عصر حاضر میںہمارے معاشرے میں انسانی رشتوں کی اہمیت دن بہ دن ختم ہو تی جا رہی ہے ، خونی رشتے اور ان کے جوڑ تک ٹوٹ رہے ہیں۔ باہمی محبت،چاہت ،ایثار،اپنائیت ،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اورایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شرکت کی رونقیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ خاندان بکھر رہے ہیں ،فاصلے بڑھ رہے ہیں،معاشرہ بگڑ رہا ہے اور ہر ایک کومحض اپنی ہی پڑی ہے۔حالانکہ انسان محض جسم کا نام نہیں بلکہ انسان جسم و روح دونوں کے مجموعے کا نام ہے ۔ جس میں انسان کے مادی اور روحانی دونوں پہلوئوں سے متعلق جملہ ضروریات و حاجات کو مد نظر رکھا گیاہے ، جن کے تحت انسان کے لئے رشتوں کے تقاضوں کو بحسن و خوبی پورا کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔مگر آج کل اکثر یہی دکھائی دیتا ہے کہ مادہ پرستی اور جاہ پرستی نے انسانی رشتوں میں بڑی بڑی دراڑیںڈال دی ہیں، خود غرضی نے ہمیں اپنے جال میں پھنسا رکھا ہے اور ہم نام و نمود کے لئے ، پیسے کے لئے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو کر اپنے رشتوں کو فراموش کر تے جا رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ خاندان میں بھی ہم اُن سے ہی ملنا پسند کر تے ہیں جن سے ہمیں کچھ دنیاوی فائدے کی امید ہو تی ہے، جبکہ انسانی سماج کے سب سے زیادہ حسین اور دلکش نظارے خاندان کے دائرے میں ہی ملتے ہیں ۔ شوہر بیوی کی محبت ، ماں باپ کی شفقت ، چھوٹو ں سے پیار ، بڑوں کا احترام ، بیماروں کی تیماداری ، معذوروں کی مدد، بوڑھوں کو سہارا ، ایک دوسرے کے کام آنا ، سب کو اپنا سمجھنا ، خوشی اور غم کے مواقع پر جمع ہو جا نا ہی انسانی رشتوں کا اصل ثمرہ ہے۔ لیکن دور جدید میںبالکل اسکے برعکس ہورہا ہے۔ ہر چیز کومادی کی نظر سے دیکھا جارہا ہےاور یہ سمجھانے کی کوشش کی جا تی ہے کہ خاندان محض ایک سماجی رواج ہے جو وقتی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا اور جب وہ ضرورت باقی نہیں رہے تو اس سے چھٹکارا حاصل کر نا ہی انسان کے ارتقا ءکا تقاضا ہے ۔ حالانکہ اسلام میں اس تصور کی کوئی بھی گنجائش نہیں،اسلام خاندان کو نوع انسانی کا ایک ناگزیز عنصر مانتا ہے ،جس سے علیحدگی اور دوری نوع انسانی کے لئے خطر ناک حد تک نقصان دہ ہے ۔اسلام میں خاندان کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور اس کی مضبوطی کے لئے ٹھوس اور گہری بنیادیں فراہم کی گئی ہیں ۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک امتحان ہے اور رشتے اس امتحان کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ امتحان کی نفسیاتی خصوصیت یہ ہو تی ہے کہ اس میں آسان سوالوں کو انسان خوش دلی سے حل کر تا ہے اور مشکل سوالوں کو درست طریقے سے حل کر نے کے لئے اپنی ساری توانائی صرف کر دیتاہے۔ رشتوں کو امتحان مان لینے کا نفسیاتی نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ آدمی ہر رشتے کو خوبی کے ساتھ نباہ لینے کی کوشش کر تا ہے ،خواہ اس کے لئے اسے کتنی ہی مشقت اُٹھانی پڑے ۔ دشوار صفت رشتے نباہ لینے میں اسے کا میابی ملتی ہے تو اس طرح خوش ہو تا ہے جس طرح ایک مشکل سوال حل کر لینے پر خوشی حاصل ہو تی ہے ۔ خاندان اور رشتوں کو جو نظام انسان کو حاصل ہے ،وہ صرف انسانوں کا امتیاز ہے اور انسانی شرف کی ایک علامت ہے ۔ رشتوں کا یہ نظام حالات و ضروریات کے تحت انسانوں کی اپنی اختراع نہیں ہے بلکہ زندگی کے دیگر امتیازی انتظامات کی طرح یہ خاص انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کر نے والا امتیازی نظام ہے جو انسانوں کو خصوصی طور پر عطا کیا گیا ہے ۔ انسانی ضرورتوں کی تکمیل غول اور جھُنڈ سے پوری نہیں ہو سکتی ہے ، اسے قدم قدم پر رشتوں کی ضرورت ہو تی ہے ۔ظاہر ہے کہ رشتے اللہ نے بنائے ہیں ، اس لئے انہیں خاص تقدس اور احترام حاصل ہے ، ان کو توڑنا یا ان کی بے حرمتی کر نا اللہ کے حدود سے تجاوز کر نااور اللہ کی نافرمانی کر نے کے مترادف ہے ۔ اس لئے اللہ کی ناراضگی کا خوف رشتوں کا سب سے بڑا محافظ ہے ۔ اب جب تمام رشتوں کا سرا اللہ سے ملتا ہےتو اس معنیٰ میں کہ اللہ رشتوں کا خالق ہے اور اس نے رشتوں کی پاسداری کا حکم دیا ہے تو پھر بلا تفریق تمام رشتوں کی پاس داری ضروری قرار پا تی ہے ۔ رشتوں میں مراتب کا فرق تو ہو سکتا ہے ، لیکن رشتوں میں ایسی تفریق جائز نہیں ہے کہ کچھ رشتوں کو باقی رکھا جا ئے اور کچھ کو ختم کر دیا جا ئے ۔ غرض خرابی انسانوں کے اندر تو ہو سکتی ہے لیکن خود رشتوں میں کوئی ایسی خرابی نہیں پا ئی جا تی کہ کسی رشتے کو نفرت کا رشتہ قرار دیا جا ئے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دانشور حضرات ، ہمارے اکابرین،ہمارے علمائے کرام اس تبدیلی کو کا سنجیدہ نوٹس لیںاور معاشرے کو انفرادیت کے نقصانات اور اجتماعیت کے فوائد کا احسا س دلانے کے لئے یک جُٹ ہوجائیں تاکہ معاشرے کے افراد تنہا زندگی گذارنے بجائے مشترکہ خاندان میں رہنے کو فوقیت دے سکیں۔