انسانی قَلب ۔ اسلامی و جدید سائنسی تناظر میں

Mir Ajaz
13 Min Read
مسعود محبوب خان
ماہرین صحت کے مطابق امراضِ قَلْب دنیا بھر میں انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہیں، ہر سال دنیا بھر میں 1؍ کروڑ 80؍ لاکھ کے قریب افراد دل کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دل کی بیماری اس وقت ہوتی ہے جب دل کے عضلات تک خون پہنچانے والے قلبی شریانیں بند ہو جاتیں ہیں۔ یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب دل کی شریانوں (کارڈیوویسکیولر) کے اندر چربی یا چپکنے والے مادے جمع ہونے لگتے ہیں، یہ مادہ خون میں شامل کولیسٹرول سے بنتا ہے جسے پلیک (Arterial Plaque) کہتے ہیں۔ اس رکاوٹ کی وجہ سے دل کے پٹھوں اور ٹشوز کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک یا دیگر بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
   جدید سائنسی انکشافات اور حقیقتِ قَلْب و ذہن :۔
قَلب دراصل ذہن کو کنٹرول کرتا ہے اور ذہن اپنے اعصابی نظام کے ذریعے باقی اعضائے جسمانی کو۔ ذہن، قلب کا تابعِ فرمان اور نمائندہ ہے۔ ہمارا قلب ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے۔ہم بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ وقت گزر ے کے ساتھ قرآن کریم کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ مفسّرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ فرماتے ہیں،’’اس قرآن میں ایسی آیات ہیں جنہیں صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی سمجھا جا سکے گا’۔ یعنی جیسے جیسے انسان کا مشاہدہ وسیع اور باریک ہوتا جائے گا۔‘‘ اِمام سیوطیؒ فرماتے ہیں، ’’کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا اِستخراج و اِستنباط آپ قرآن سے نہ کر سکیں لیکن یہ علوم و معارف اُسی پر آشکار ہوتے ہیں جسے ربِّ ذُوالجلال خصوصی فہم سے بہرہ وَر فرما دیں۔‘‘ اس مضمون کو تحریر میں لانے کے وقت حضرت ابنِ عبّاسؓ کے مندرجہ بالا فرمان کو شدّت سے محسوس بھی کیا ہوں۔
اسلام میں نیکی اور بدی کا مرکز قَلب کو قرار دیا ہے یعنی اگر قَلب کی اصلاح ہو جائے تو تمام جسم اور اعمال کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر قَلب میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو تمام جسم اور اعمال میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور اسی طرح علم کا مرکز سینے کو قرار دیا ہے نہ کہ ذہن کو لیکن سائنسی اور تجرباتی حقائق اس کے خلاف ہیں سائنسی حقائق انسان کے خیالات اور اعمال کا مرکز ذہن کو قرار دیتے ہیں نہ کہ قلب کو۔
بے شمار سائنسی حقائق کو قرآن کریم نے ایک جملے میں بیا ن کر دیا اور کتنے ہی میدانوں میں ہونے والی تحقیقات کے سائنسی نتائج قرآنی آیات کے مفاہیم سے ہم آہنگ ہیں اور ان میں صداقت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں سائنس نے پہلی مرتبہ یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ ا نسانی قَلب میں بھی انسانی ذہن کی طرح ذہانت کے خلیہ پائے جاتے ہیں۔
  قَلبِ انسانی میں ذہانت کے خلیہ :۔
ہمیں معلوم ہے کہ ایک لمبے عرصے تک مغربی سائنسدانوں کے نزدیک قَلبِ انسانی کا بنیادی کام پورے جسم میں خون اور آکسیجن کو پمپنگ کرنے کا عضو تصور کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے وسط میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ قَلبِ انسانی میں بھی ذہانت کے خانے یعنی’’چھوٹا دماغ‘‘ یا’’اندرونی کارڈیک اعصابی نظا م ‘‘ہوتے ہیں۔ انسانی قَلب کے اعصابی نظام میں تقریباً 40؍ ہزار نیورونز یا Nerve Cells (اعصابی خلیہ) پائے جاتے ہیں۔ جنہیں sensory neurites بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہی خلیہ ہیں جن سے ذہن بنتا ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ دماغ کے کئی چھوٹے حصّے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں۔ مزید برآں قَلب کے یہ خلیے ذہن کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ قَلب کے اندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضاء حتیٰ کہ ذہن کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔اس ا قلابی دریافت اور انکشافات کے بعد پھر انسانی قَلب پر بحیثیت ِ منبع ذہانت کے مغرب میں کئی سائنسی تحقیقات ہوئیں۔ سائنسدانوںنے علم طبّ میں ایک نئے میڈیکل شعبے کا قیام عمل میں لایا ہے جس کا نام، نیوروکارڈیالوجی (Neurocardiology) یعنی انسانی قَلْب کا اعصابی نظام (Nervous System) رکھا گیا ہے۔ جو قَلْب اور ذہن کے باہمی تعلق کے امور سے بحث کرتی ہے۔
آج سائنس قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ دلوں کے اندر بھی غور و فکر کرنے والا اعصابی نظام پایا جاتا ہے۔ قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن میں انسانی قَلب کو جو اہمیت و مقام حاصل ہے وہ ذہن کونہیں۔ قَلْب کی اس قوت کا اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان کو قرآن کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے، قرآن ہی سے رہنمائی لی جائے اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کی ترغیب دی جائے۔ قرآن انسانی قَلب کو اپنے پیغام کا مرکز اس لئے قرار دیتا ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ نے قَلب پر نازل کیا، دماغ پر نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اسے روح الامین  (جبریلؑ) لے کر اترے ہیں، آپ کے قَلب (ا ور) پر۔ (الشعراء:۴۹۱۔۳۹۱)
اگر ہم مغربی طرزِ فکر ونظر کا مطالعہ کریں تو وہ انسانی شخصیت کو صرف ذہن کی نظر سے تولتی ہے۔ نظریات کا یہ فرق جہاں سوچ و فکر کے زاویے تبدیل کرتا ہے، وہیں اس کے اعمال و اخلاق میں بھی تبدیلی رونما کرتا ہے جس کا مظاہرہ پورا مغربی معاشرہ کررہا ہے۔ مغربی دنیا میں مادّہ پرستی کی سوچ کے پسِ پشت اسی طرزِ فکر کا کار فرما ہونا ثابت ہے۔
یو سی ایل اے نیورو کارڈیالوجی ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر اینڈریو آرمر نے قَلب میں نیوران کا ایک نفیس مجموعہ دریافت کیا جو ایک چھوٹے، پیچیدہ اعصابی نظام میں منظم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق،’’انسانی قَلب کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کر سکتا ہے۔ قَلب کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے ہمارے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی قَلب نہ صرف ذہن کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ ذہن کی مدد کے بغیر آزاد ہ طور پر بھی فرائض ادا کرتا ہے’۔‘‘کیلی فورنیا کے دی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ میتھ کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر رولن میک کریٹے اس بات کو مجازاً یوں کہتے ہیں کہ ‘قلب میں بھی ایک ذہن ہے’’اس کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے‘‘قَلب ایسے اعصاب اور خلیات رکھتا ہے جن کا کام بالکل وہی ہے جو دماغ کا ہے، مثلاً یادداشت۔ یہ علم الابدان کی ایک حقیقت ہے۔ قَلب ذہن کو اس سے زیادہ معلومات بھیجتا ہے جو ذہن قَلب کو بھیجتا ہے’۔
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ قَلب، برقی مقناطیسی فیلڈ کی مدد سے ذہن اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ قَلب انسانی جسم میں سب سے زیادہ طاقتور الیکٹرو میگ یٹک فیلڈ پیدا کرتا ہے جو انتہائی تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ قَلب کی پیدا کردہ الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ، ذہن کی پیدا کردہ میگنیٹک فیلڈ سے پانچ صد گنا طاقتور ہوتی ہیں اور ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔
قَلب ذہین ہوتا ہے۔ جب ہمارے جذبات اور ذہن کو قَلْب کے ساتھ مربوط سیدھ میں لایا جاتا ہے، تو ہمارا ذہن اور قَلب ایک ہم آہنگی سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، قَلب کی ذہا ت کو ہمارے قَلْب کی قابلیت کے طور پر بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے جسم کے تمام نظاموں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے بیداری کی اعلیٰ حالت اور ہماری زندگیوں میں مزید وضاحت اور توجہ مرکوز کر سکے۔سائنسی دنیا یہ کہتی ہے کہ ”ایک بات یقینی ہے کہ ہمارا قَلْب اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا ہم سوچتے تھے”۔ دیباشیش مردھا کہتا ہےکہ ’’اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے قَلب کی ہدایات پر عمل کریں، یہ راستہ جانتا ہے۔‘‘
 قَلب و ذہن کا دوطرفہ مواصلاتی نظام:۔
ہم میں سے اکثر کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے کہ ذہن اور اعصابی نظام جسم کے ہر عضو کو کنٹرول کرتا ہے جس میں قَلب بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ، آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ ہم صرف دماغ کو ہر حال میں استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ احساسات سے نمٹنے کے ساتھ۔ تاہم، یہ معاملہ نہیں ہے!  احساسات کا قَلب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا دماغ سے۔ یہ دراصل دو طرفہ رشتہ ہے۔ ہمارے جذبات دماغ کی طرف سے قَلب کو بھیجے جانے والے سگنلز کو تبدیل کرتے ہیں اور قلب پیچیدہ طریقوں سے دماغ کو جواب دیتا ہے۔ دونوں درحقیقت ایک دوسرے کے کام پر انحصار کرتے ہیں اور اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ درحقیقت حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قَلْب نیورو لوجیکل اور بائیو کیمیکل مواصلات یا مختلف طریقوں کے ذریعے دماغ سے رابطہ کرتا ہے۔ قَلْب بھی ایک اینڈو کرائن غدود کی طرح کام کرتا ہے، جہاں یہ درحقیقت خون کے دھارے میں متعدد ہارمونز اور نیورو ٹرانسمیٹر جیسے کہ نار ایپی نیفرین، ایپی نیفرین اور ڈوپامائن، آکسیٹوکسن تیار کرتا اور خارج کرتا ہے۔
1970ء میں ایک حیرت انگیز انکشاف کیا گیا کہ انسان کے ذہن اور قَلب کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے۔ یہ تحقیق امریکہ کے معروف مؤقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ کے شمارے میں چھپی تھی۔ تحقیق کا عنوان تھا، ”دل اور دماغ کے درمیان دو طرفہ مواصلات”۔ کیا آپ جا تے ہیں کہ قَلب اس کے برعکس دماغ کو زیادہ معلومات بھیجتا ہے؟ قَلب سے دماغ کو بھیجے جانے والے سگنل ہمارے جذباتی تجربے کو منظم کرتے ہیں۔
    تجربات سے یہ دریافت کیا گیا کہ جب ذہن جسم کے مختلف اعضاء کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو قَلْب آنکھیں بند کرکے اُسے قبول نہیں کرلیتا۔ جب ذہن جسم کو متحرک کر ے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی قَلْب اپنی دھڑکن تیز کر دیتا ہے اور کبھی ذہن کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قَلْب اپنی ہی کوئی منطق و دانش استعمال کرتا ہے۔ مزید برآں قَلب بھی ذہن کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں ذہن نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ا ن پر عمل بھی کرتا ہے۔(جاری)       رابطہ۔09422724040
masood.media4040@gmail.com
Share This Article