بالآخر یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ سرینگر پارلیمانی حلقہ میں 9 اپریل کو ووٹنگ کے دن سنگ بازی کے الزام میں فوجی گاڑی کے بونٹ سے باندھ کر گائوں گائوں گھما یا گیا نوجوان فاروق احمد ڈار کوئی سنگ باز نہیں بلکہ ایک ووٹر تھا، جو پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے کے بعد کہیں تعزیت پر جا رہا تھا۔چونکہ ایک شہری کو ڈھال بناکر گھمانے کے اس واقعہ پر نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی احتجاج کی آوازیں اُٹھی تھیں ، لہٰذا حکومت نے اسکی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پولیس تحقیقات کے بعد میڈیا رپورٹوں کے مطابق فوج کے اس دعوے کی قلعی کھل گئی ہے، جس میں مذکورہ نوجوان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ نو جوانوں کو سنگ بازی پر اُکسا رہا تھا اور فوج کی طرف سے میجر گوگوئی نامی آفیسر کے اس فیصلے کو حاضر دماغی جتلا کر نہ صرف سراہا تھا بلکہ اسے قابل تقلید قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس کار خاص کے لئے مذکورہ میجر کو انعام و اعزاز سے نواز کر ایک نئی روایت قائم کی گئی۔ چونکہ واقع بادی النظر میں ہی مشکوک تھا لہٰذا اس پر غیر جانبدارانہ حلقوں کی جانب سے انگلیاں اُٹھنا ایک قدرتی امر تھا۔ چنانچہ ریاست میں ہی نہیں بلکہ ملک اور بیرون ملک حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس طرز عمل کو نہ صرف حقوق انسانی کی بدترین پامالی قرار دیا تھا، بلکہ اسے فوجی جوانوں کے اندر ایک نئی انتہا پسند روش کو پروان چڑھانے کی کوشش ٹھہرایاتھا، کیونکہ نہ صرف بطور ادارہ آرمی کی جانب سے اسکو سراہا گیا تھا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے بھی اسے کشمیر کے اندر اُس وقت کے ماحول کے تئیں درست ردعمل سے تعبیر کیا گیا تھا۔ جہاں ملکی سطح پر سیاسی حلقوں او ر لیبرل سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد حکومت کی اس پالیسی کو استحسان کی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ہیں وہیں عالمی سطح پر نہ صرف کئی ممالک نے کھل کراس اقدام کو ہدف تنقید بنایا بلکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی کشمیر کے معاملہ پرایسی پالیسی کی خبر لی ہے بلکہ کئی معتبر بین الااقوامی جرائد نے بھی اس پر نئی دہلی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ۔میجر گگوئی کو اعزاز سے نواز کر نئی دلّی میں بیٹھے ارباب بست و کشاد نے کشمیری عوام کو یہ واضح پیغام دینے کی کوشش کی کہ ان کے نزدیک بحالی امن کا ہر طریقہ معتبر ہے ،چاہئے وہ انسانی حقوق کی صریح پامالیوں سے ہی عبارت کیوںنہ ہو۔دراصل اس پیش رفت کے نتیجہ میں کشمیری عوام کی نفسیات کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اور ان پر باور کرانے کی سعی کی گئی ہے کہ زمینی سطح پر سرگرم فورسز اہلکاروں کی پشت پر پوری حکومت کھڑی ہے اور احتجاج پر آمادہ عوام کو زیر کرنے کیلئے انہیں نہ صرف ہر حربہ آزمانے کی مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ ان کی پیٹھ تھپتھپانے سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا۔تاہم دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک کیلئے ایسا فیصلہ کسی بھی طور قابل تحسین قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔جمہوریت کی لہر پر سوار ہوکر بھارت عالمی سطح پر جس مرتبے او ر مقام کیلئے سرگردا ں ہے ،اُس کیلئے ایسی حرکات ملکی وقار کے مجروح ہونے کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔اب اگر عالمی سطح سے ذرا نیچے آکر مقامی سطح پر اس فیصلہ کے مضمرات پر غور کیاجائے تو اس میں کہیں فائدہ نظر نہیں آرہا ہے بلکہ اس کے صرف نقصانات ہی گنے جاسکتے ہیں۔کیونکہ اس طرح کی حرکات بیزاری کی لہر میں مزید شدت کا باعث بن جاتی ہیں ۔فاروق احمد ڈار کے معاملے میں ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے متاثرہ کو10لاکھ روپے بطور معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے ، جس پر حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ متذکرہ پولیس رپورٹ، جو پولیس سربراہ کو پیش کی گئی ہے، کے بعد اب حکومت کے پاس حقوق کمیشن کا فیصلہ نافذ کرنے میں لیت ولعل کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ، نیز حقوق انسانی کی اس بدترین خلاف ورزی کا مرتکب ہونے والے فوجی افسر کےخلاف کاروائی کرنے میں متعلقہ ادارے کو کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہئے۔