سرینگر //انتظامیہ نے علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی طرف سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کشمیر بند کال پر پوری وادی میں ہمہ گیر ہڑتال رہی۔اس دوران شہر میں 9پولیس تھانوں کے حدود میں کرفیو جیسی بندشیں رہیں جبکہ پولیس نے محمد یاسین ملک کی سونہ وار یو این او آفس تک جانے کی کوشش ناکام بنا کر انہیں حراست میں لیا۔علیحدگی پسند قیادت نے عالمی انسانی حقوق کے دن کے حوالے جاری کردہ پروگرام میں کہا تھا ’10 دسمبر کو کشمیری مکمل اور ہمہ گیر احتجاجی ہڑتال کریں گے اور شام گئے گھروں میں بلیک آئوٹ کیا جائے گا جبکہ اسی دن لال چوک سری نگر میں متحدہ مزاحمتی قائدین کی سربراہی میں ایک احتجاجی ریلی بھی برآمد ہوگی جو سری نگر میں موجود اقوام متحدہ کے مقامی آبزرور آفس پر جاکر ایک یادداشت پیش کرے گی‘ ۔
بندشیں اور ہڑتال
مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال کے پیش نظر وادی کے جنوب و شمال میں زندگی کی رفتار تھم گئی۔ سرینگر،بڈگام ،گاندر بل ،پلوامہ ،شوپیاں ،کولگام ،اسلام آباد(اننت ناگ ) کپوارہ ، بانڈی پورہ، سوپور اور بارہمولہ میں ہر طرح کی دکانیں کاروباری ادارے ،تجارتی مراکز،پیٹرول پمپ بند رہے۔ ملک عبدالسلام نے بتایا کہ ضلع میں ہمہ گیر ہڑتال کے سبب تمام دکانیں بند رہی ،جبکہ سڑکوں سے ٹریفک غائب رہا ،ضلع کے ڈورو،ویری ناگ ،قاضی گنڈ اور دیلگام میںبھی ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی متاثر رہی ۔ خالد جاوید کے مطابق کولگام، ریڈونی، کھڈونی ،کیموہ اور دیگر علاقوں میں بھی ہڑتال کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔بانڈی پورہ میںٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہی البتہ اکا دکا چھوٹی چھوٹی پرائیویٹ گاڑیاں چلتی رہیں۔ اجس، حاجن میں ہڑتال رہی ہے لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیںآیا ہے ۔ بارہمولہ اور کپوارہ ا ضلاع میں بھی مکمل ہڑتال کی اطلاع موصول ہوئیں،جس کی وجہ سے عام زندگی کی رفتار تھم گئی۔سوپور، کپوارہ اور بارہمولہ میں مکمل ہڑتال رہی اور ہر قسم کی آمد و رفت بند تھی۔ شوپیان اور پلوامہ اضلاع میں بھی ہمہ گیر ہڑتال رہی۔شہر میں امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے پائین شہر کے ایم آر گنج، نوہٹہ، صفا کدل، رعناواری ، خانیار اور کرالہ کھڈ جبکہ سیول لائنز کے مائسمہ ، رام منشی باغ اور کوٹھی باغ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئیں۔ انتظامیہ نے علیحدگی پسندوں کے پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے شہر کے مختلف حصوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کیں۔پولیس نے نالہ مار روڑ کو تاربل سے لیکر خانیار تک خارداروں تاروں سے سیل کیا ہوا تھا۔ نواکدل، کاؤ ڈارہ، راجوری کدل، گوجوارہ، نوہٹہ ، بہوری کدل، برابری پورہ اور خواجہ بازار کو جوڑنے والی سڑکوں پر خاردار تار بچھائی گئی تھی۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کا گڈھ مانے جانے والے مائسمہ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ہائی سیکورٹی زون سونہ وار میں واقع اقوام متحدہ فوجی مبصرین کے دفتر کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو خارداروں تار سے سیل کیا گیا ہے۔ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ کو تاریخی لال چوک سے جوڑنے والے امیر کدل برج کو بھی سیل کیا گیا تھا۔ اس دوران پائین شہر کے کچھ علاقوں میں اتوار سہ پہر سنگبازی اور ٹیر گیس شلنگ ہوئی۔دن بھر پائین شہر میں کرفیو نما بندشوں کے بعد جب شام کو فورسز اور پولیس نے واپسی کی راہ لی تو نواکدل میں نوجوانوں کی کئی ٹولیاں نمودار ہوئی،اور انہوں نے فورسز پر سنگبازی کی،جبکہ فورسز نے جوابی سنگبازی کے بعد ٹیر گیس شلنگ کی۔اس دوران سنگبازی کا دائرہ وسیع ہوا،اور براری پورہ کے علاوہ نالہ مار روڑ پر سنگبازی ہوئی،اور فورسز نے اشک آوار گولے داغے۔
ملک کی گرفتاری
لبریشن فرنٹ چیئر مین محمد یاسین ملک ، جو چند دن سے روپوش ہوئے تھے، اتوار کی صبح مائسمہ میں نمودار ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بڈشاہ چوک کی جانب پیش قدمی کرنے لگے۔ فرنٹ اراکین نعرے بازی کررہے تھے اور انہوں نے ہاتھوں میں انسانی حقوق پامالیوں کے ضمن میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے۔لیکن پولیس نے چونکہ مائسمہ کو پہلے ہی سیل کیا تھا، لہٰذا جونہی ملک ساتھیوں سمیت آگے بڑھنے لگے تو پولیس نے انہیں دھر لیا اور گاڑی میں بٹھا کر پولیس تھانہ کوٹھی باغ پہنچایا۔اس موقعہ پر انکے ساتھیوں نے احتجاج کیا اور نعرے لگائے۔
گمشدہ افراد کے لواحقین کا احتجاج
گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم ’’اے پی ڈی پی‘‘ نے بھی سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاج کرتے ہوئے لاپتہ ہوئے افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔اتوار صبح قریب11بجے پروینہ آہنگر کی قیادت میں چند خواتین اور مرد متاثرین جمع ہوئے اور پریس کالونی میں کتبے اٹھا کر خاموش احتجاج کیا۔پروینہ آہنگر نے الزام عائد کیا کہ متاثرین کو جائے تقریب پر آنے کی اجازت نہیں دی گئی،تاہم وہ کسی طور پر چند ساتھوں سمیت پریس کالونی میں پہنچے میں کامیاب ہوئیں۔’’اے پی ڈی پی‘‘ نے اس موقعہ پر دوران حراست لاپتہ ہوئے افراد کی یاد میں ایک کلینڈر بھی جاری کیا۔جھیل ڈال کے کنارے پر واقع’’ایس کے آئی سی سی‘‘ میں ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی تقریب کے باہر2010میں مبینہ طور پر پولیس کے تشدد سے جاں بحق ہوئے
طالب علم عمر قیوم کے اہل خانہ نے احتجاج کیا۔