قیصر محمود عراقی
وقت بدلنے کے ساتھ انسانی رہن سہن ، بودوباش ، خوراک، مکان وغیرہ میں ہر جہت سے تغیر وتبدیلی ہمارے سامنے ہے۔ مگر انسان کی خصلت میں روزبروز آنے والی تبدیلیوں نے ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ انسان کتنی جلد گرگٹ کی مانند رنگ بدلتا ہے۔اس رونق بھری دنیا میں ہر قسم کے دل ودماغ کے لوگ اپنے اپنے رنگ ڈھنگ سے زندگی گذارنے میں مصروف ہیں۔ بہت سے لوگ حد دررجہ عیاشی کی زندگی بسر کررہے ہیںاور بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو اپنی زندگی تکلیفوں اور اذیتوں میں گذارنے پر مجبور ہیں،جس سے انسانی معاشرے میں غیر یکساں ماحول کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم کچھ دیر کیلئے ماضی کی طرف دھیان دیں تو ماضی میں لوگ سادہ ہوتے تھے، ان کا رہن سہن، ان کی خوراک، ان کا لباس اور ان کی طرز زندگی میں سادگی اوریکسانیت ہوتی تھیں، ذہنی ہم آہنگی اور بھائی چارگی کی فضا قائم ہوتی تھی۔ کم تعلیم یافتہ معاشرہ ہونے کے باوجود دینی اقتدار کی پاسدای ،دیانتداری اور خلوص سے کیا کرتے تھے، لوگ اپنی اسی سادہ زندگی میں خوش وخرم ہوا کرتے تھے اور جو مسلمان تھے ، سچے پکے مسلمان تھے، بناوٹی مسلمان کیلئے شاید اس معاشرہ میں جگہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ انسان سماج میں اپنے آس پاس رہنے والے اپنے جیسے مخلوق کیساتھ ہمدردی اورانسانوں والا سلوک کرتے تھے، انسان کا سینہ جذبہ وانسانیت سے معمور ہوتاتھا، دوسری جانب جب ہم زمانہ حال کا جائزہ لیتے ہیںتو یہاں ہم آہنگی اور ہمدردی کا صرف نام باقی ہے۔آج انسان انسانیت کی خوشبو سے یکسر خالی ہے،تنگ نظری ، عدم برداشت، تعصب اور تکبران کے اندر پنپ رہے ہیں، دوسروں کی عزت وآبرواور مال ودولت پہ ڈاکہ زنی کا بازار گرم ہے۔ اس وقت کے انسان نے انسانی لباس میں درندگی کے صفات اپناتے ہوئے معاشرے کے بے بس ، کمزور اور سادہ لوح انسانوں کے حقوق کو سلب کرلینے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اپنے گھمنڈ اور غرور کی آڑ میں دوسرے انسانوں کو نظروں میں نہیں لاتے، حالانکہ ہر انسان کی خلقت نجس نطفے سے ہوئی ہے اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ جب سے انسان اپنی خصلت میں جانوروں اور درندوں کی صفت شامل کی ہے تب سے اس نے خود کو اپنے جیسے انسانوں ہی کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے سوچنا شروع کردیا ہے، جو کہ ایک فطری مجبوری ہے۔ جس طرح پہلے زمانے کے لوگ جنگلی جانوروں سے خوف زدہ ہوتے تھے ،آج کا انسان بالکل اسی طرح اپنے جیسے جانور صفت لوگوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ انسان کوسماجی جانور کہتے ہیں، بلاشبہ یہی انسان ہے جس میں جانوروں کی کئی صفات عیاں ہیں۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان جانوروں سے بدترین ہے لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ کتا ایک ایسا جانور ہے جو ہماری نظر میں سب سے نجس اورحقیر ہے لیکن اس کے اندر ایک ایسی خصلت بھی ہوتی ہے جو شاید کچھ انسانوں میں نہ ہو ۔ کتا کبھی بھی اپنے مالک سے بے وفائی نہیں کرتا، خواہ کتنا ہی مالک خفا کیوں نہ ہو ، اور بھی خصلتیں ہیںجن کو دیکھ کردماغ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے فطری طور پر اس کے دماغ میں پیدا کرنے والے ذات کی محبت ہوتی ہے لیکن بعد میں ان کے والدین اسے ہندو یا مسلمان بنادیتے ہیںاور اسی والدین کی تربیت سے محروم اولاد زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سماج میں انتشار پیدا کرنے کے لئے پیش پیش رہتی ہے اور جانور وں کی خصلت اپناتے ہوئے انسانوں کی بستی میں تنگی اور پریشانیاں لاتی ہے اور دوسروں کو پریشانیوں اور اذیتوں میں دیکھ کے وہ دلی طور پر خوشی محسوس کرتی ہے جس کسی کے شر سے مسلمان محفوظ نہیں وہ مسلمان نہیں ہے، انسان کے اندر جانوروں کی خصلت پیدا ہونے سے وہ ظالم ، جابر اور متعصب بن جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں خرابیاں اور کمزوریاںجنم لیتی ہیں، جن پر مختلف قسم کے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر معاشرے میں برائی کی نوعیت ایک ہو لیکن راقم کے خیال میں معاشرے میں بگاڑکی وجوہات بداخلاقی ، بے رحمی اور ناانصافی کے سبب انسانوں کے بدلتے رویے اور بری خصلتیں ہیں۔ پست خاندان اور پسے ہوئے طبقات کو جب اچانک مال ودولت اور آرام وآرائش میسر ہوتے ہیں تو اپنے گرد ونواح میں کم ظرفی اور خباثت کے گل کھلانے لگتے ہیں، لیکن غافل معاشرے کو اس کی شان وشوکت اور مال ودولت دیکھ کہ اس کی کوئی بھی حرکت معیوب نہیں لگتی، بلکہ ان افراد کے اچھے بُرے کام میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے اور حوصلہ افزائی کرتے رہنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیںاور یہی لوگ مال ودولت اور طاقت کے زور پر اجتماعی کاموں میں دخل انداز رہتے ہیں، اپنے مزاج اور خیالات کے مطابق اگر کوئی کام نہ ہو تو انتقامی کارروائیاں کرنے کیلئے محاذ آرائی کرتے ہیں۔یہ بات بھی سچ ہے کہ انسان اجتماعت پسند واقع ہوا ہے وہ جہاں بھی رہتا ہے ایک معاشرہ وجودمیں آہی جاتا ہے، ایک ساتھ رہنے بسنے بسا اوقات بعض غلط فہمیوں کے وجہ سے آپس میں اختلاف پیدا ہوجاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے اور پھر عداوت اور دشمنی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، بسا اوقات کئی نسلوں تک قتل کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے، جس وجہ سے کئی گھر برباد ہوتے ہیں اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد کہیں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ ان حالات میں دنیا کو صحیح راہ دکھانے والے اگر خود گمراہ ہوجائیں تو عام انسانوں کا کیا ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ تمام انسانوں کو آپس میں بھائی بھائی بتایا گیا ہے، سب کو رشتہ اخوت میں جوڑ دیا گیا ہے اور ان کے کئی حقوق بتائیے گئے ہیں جنہیں ہر انسان کو ادا کرنا ہے۔ مانا کہ اس پرُ آشوب دور میں بری خصلت کے مالک افراد معاشرے کو جہنم بنائے ہوئے ہیں اور اس بگاڑ سے معاشرہ پریشانیوں کا شکار رہتا ہے، ہماری نظر میں بری خصلت معمولی بات ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی بیماریاں بہت زیادہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو نیک خصلت بنادے۔ آمین
(رابطہ۔:6291697668)