہیں اور وہ بھی جس میں عہد کی پابندی نہیں۔
اس واپسی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو نئی زندگی دے ،اپنی زندگی از سر نو منظم کرے،سنبھل کر اپنے پر ور دِگار کے ساتھ بہتر تعلق قائم کرے،زیادہ مکمل عمل اختیار کرکے ہمیشہ دُعا کرتا رہے کہ اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں اور میں حتی المقدور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں،میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوںاور اپنے کردہ گناہوں کے شَر سے تُجھی سے پناہ مانگتا ہوں،تیرے سِوا کوئی گناہ بخش نہیں سکتا ۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)