انسانی المیوں کی غلیظ تجارت!

Mir Ajaz
7 Min Read
شاہد محی الدین، کولگام 
میرے دادا جان ہمیشہ ایک ریڈیو اپنے پاس رکھا کرتے تھے اور دنیا بھر کی سرخیاں بغور سنتے اور ہمیں بھی حالاتِ حاضرہ سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں جو بھی واقعات رونما ہوتے اور کوئی بھی سائنسی کارنامہ انجام دیا جاتا، دادا جان ان سب چیزوں سے باخبر رہتے تھے۔ دادا جان کی زبان پر ہمیشہ بی بی سی، وائس آف امریکہ، اور ملک کی بہت ساری معیاری channels کا نام رہا کرتا تھا۔ یہی صورتحال دیگر تمام گھروں میں ہوا کرتی تھی۔مواصلاتی نظام کی کمی کے باوجود بھی لوگ پر سکون زندگی گزارتے تھے اور محدود وسائل کے باوجود معیاری خبروں کا انتخاب کیا جاتا تھا، جس سے معاشرے میں افراتفری کے امکانات بہت کم رہتے تھے۔ نجی زندگی کا تحفظ اولین ترجیحات میں شامل تھا۔ چاہےجرم کتنا بھی پیچیدہ ہو، اس چیز کو publically ایکسپوز کرنے کے عمل کو ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا تھا۔ دادا جان روز صبح سویرے اخبار لیا کرتے تھے اور یوں معیاری خبریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ اسکے برعکس عصر حاضر میں گر چہ بے شمار وسائل موجود ہیں۔ ہر فرد کے پاس اسمارٹ فونز دستیاب ہیں۔ لوگوں کے پاس اپنی رائے اظہار کرنے کے لیے کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز موجود ہیں اور explosion of knowledge کا سلسلہ جاری و ساری ہے لیکن اس چیز نے ساتھ ہی بے شمار نقصانات کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔
اگر ہم کشمیر کی بات کریں تو آئے روز خود ساختہ صحافی حضرات اپنی سوشل میڈیا چینلز کا TRP  بڑھانے کے لئے کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ کسی بھی جگہ کوئی سانحہ پیش آئے تو یہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر صحافت کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور حکومت اور پولیس سے پہلے ان جگہوں پر پہنچ کر ان حساس معاملات کو عوام کے سامنے پیش کر کے افراتفری پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس چیز سے نہ صرف عوام میں رنج و غم کا سماں برپا ہوتا ہے بلکہ کئی لوگ جو ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں مزید پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چند روز پہلے بٹہ گنڈ سرینگر میں پیش آئے دلدوز حادثے کو لیکر جو کردار ان خود ساختہ صحافی حضرات نے ادا کیا اس پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ایک طرف پولیس اہلکار اور ایس ڈی آر ایف کی جانب سے لاشوں کو نکالنے کی کوششیں جاری تھیں تو وہی دوسری جانب یہ خود ساختہ صحافی حضرات ان ماؤں اور بہنوں کے سامنے کیمرا لیکر ان کی بے بسی کو عوام الناس کے سامنے براہ راست نشر کر رہے تھے۔ خدارا کوئی مجھے اس بات کا جواب دے کہ کل کو اگر اسی ماں اور بہن کو اپنی اس بے بسی پر نظر پڑی تو اس پر کیا گزرے گی۔ یہ لوگ تو TRP بڑھانے میں کامیاب ہوگئے اور صحافت کے اصول و ضوابط کو نیلام کر کے چلے گئے، بلا اب ان لوگوں کو لواحقین کے جذبات و احساسات سے کیا سروکار۔ رہی بات ان ذی عزت صحافیوں کی، وہ تو روز اس چیز کی گوہار لگاتے پھرتے ہیں کہ براہ کرم ان چیزوں کی روک تھام کی جائے لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا۔ لوگ ان کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور یوں اُن لوگوں کی پرموشن ہوئی جن کی وجہ سے آج کشمیر کے حالات دگر گوں ہیں ۔ یہی ایک خاص وجہ ہے کہ صحافیوں کا حساس طبقہ خاموش رہنے پر مجبور ہوگیا کیوں کہ عوام الناس بھی اب ان مسخروں اور ڈرامے بازوں کا انتخاب کرتے ہیں جنہوں نے یہاں کے ماحول کو خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ معلومات سے بھری پڑی ویڈیوز تو وہ لوگ دیکھتے ہیں جہاں عوام بھی حساس ہو اور صحافتی ادارے بھی حساسیت سے کام لینا پسند کرتے ہوں۔ اس صورتحال سے از خود پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کہاں پر کھڑا ہے۔ سوشل میڈیا ایک litmus test کا کام کرتا ہے ،جہاں اس بات کا بڑی آسانی کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام الناس تباہی کی طرف جارہی ہے یا کامیابی کی طرف۔ چند مغربی ممالک میں اس چیز کو بہت زیادہ غور و فکر کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ عوام، misinformation کا شکار نہ ہو جائے اور چند ممالک میں تو social media اسی وجہ سے banned ہے تاکہ لوگ سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی تعمیری اور تخلیقی کام میں صرف کریں۔
اس چیز کے خاتمے کے لئے عوام الناس کا رول بہت اہم ہیں۔ عوام الناس کی بیداری سے ہی معیاری صحافت کو دوبارہ تقویت مل سکتی ہے اور خود ساختہ صحافت کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ سوشل نیٹ ورک پہ ان نام نہاد اور جاہل صحافیوں کی TRP بڑھانے میں کہیں نہ کہیں ہمارا ہی ہاتھ ہے۔ لیکن ہم ہی اس کو کسی ذی شعور صحافی کی طرف shift کرسکتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح اور تبدیلی کے لئے لازمی ہے کہ قوم کا باشعور طبقہ سامنے آئے اور ہوش کے ناخن لیں۔ کہیں پھر ایسا وقت نہ آئے کہ ہم سب کو ان لوگوں کے لایعنی ا کاموں اور غیر مہذب رویوں کی وجہ سے پچھتاوے کے سوا کوئی چیز حاصل نہ ہو۔
Share This Article