انسانی حقوق کا تاریخی پس منظر
انسانی حقوق کا تصور اگر چہ قدیم زمانہ ہی سے تھا مگر پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و سلم کے عنفوان ِ شباب میں ’’خلف الفضول‘‘ نامی ایک رضارکار فلاحی انجمن کی تاسیس اس سلسلے کی ایک ٹھوس کڑی تھی ۔ عصر جدید میں آج سے تقریباََ ۷۲؍ سال پہلے انسانیت کی بھلائی اور عالمی امن کے لئے بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ وجود میں آئی تو انسانی حقوق کا ذیلی ادارہ بھی بہت جلد معرض وجود میں آیا۔اس سے پہلے دنیا میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں تھا جو حقوق انسانی کے تحفظ کئے آواز اٹھاتی ۔انفرادی طور پر اگر چہ کوشیشں ضرور ہورہی تھیں لیکن وہ کار گر ثابت نہیں ہورہی تھیں ۔انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف مختلف خطوں سے آوازیں بلند ہورہی تھیں لیکن وہ صدا بہ صحرا ثابت ہورہی تھیں غرض کہ ہر کوشش رائیگاں ہو رہی تھی اور ان کوششوں کا عملاََ کہیں بھی نفاذنہیں ہو رہا تھا ۔انسانی حقوق کے تعلق سے پہلی کوشش برطانیہ میں شاہ کانریڈ دوم نے۱۰۳۷ء میں کی تھی۔ اس کے بعد الفانسو نہم نے بھی ۱۱۸۸ء میں انسانی حقوق کے تعلق سے بات کی تھی ۔اس کے بعد انسانی حقوق کے تعلق سے ایک اچھی کوشش ۱۲۱۵ء میں میگنا کارٹا کی صورت میں ہوئی تھی۔ یہ برطانیہ کی تاریخ کا ایک عظیم چارٹر کہلاتا ہے اور اس کو انسانی حقوق کی سب سے پہلی اور اہم دستاویز تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس کو ۱۳۵۵ء میں باضابطہ نافذ کیا گیا ہے ۔اس دستاویز میں اگر چہ امراء اور جاگیرداروں کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے ار ان کو فوقیت دی گئی ہے لیکن اس میںعام انسانی حقوق کا تحفظ ، چرچ کی آزادی ، تنازعات کا فیصلہ کاشت کاروں کو تحفظ، قانون کی بالا دستی ، عدل و انصاف کی تشریح بھی شامل ہے ۔ جنرل اسمبلی میں حقوق انسانی کے تعلق سے جو منشور ترتیب دیا گیا ہے ، اس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ ’’جنرل اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصول مقصد کا مشترک معیار ہوگا ہر انسان کا یہ ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے گااور انہیں قومی اور بین الاقوامی کاروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں منوانے کے لئے بتدریج کوشش کوشش کر ے گا ‘‘۔
حقوق انسانی کی موجودہ صورت حال :
اس وقت دنیا انسانی حقوق کے تعلق سے بے حس نظر آرہی ہے دنیا کے ہر کونے میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔دنیا میں ایسا کوئی ولاقہ نہیں ہے جہاں انسانی جانوں کا ضیاء نہ ہو رہا ہو کسی بھی جگہ امن و امان قائم نہیں ہے ۔گزشتہ ساٹھ سالوں میں انسانی حقوق کے تعلق سے بین الاقوامی سطح پر متعدد دستاویزات تیار کی گیں لیکن ان کو عملہ جامہ پہنانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ان دستاویزات کو بنانے والے خود ان کا استحصال کرتے ہیں ۔اگر یورپی اور مغربی ممالک ان دستاویزات کے حوالے سے سنجیدگی دکھاتے اور کماحقہ ان پر عمل بھی کرتے تو دنیا میں اتنے وسیؑ پیمانے پر فسا د اور دہشت گردی کا ماحول گرام نہیں ہوتا ۔ اصل حقیقت یہ ہے ۔لیکن اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ قوانین اور دستاویزات انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اسی لئے ان میں اخلاقی اور روحانی پہلو بالکل غائب ہے ۔ اس کے برعکس اسلام کے بنائے ہوئے قوانین اور ضوابط وحی الہیٰ پر مبنی ہیں اسی لئے ان میں مطلق سچائی اور اخلاقی پہلو غالب ہیں ۔ یہ قوانین انسان کے فطرت کے عین مطابق ہے ۔
حقوق لفظ حق سے مشتق ہے جس کے معنیٰ درست ،صحیح اور انصاف کے ہیں ۔ یہ لفظ اپنے اندر وسیع معنیٰ رکھتا ہے اور اصطلاحی طور سے اس سے مراد ایسے دستاویزات ،قوانین ،ادارے اور سرمایہ ہیں جن پر بلا رنگ و نسل ،مذہب و ملت اور جنس و ثقافت تمام انسانوں کو یکساں استحقاق حاصل ہو۔اور کسی بھی انسان کو حقوق اور قوانین سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ان پر کسی اجارہ داری چلا سکتی ہے ۔انسانی حقوق وہ روایتی حقوق ہیں جنہیںفطری ْھقوق بھی کہا جاتا ہے ۔ بعض لوگ انسانی حقوق کو پیدائشی حقوق بھی کہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے تعلق سے اسلام کا تصور انتہائی جامع اور واضح ہے ۔انسانیت کا تحفظ اور اس کی بقا ء و ترقی اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ نسل انسانی کا تحفظ شریعت کے پانچ بنیادی مقاصد میں شامل ہے ۔اسلامی تعلیمات میں انسان کے تحفظ اور اس کے حقوق پر جگہ جگہ رہنمائی کی گئی ہے ۔اسلام ہرگز بھی یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ نسل انسانی کا کوئی زخ یا نقصان پہنچائے۔جو شخص انسانی نسل میں خلل یا انتشار پھیلاتا ہے ،وہ سب سے بڑا فسادی کہلاتا ہے ۔ یہاں پر چند بنیادی حقو ق کی وضاحت ہوگی ۔
جینے کا حق :
زندگی ایک انمول نعمت ہے دنیا کے کسی فرد یا طاقت کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ وہ کسی کی زندگی کوغارت کردے یا کسی کی زندگی کے ساتھ مزاق کرے ۔امن و امان اور سکون و اطمینان سے ز ندہ رہنے کا حق ہر کو حاصل ہے ۔ فرد اور ریاست یا کسی بھی ملک کو یہ حق حاصؒ نہیں ہے کہ ککہ وہ کسی بھی انسان کا حرام کردے ۔اسلام نے اس کو بنیادی حق قرار دیا ہے ۔انسان کی جان بے حد قیمتی ہے اور کسی کے جان کو خطرے میں ڈال دینایا کسی پر جان لیوا حملہ کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو بخش دی۔ ( المائدہ : ۳۲)
انسان کو امن اور تحفظ کی بھی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، اس کے بغیر وہ چین اور سکون سے زندگی نہیں گزار سکتا۔اس تعلق سے بھی اسلام کی تعلیمات واضح ہیں ۔
مذہبی آزادی کا حق:
ہر انسان کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ جو چائیے مذہب یا عقیدہ اختیار کرسکتا ہے ،وہ اپنے مذہب کو اختیار کرنے میں بالکل آزاد ہے اور کسی بھی بندے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس پر اعتراض کرے ۔ کسی بھی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملہ میں اسلام نے انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے ۔ اسلامی ریاست یا معاشرے میں کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اسلام نے دوسروں کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق دیا ہے اور ان پر اپنا نکتہ نظر ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ دین اختیار کرنے میں زبردستی ممنوع ہے۔ سب کے لیے اپنا اپنا دین ہے مثاق مدینہ کی ایک مثال ہے کہ جب مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میںآیاتو سب سے پہلے تمام مذاہب کو عقیدہ کی حریت کا حق دیا گیا جیسے یہودیوں کے بارے میں کہا گیا کہ : للیہود دینھم وللمسلمین دینھم و مولیھم وانفسھم الامن اظلم واثم فانہ لا یوتغ الا نفسہ واھل بیتہ ۔ کسی فرد کو ذبر دستی دین اسلام قبول کروانے میںقرآن و سنت نے سخت تردید کی ہے ؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے : دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔(البقرہ : ۲۵۴)
جبر و اکراہ کے تعلق سے قرآن کریم میں اس طرح بھی تنبیہ کی گئی ہے:کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں ؟(یونس : ۴۷)
مذکورہ بالا آیاتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے عقیدے کو اختیا کرنے کے تعلق سے زبر دستی کا کوئی معاملہ روا نہیں رکھا ہے ۔دین کا تعلق اصلاََعقیدہ قلب سے ہے اور قلب پر کسی بھی فرد یا ریاست کوجبر و اکرہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔اس طرح کی مذہبی آزادی اور رواداری کا اعتراف یورپی ومغربی مفکرین نے بھی کیا ۔چناچہ گوستاو لی بون ((Gustave Le Bon کا کہنا ہے ’’ مذکورہ بالا آیات سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ محمد ﷺ کا یہود و نصاری کے ساتھ حد درجہ روا داری کا معاملہ تھا اس کی مثال سابقہ مذاہب مثلا یہودیت اور عیسائیت کے بانیوں کے یہاں نہیں ملتی آپ کے بعد آپؐ کے خلفائے راشدین ؓ بھی آپؐ کے نقش قدم پر چلے۔‘‘
مساوات کا حقوق
اسلام کی نگامیں تمام لوگ برابر ہے ۔کسی مالدار کوکسی غریب پر ،کسی غورے کو کسی کالے ،کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے کوئی رنگ و نسل اور نسب کی بنیاد پر اعلی ٰ اور بڑا نہیںہوتا ہے ۔اپنے آپ کو نسب ، علاقہ ، تہذیب اور رنگ کی بنیاد پر اعلیٰ قرار دینا سراسر جہالت ہے ۔اس جاہلانہ تصور کی بنیاد پر خاندان اور قومیں تقسیم در تقسیم ہوتی ہیں۔ اسلام نے تمام انسانوں کو آدم کی اولاد قرار دیا ہے اور تمام انسان ایک خالق کی مخلوق ہے ۔اسلام نے صالحیت کی بنیاد پر انسان کو معزز ٹھہرایا اور کہا کہ تم میں سے اعلیٰ شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو اور پرہیز گار ہو ۔ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے :’’اے لوگو،ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا یا پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔درحقیقت اللہ کے نذدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔‘‘(الحجرات :۱۳)
اظہار رائے کی آزادی:
اظہار رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ۔ اس حق سے انسان کسی بھی حال میں محروم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔انسان مثبت انداز میں یا کسی کو تزلیل کرنے کے بغیر اپنا موقف بیان کرنے یا سوال کرنے یا کسی پر اعتراض کرنے کا حق رکھتا ہے ۔انسان کو اپنا نکتہ نظر بیان کا نسان کے دل و دماغ اور اس کے ضمیر پر قدغن نہیں لگایا جاسکتا ہے۔انسان کو اپنے جائز مطالبات کے لئے نہ صرف احتجاج کرنے کا حق ہے بلکہ اس کے خلاف لڑنے کا بھی حق ہے ۔ کیوں کہ انسان کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے دل اور ضمیر کی آواز بلند کرے۔
آزادی کے حقوق :
انسان ایک آزاد پسند مخلوق ہے وہ کسی کے غلامی میں نہیں رہ سکتا ہے ۔اس کی فطرت میں یہ بات ودعیت کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کی بندگی اور غلامی سے روگردانی کرے ۔اسلام کسی بھی فرد کو اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو غلامی کا طوق پہنائیے یا اس کو زبردستی اپنا غلام بنائیے۔دنیاکے کسی بھی قوم یا ملک کو قطعاََ اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے کم تر یا کمزور قوم کو اپنے قبضہ میں رکھے۔کسی فرد یا قوم کو اپنے قبضہ میں رکھنے کا مطلب ہی ہے کہ اس کے تمام اختیارات کو سلب کرنا اور اس کو سیاسی ، اقتصادی ، تعلیمی اور تہذیبی طور غرض کہ ہر سطح پر پستی اور پسماندہ رکھنا ہوتا ہے ۔
ملکیت اورجائداد کے حقوق :
اسلام شخصی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے ۔کسی بھی فرد یا ریاست کو اس پر اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کی زاتی ملکیت یا مال و ورثہ کو سلب کرے ۔ اسلام نے زاتی ملکیت کو خوش آئیند قرار دیا ہے بلکہ اگر اس کے ذریعہ سے ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچایا جائے تو یہ اور بھی خوش بختی اور صاحب فضیلت ہونے کی علامت ہے ۔ اسلام زاتی ملکیت کی حفاظت کی تعلیم بھی دیتا ہے ، مثلاً:اہل نجران اور ان کے تمام افراد کے لئے اللہ کی پناہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری ہے ،ان کے اموال ،زمین و جائداد ، ان کے مذہب و ملت ،ان کے غائبین و حاضرین اور ان کے خاندان اور تمام ماتحتوں پر ۔)قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراھیم ،کتاب الخراج ،دارالمعرفہ للطباعہ والنشر بیروت بدون تاریخ،ص:۷۲)
تکریم انسانیت :
انسان ازل سے ہی توقیر و تکریم کا مستحق ٹھہرا۔اور جب بھی اس کی تکریم اور عزت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے تو انسان اس کو برداشت نہیں نہیں کرتا ہے ۔اسلام نے انسان کی اس تکریم پسندی کا خاص خیا ل رکھا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس کو انسان کا ایک اہم حق قرار دیا ہے ۔اسلام قطعاََ بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتاہے کہ کسی انسان کی عزت کو پامال کیا جائے ۔اس تعلق سے اسلام نے ہر فرد کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ تکریم و توقیر کا معاملہ کرے اور معاملات برتنے میں ایک دوسرے کے عزت نفس کوٹھیس نہ پہنچائیے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم بنایا اوراس کو عزت و توقیر سے نوازا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی تکریم کرنا فرض ٹھہرایا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی ‘‘۔(الاسراء : ۷۰)
اہل معاہدہ اور کمزوروں پر ظلم و ناانصافی کرنا :
آج دنیا کے ہر کونے میں کمزوروں پر وسیع پانے پر ظلم و جبر ہورہا ہے ۔ظلم و جبر کا یہ بازار پورپی اور مغربی دنیا میں گرام ہے اور مشرق وسطی اور برصغیر میں بھی گرم ہے ۔ طاقت ور جہاںبھی اپنے سے کمتر اور کمزوروں کو پاتے ہیں ظلم و ناانصافی کی تمام سرحدوں کو پار کر دیتے ہیں ۔ اس ظلم اور انصافی کے خلاف ہر جگہ اور ر سطح پر نہ صرف آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت بلکہ عملی اقدامات اٹھانے کی بھی ضرورت ہیں ۔یہ عملی اقدامات پریشر گروپس اور اداروں کی بھی صورت میں ہوسکتے ہیں اور حکومت کی سطح پر بھی ۔اس تعلق سے اسلام کی رہنمائی اور اور تعلیمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ظلم کے خلاف اٹھانا ایک ایک عظیم عمل ہے ۔اس کے بارے میں اسلام کا موقف یہ ہے :خبر دار ! جو کسی معاہد پر کوئی ظلم کرے گا ۔یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا ،یا طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالے گا یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز حاصل کرے گا ،تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف دعویٰ پیش کروں گا ۔ ( ابو داؤد ،کتاب الخراج و الامارہ)
فون نمبر 6397700258