عبداللطیف تانتر ے
روئے زمین پر انسانی زندگی کے آغاز سے ہی خیر و شر کے مابین تصادم آرائی رہی ہے اور انسانی اِرتقاءکے ہر دور میں اس تضاد کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ خیر پر عامل ہو کر شر سے بچنے کی تعلیمات موجود ہونے کے واضح دلائل بھی ملتی ہیں ۔ خیر و شر تو اچھائی برائی، حق و باطل، نیکی و بدی، طاعت معاصی ، اوامر نواہی جیسے الفاظ سے بھی موسوم ہے مگر خیر و شر میں تمیز کی سبیل ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے اور وہ سبیل نظام تعلیم و تربیت ہے ۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے جب انسان علم کے زیور سے آراستہ ہو جاتا ہے تب ہی وہ حق و باطل میں فرق کر کے حق کا انتخاب کر کے حق پرستی اپناتا ہے اور باطل سے بیزاری کا کھل کر اظہار کرتا ہے ۔ اگر خدانخواستہ انسان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی رہ جائے تو اس کے جاہل رہ کر باطل پرستی کی اور راغب ہونے کے قوی امکانات بنتے ہیں۔ اگر ہم تعلیم و تربیت کا انسانی زندگی میں مقام و مرتبت کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کمال تربیت خود شناسی کا نام ہے کیونکہ خود شناسی سے انسان اپنے فضائل کے ساتھ ساتھ اپنے رزائل سے بھی آشنا ہوتا ہے، اپنی وسعتوں کے ساتھ ساتھ اپنی محدودیت سے بھی آشنا ہوتا ہے ، اپنی زندگی کی بے ثباتی کے ساتھ ساتھ اپنے افکار و خیالات کی حیاتی سے بھی آشنا ہوتا ہے، اپنی جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ اپنی قوت ارادی سے بھی آشنا ہوتا ہے ، الغرض اس پورے کارگاہِ حیات کی معرفت بشمول خود آگہی و خود شناسی کا دارومدار صرف اور صرف بہتر تعلیم و تربیت پر ہی ہے ۔
اگر ہم دور حاضر کے نظام تعلیم و تربیت کا موازنہ ماضی کے نظام تعلیم و تربیت سے کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی کے تعلیمی اسلوب کی درجہ بندی کافی زیادہ فعال اور موثر ہوا کرتی تھی، ماضی میں تربیت پذیر پود کو خیر اور شر کے کاموں کی پہچان کرا کے خیر خواہی اور شر سے بیزاری کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اس اسلوبِ تربیت میں خیر خواہی کی تلقین خیر پر مشتمل اعمال کی معرفت کرانے کے بعد اور شر پسندی سے پرہیز کی تلقین شر پر مشتمل اعمال کی معرفت کرانے کے بعد کی جاتی تھی کیونکہ جب تک کسی چیز سے ملنے والے نفع یا نقصان سے انسان باخبر نہ ہو تب تک وہ نفع حاصل کرنے یا نقصان سے بچنے کا شعور پیدا نہیں کر سکتا۔ دورِ ماضی میں طلبہ کو جانکاری کی بھرمارکے بوجھ تلے دبانے کے بجائے معلم طالب علم کو حقیقی طالب بنا کر تدریس کا آغاز کرتا تھا ۔ اسی لئےحصولِ علم پر آمادہ طالبِ علم استاد سے کرائے جانے والے مراقبے اور مشاہدے درکار مشقت کے باوجود خوشی اور رضامندی سے انجام دینے پر آمادہ ہوتا تھا۔ یہ ایک ایسا فطری نسخۂ تربیت تھا جو حصول علم کا ذوق و شوق پیدا کر کے انسان کو علم کی خاطر اپنی تمام تر ترجیحات اور خواہشات کی قربانی دیکر حق و باطل میں تمیز سیکھ کر انسانیت کی بقاء کےلیے اپنے آپ کو وقف کرنے پر آمادہ کرتا تھا۔ انسانی فطرت میں ذوق و شوق ہی وہ داعیہ ہے جس کی بنا پر انسان کسی بھی فعل کی انجام دہی میں اپنی پوری قوت لگانے سے دریغ نہیں کرتا اور یہی لگن اور تندہی اُسے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔
دور حاضر میں اگرچہ تعلیمی شرح فیصد کافی زیادہ ہے لیکن تعلیم کے چند اہم لوازمات کو پسِ پُشت ڈال کر تعلیم کی موجودہ ہئیت صرف جانکاری کی بھرمار تک ہی محدود ہو رہی ہے۔ آج کے دور میں طالب علم کسی شے کی حقیقت و معرفت کی خبر رکھنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں پاتا اور اگر تسلیم بھی کرے تو عامل ہونے کے لیے آمادگی غائب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیر و شر میں تمیز کی شرح بتدریج گھٹ رہی ہے کیونکہ تعلیم کے موثر ہونے میں درکار اقدارواخلاق جو طلبا کے عقائد سے ماخوذ ہوا کرتے تھے آج کل کے نظامِ تربیت کے ساتھ پیوست نہیں۔یہ عقائد کی روشنی میں رہنمائی ہی ہے جو ذوق تعلیم بڑھانے کے ساتھ ساتھ حاصل شدہ علم و معرفت پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ بھی بڑھاتی ہے ۔
بدقسمتی سے موجودہ تعلیمی نظام میں عقائد و مذہب کی تعلیم کو عصری تعلیم کا متضاد تصور کیا جانے لگا ہے۔ حالانکہ سائنسی ترقی جس پر آج کے دور کا انسان نازاں ہے ،عقائد و مذاہب میں موجود ترغیبات سے ہی میسر آئی ہے۔ اگر ہم ماضی قریب کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ تدریسی اداروں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی اور اخلاقی تعلیم کا بھرپور انتظام رہا کرتا تھا اور تربیت پذیر پود عصری علوم کے ساتھ ساتھ اخلاق و اقدار سے آراستہ ہو کر علم کی حقیقی معنوں میں قدر کرتی تھی۔ ایسے ہی نظام میں طلبہ سیرت و کردار، عقل و شعور ، حق و باطل کی تمیز ، نیکی اور بدی کی تمیز، حلال و حرام کی تمیز سے آراستہ ہوتے تھے ۔ اسکے برعکس آج کے دور میں علم کی جامعیت کو محدود کر کے حصول علم کا نام حصول روزگارسے موسوم ہوتاجارہا ہے ،علم کے ذریعے اخلاق کردار اور اقدار کی منتقلی کا کہیں نام و نشان ہی باقی نہیں۔ موجودہ معاشرے میں رہنے والا انسان دنیا اوردنیاداری میں ایسے مگن ہے کہ وہ انسانیت سے خالی ہو چکا ہے۔ ایسے میں جب ہم خود اندھیروں میں گرے ہوئے ہوں تو نئی نسلوں کو روشنی کیسے دکھا سکتے ہیں، جب ہم خود بددیانتی کے مرتکب ہیں تو دیانت داری کا سبق کیسے پڑھا سکتے ہیں، جب ہم خود گناہ و معاصیت میں گرفتار ہیں تو اطاعت و فرمانبرداری کیسے سکھائیں گے، جب ہم خودظلم و جبر کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو عدل و انصاف کی تلقین کیسے کر سکیں گے ۔ جب ہم ادب و احترام سے خود عاری ہیں تو اکرام و تعظیم کا تقاضا کیسے کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کو معاشرے میں بطور کلچر متعارف کرنے کے لیے ایک تحریکی جذبے کے ساتھ کوشش کی جائے جس کے لیے صاحب بصیرت لوگوں کو موقع فراہم کر کے ہر سطح پر تعاون میسر رکھنا لازمی ہوگا کیونکہ آج جب انسان مادی حصولیابیوں کے پیچھے اپنا آپ ہی بھول کر ایک زندہ لاش بن چکا ہے تو عقائد و مذاہب کے اصولوں پر مبنی تعلیم ہی اس کی مردہ ذہنیت کی حیاتی کا ضامن ہو سکتی ہے۔
تاریخ اسلام کے تناظر میں یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جب جب انسانیت باطل نظریات کی روِش پر چل کر ظلم و زیادتی ، ذہنی بے سکونی، بے حیائی اور بداخلاقی جیسے شرورِ زمان کے اندھیروں میں بھٹکنے لگی تب تب اسے بچانے کے لیے حق و باطل کی تمیز پر مبنی نظریات کی تعلیمات ہی راہ نجات ثابت ہوئی ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تعلیمات اسلامی کی بنیاد ی اثاث روزِ اول سے ہی ایمان قرار پایا ہے اور اسلامی تعلیمات میں ایمان کو ہمیشہ عقائد کے زمرے میں رکھ کر تصدیق بالقلب سے مشروط رکھا گیا ہے ۔ ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب، ایمان بالرسل، ایمان بالاخرہ، بالواسطہ کسی عملی مشقت کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ اس امر غیب پر دل سے یقین کا تقاضا کرتا ہے ،لہٰذا جس تعلیم سے انسان کی نفع رسانی مطلوب ہے اس کی بنیاد کا عقائد سے منسوب ہونا ناگزیر ہے ۔ عقائد جب دل میں رچ بس جاتے ہیں تو انسان ان عقائد کی پاسداری کی خاطر تعلیم سے جُڑ کر خیر و شر کی تمیز سیکھ کر خیر پر عامل ہونے اور شر سے بچنے کی سعئ پیہم کا ارادہ بھی دل سے کرتا ہے ۔ یہی ایمانی قوت سے پیدا شدہ ذوقِ علم انسان کے لیے ثمر آور ثابت ہوتا ہے اور انسان کو اپنی علمی بساط کے مطابق عامل ہونے کی تحریک بھی فراہم کرتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر انسان کو طلبِ علم کی ترجیحات متعین کرنے میں آسانی میسر آتی ہے۔ کیونکہ علم کا حصول تب تک سودمند نہیں ہوسکتا جب تک نہ مقصدِ حصول واضع ہو۔ بقول امام غزالیؒ ’’لوگ طلبِ علم میں تین قسم پر ہیں۔ ایک وہ جو علم کو جہانِ آخرت کا توشہ بنا لیں اور ان کا مقصود رضائے الہٰی اور دارِ آخرت ہو، یہ لوگ فلاح پانے والوں میں سے ہیں ۔ دوم وہ جو علم کو موجودہ دنیاوی زندگی کا سہارا بنا لیں اور اس کے ذریعے سے عزت و جاہ اور مال و متاع حاصل کریں۔ اگر ایسے لوگ یہ حرکتیں کرتے ہوئے یہ احساس رکھتے ہوں کہ ناجائز حرکتیں ہیں اور دل سے سمجھتے ہوں کہ وہ ذلیل و کمینہ حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں تو وہ سخت خطرے میں ہیں ۔ اگر توبہ کرنے سے پہلے موت آگئی تو بُرے خاتمے کا ڈر ہے۔ سوم وہ شخص جس پر شیطان پوری طرح غالب ہو، اس نے اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ مال و دولت کمانے اور اس پر فخر کا ذریعہ بنا لیا ہو۔ اس کی کوشش یہی رہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے عقیدت مند بنتے چلے جائیں اور کثرت اِتباع کی وجہ سے لوگ اُسے بڑے وقار اور عزت کا حامل سمجھنے لگے اور اِن تمام باتوں کے باوجود اپنے دل میں یہی سمجھتا رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مقبول ہے ۔ لیکن درحقیقت ایسا عالم احمقوں اور غرور کرنے والوں میں سے ایک احمق و مغرور ہے۔ اس کے تائب ہونے کی توقع منقطع ہو چکی ہےاور اس کا نفس امارہ اُسے درجۂ ہلاکت میں ڈال کر چھوڑے گا۔‘‘لہٰذاآج کے دور میں سب سے پہلے انسان کو خود شناسی کی بھولی بسری داستان کی طرف لوٹنا ہوگا تاکہ وہ اصل کامیابی کی جانب گامزن ہونے کیلئے طلبِ علم کا صحیح راستہ چُن سکے۔
رابطہ۔7006174615
[email protected]