سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2006سے 2022تک کشمیر میں جنگلی جانوروں کے حملوں میں247افراد ہلاک جبکہ2946افراد زخمی ہوچکے ہیں۔2021-22میںانسان ۔وحوش تصادم میں10لوگ لقمہ اجل بن گئے جبکہ75زخمی ہوگئے تاہم اپریل 2022سے دسمبر 2022تک12افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ100سے زائد زخمی ہوگئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جنگلی جانوروں کے حملے بتدریج بڑھتے چلے جارہے ہیں اور سال رفتہ بھی اس حوالہ سے کوئی اچھا سال نہیں رہا ہے اور اس سال میں جنگلی جانوروں نے سرحدی علاقوں اوڑی اور کپوارہ سے لیکر شہر سرینگر تک ادھم مچاتے ہوئے ایک درجن کے قریب کمسن بچوں کو اپنا نوالہ بنا یا ۔ وادی کے یمین ویسار اور جموں کے پہاڑی علاقوں سے مسلسل جنگلی جانوروںکے حملوں کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔گزشتہ کئی ہفتوں سے بانہال اور گول علاقوں میں بھی جنگلی جانوروں نے ادھم مچا رکھی ہے جبکہ راجوری اور پونچھ کے علاقہ ڈوڈہ اور کشتواڑ سے بھی ایسی کئی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرجموںو کشمیر کے جنگلات کو جنگلی جانور صدیوں سے اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران ہی یہ جنگلی جانور ان خونخواربن گئے کہ انہیں انسانوں کے لہو کا چسکا لگ گیا ہے جبکہ اس سے قبل اس طرح کی شکایت نہیں تھی۔ماہرین کے نزدیک انسانی آبادی میں جنگلی جانوروں کی یلغار کی سب سے بڑی جنگلی جانوروں کے مسکن میں انسانوں کی بیجا مداخلت اور ان گھر کو برباد کرنا ہے۔ جس عرصہ کے دوران جنگلی جانوروں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے ،اگر اس عرصہ کے دوران جنگلات کے کٹائو کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بالکل واضح ہوجائے گی ۔یہ وہ عرصہ ہے جب لاقانونیت عروج پر تھی اور ہر سو جنگلات کا بے دریغ کٹائو جاری تھا۔جنگلات کے کٹائو سے ماحولیات کو نقصان پہنچنا فطری امر تھا لیکن جنگلی حیاتیات کیلئے یہ فوری طور پر دو چیلنج لیکر آیا ۔ایک یہ جنگلی جانور سرچھپانے کی جگہ سے محروم ہوگئے اور دوم یہ کہ جنگلات سے حاصل ہونے والی غذائیات کی شدید قلت پیداہوگئی ۔دونوں صورتیں انتہائی خطرناک ہیں اور یہ کسی بھی جاندار کو کسی بھی حد تک لیجاسکتے ہیں۔اگر ایک انسان کو گھر سے بے دخل کرکے غذا سے محروم کیا جائے تو وہ کس حد تک خونخوار بن سکتا ہے ،وضاحت طلب نہیں ہے اور اگر یہ کہانی کسی وحشی جانور کے ساتھ دہرائی جائے تو اس کا آدم خور بننا کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔اتنا ہی نہیں لوگوں نے جنگلات صاف کرکے ان پر آبادی قائم کی جس کے نتیجہ میں جنگلی حیاتیات اور انسانوں کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوگیا اور تصاوم کے واقعات زیادہ پیش آئے ۔جنگلی جانوروں کے حملوں کی دوسری بڑی وجہ جنگلات میں انسانی مداخلت ہے اورجموںو کشمیرمیں فی الوقت جنگلات کے وسیع رقبہ پر فورسز اہلکارڈھیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔1989میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد جنگلاتی علاقوں میں کافی بڑی تعداد میں فورسز تعینات کئے گئے جبکہ لائن آف کنٹرول کو چھائونیوںمیں تبدیل کیا گیا۔جنگلات میں انسانی نقل و حمل اور کنٹرول لائن پر تاربندی سے جنگلی جانوروں کا مسکن بری طرح اثر انداز ہوگیاجس کے نتیجہ میں انہوں نے جنگلوں سے میدانی علاقوں کی طرف رخ کرنا شروع کیا۔ نیشنل وائلڈ لائف کے 20نکاتی ایکشن پلان سے نہ صرف جنگلی جانوروں کے حملوں کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی تھی بلکہ اگر حکومت اسے نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتی تو اس سے جنگلی جانوروں کی زندگی بھی بدل جا تی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کا یہ پروجیکٹ بھی ناکامی کا شکار ہوا۔20نکاتی نیشنل وائلڈ لائف ایکشن پلان کو2016تک پورا کرنے کا منصوبہ تھاتاہم یہ منصوبہ ابتدائی ایام میں دم توڑ بیٹھا۔ مذکورہ ایکشن پلان میں جانوروں کے تحفظ، ماحولیاتی تحفظ،محکمہ وائلڈ لائف کی اراضی اور سیٹو کے تحفظ کے علاوہ پانی کی ذخیرہ اندوزی کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔پلان کے مطابق محکمہ کے علاقے کو وسعت دینا،ممنوعہ علاقہ کے لئے موثر مینجمنٹ،جن جانوروں اور پرندوں کا تیزی سے نابود ہونے کا خطرہ ہے، ان کے تحفظ کو یقینی بنانانیز ممنوعہ علاقے سے باہر نکل کرآبادی والے علاقوں میں آنے والے جانوروں کا تحفظ ان اہم معاملات میں شامل ہیں جن پر2009کے آخر تک کام شروع ہوناتھاتاہم یہ بھی صرف کاغذی گھوڑے ہی ثابت ہوئے اور زمینی سطح پر صورتحال ابھی بھی جوں کی توں ہے اور جنگلی جانور بھی انسانی آبادی میں آزاد گھوم رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان حملوں کے نتیجہ میں جنگلی جانوروں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی لیکن اگر ایسا بھی نہ ہوا ہوتا تو انسانی نقصان بہت زیادہ ہوتا۔موجودہ صورتحال میںمحکمہ وائلڈ لائف اور محکمہ جنگلات پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جنگلی حیاتیات کی بقا ء کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات کریں کیونکہ ایسا کرنے سے جہاں حملوںکی شرح کم ہوگی وہیں جنگلات کا حسن دوبالا ہوگا جو مجموعی طور پر جموںوکشمیرکی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔