آج کل ہر جگہ لوگ سُر سے سُر ملا کر یہ بحث و تکرار کرتے ہیں کہ آخر ہمارا یہ معاشرہ کیوں بگڑا ہے ؟آخر سماجی شعبہ جات میں تباہی ہی تباہی کیوں پھیلی ہے ؟اس سوال پر کوئی اپنے ارد گرد برائیوں کا چرچا کرتا ہے پھر کوئی گھر کے یا خاندان کے ذمہ داروں پر تنقید کرتا ہے، کوئی دوسروں کے بجائے اپنے اوپر انگلی اٹھاتا ہے تو کوئی ملکی و قومی سیاست کو منفی و ناقص علم و ادب کو کوستا ہے ، کوئی اس کو قیامت کے آثار دکھاتا ہے، کوئی دین سے دوری کا اصل مسئلہ سناتا ہے ، کوئی اپنے آپ کو غیر ذمہ دار ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ اب اس حوالے سے بڑی بڑی سماجی تنظیمیں ، دینی علماء، سول سوسائٹی کے ممبران ، قلم کار، دانشور، غرض کہ ہر کوئی کسی نہ کسی طرح موجودہ سماجی، اقتصادی و اخلاقی بد حالی و برائیوں سے بچنے کا موثردر بھی دیتے ہیں، جب کہ برائیوں اور بد حالی کا اصل سبب یا بنیادی جڑ بتانے سے بھی قاصر ہیں اور اسے اکھاڑنے سے بھی معذور۔ موجودہ دور میں انسانی رشتوں کا حال یہ دیکھتے ہیں کہ ہر گھر یا خاندان میں من مانی ہے، باپ بیٹے کا نہیں بیٹا باپ کا نہیں ۔ بیٹی بھی اپنی ہی من مرضی کی مالک ہے ،ہر گھر بگاڑ کا مرکزی دفتر ہے بلکہ اب گھر گھر بستی بستی یہ چلن ایک دستور کے مانند دکھائی دیتاہے کہ خرابیاں اور فضولیات قبول کرتے جاؤ۔ پہلے سماجی پابندیاں، لاج حیا اور مکمل ربط و ضبط تھا، اب سماج سارے کا سارا بے قابو ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ گھر یا خاندان کے ذمہ دار اور بڑے بزرگوں پر تالا لگا ہے اور ہر طرف صرف ریا کارانہ واویلا ہے۔کسی کے ذہن میں Tension ہے ۔ ہر کوئی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے ،نیند حرام ہے، سکون کی زندگی سے لوگ ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، خود کشی، زہر نوشی، جھگڑے، فساد، اب عام ہیں، خاندانی اور انسانی رشتوں میں دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ ہمسایہ ہمسایہ کا نہیں، کسی نے بیچ کی دیوار بندی اتنی اونچی کی ہوئی ہے کہ ایک ہمسایہ کو دوسرے ہمسایہ کی نظر نہ پڑے ،وہ ہمسایہ جو ایک وقت دوسرے کا سایہ تھا۔روا داری بھائی چارہ سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بس اب جو کچھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہا سنان اپنے ہی ہم جنس سے ودر بھاگ کر ’’پناہ کی تلاش ‘‘ میں سرگرداں ہے اور صرف اپنے لئے سوچنا دوسروں کی فکر نہ کرنا ا س کا شیوہ وشعار ہے ۔ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنایا پیار محبت اب صرف میلی قمیضوں کی طر ح کوڑے دان کی نذر ہورہا ہے، ہر طرف دھوکہ دہی فریب کاری، وعدہ شکنی، غنڈہ گردی، زور زبر دستی، اذیہت پسندی ، نقلی پیروں کی جعل سازی، تاجروں کی بد دیانتی، خریداروں کی بے ایمانی ، ضوابط شکنی ، بے قاعدگی اور بد عنوانی کی داستانیں بکھری ہیں اور انہیں بڑے چاؤ سے سنااور کہا جاتا ہے ۔ یہ ہمہ گیر تباہ حالی ہماری آنکھوں سے گزرتی ہے اور اس پر ہم سب اپنے اپنے دائرے میںعمل پیرا ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں جھوٹ کو ایک بہت بڑاگناہِ کبیرہ سمجھا گیا ہے ۔انسان کو اس بری صفت سے ہمیشہ خو دکو دور رکھنا چاہیے۔ جھوٹ انسان کو بے اعتبار بنا دیتا ہے۔ اس سے سماج میں بد اعتمادی کی فضا قائم ہوجاتی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد و اعتبار کے بغیر سماج میں زندگی گزارنا ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ جھوٹ خود بھی گناہ ہے اور دوسرے بہت سارے گناہوں کا بھی جنم داتا ہوتا ہے۔ اگر انسان خود کو اس بری صفت سے دور رکھنے میں کامیاب ہوا تو وہ بہت سے دوسرے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں جھوٹ کو گناہ عظیم بتایا گیا۔ملت اسلامیہ اس وقت بد ترین زوال و انحطاط کا شکار ہے کیونکہ جھوٹ اور دجل و فریب ہم میں گھر کر گیا ہے ۔دشمنانِ دین عالم اسلام پر ایک یادوسرے بہانے حملہ آور ہورہے ہیں ، غیر ہم پربھپتیاں کس رہے ہیں اور ہم مسلمان من حیث القوم ہر جگہ تضحیک و رسوائی اور قتل و غارت کا نشانہ بن رہے ہیں ۔یہ گھمبیر صورت حال ہر حساس اور صاحب فکر انسان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس امت مرحومہ کی بیداری کا وقت کب آئے گا؟ کب ہم گروہی، لسانی، علاقائی اور طبقاتی، مسلکی حد بندیوں سے ماوراء ہوکر از سر نو اپنی شیرازہ بندی کریں گے ۔ ہم کس صدی میں جاکر انتشار و افتراق کی بھول بھلیوں سے نکل کر آفاقی وحدت میں عقیدہ ٔ توحیدو رسالتؐ کی بنیاد پرگھل مل جائیں گے ؟ ہر باشعور مسلمان کی آنکھیں دیکھ رہی ہییں کہ گنبد خضریٰ کے مکین اپنے فیضان ِ محبت واخوت کا چراغ لے کر ظلمت شب میں بھٹکنے والی ملت اسلامیہ کو منارہ ٔنور کی طرف بلا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان افتراق وانتشار اورزوال وادبار کا نظارہ بہت ہوچکا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہر درد مند مسلمان یکتااور وحدت ملت کی ایمانی پکار کو اپنے دل کی دھڑکن بنالے اور صدق دل سے رب ذوالجلال کی بار گاہ میں یہ عہد کرے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا، جینا مرنا اور زندگی کا ہر لمحہ دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بقاء و استحکام کے لئے وقف ہوگا۔ آیئے!ہم محدود مفادات اور حرص و ہوا کے بتوں کو پاش پاش کر یں اور اپنے اندر سے نفرتوں کدورتوں کے اندھیرے دور کرکے دل کے شبستانوں میں محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی روشنی والے چراغ فروزاں کریں۔ یادرکھیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل واحسان ہے کہ آج بھی ہمارے درمیان کم ہی سہی وہ مردانِ حق زندہ ہیںجو سب سے پہلے نغمہ ٔ ایمان کے ہدی خوان بن کر امت کو جوڑنے کی تگ ودو میں ہیں ،وہ سماج میں بڑی تیزی سے پنپ رہے برائیوں اور بدعات، نا انصافی، بے راہ روی، نقب زنی، غنڈہ گردی، لاقانونیت کے بڑھتے رحجان کے انسداد اور مکمل خاتمے کے خاطر سرفروشانہ مقابلہ آرائی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ انہی لوگوں کی مساعی ٔ جمیلہ کا ثمرہ ہے کہ آئے روز اخبارات کے ذریعے مختلف مقامات پر سماج سدھار کمیٹیوں اور اصلاحی انجمنوں کا قیام عمل میں آتا نظر آرہا ہے ۔واقعی یہ خوش آئند قدم ہے اور وقت کی پکار ہے۔ اگر سماجی زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ ہرفرد ، والدین، ائمہ مساجد، سیاسی لیڈر ، سماجی کارکن، وکلاء، تاجر ، دا نشور، صحافی ، علماء، اساتذہ ، طلبا و طالبات سماجی بدعات اور برائیوں کے پھیلاؤ پر روک لگانے کے لئے آگے آئیں، خاص کر نوجوان طبقہ انتشار وخلفشار کے علاوہ بے حیائی اور بے حمیتی کے خلاف محاذ ِ اصلاح پر زور وشور سے سرگرم عمل رہیں ۔ اس میں دورائے نہیں کہ سماج کے ذِی حس اور کار کشا نوجوانوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آج اُٹھ کھڑے ہو کر ان تمام برائیوں اور معائب کا سو فی صدقلع قمع کرکے ایک صاف اور پاکیزہ ماحول قائم کرنے میں اپنا رول ادا کریں جو ہمارے دین کا بنیادی تقاضا بھی ہے اور جو ہماری دنیا کو بھی حسنہ بنائے گا اور آخرت کو بھی حسنہ بنادے گا ، ورنہ خدا نخواستہ ہمارا معاشرہ حیوانوں اور چوپایوں کی سی شکل اختیار کرے گا اور پھر گند اور غلاظت کاایک ایسا سیلاب امنڈ آئے گا کہ جس کا روکنا محال وناممکن ہوگا۔بہتر یہی ہے کہ ہم سب اس اندھیر نگری اپنی اپنی دائرے میں اورقومی سطح پر بھی اپنی یہ بھاری اصلاحی اور اتحادی ذمہ داریاں فلاح و بہود کے نقطہ ٔ نظر سے ایمان کا فریضہ جان کر نبھائیں تاکہ ہمارا سماج معاشی حیوانوں کا ثابت نہ ہو بلکہ اس میں ایک مومنانہ شان پیدا ہو اور سماج میں تمام افراد ردِ دل کے ساتھ انسانوں کے طرح زندگی بسر کرسکیں۔ اسی میں تمام لوگوں کی بہتری اور برتری کاراز مضمر ہے۔ ( ختم شد )
پتہ :بابا پورہ حبہ کدل سرینگر کشمیر
فون نمبر9858083333